Maarif-ul-Quran - Hud : 44
وَ قِیْلَ یٰۤاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَكِ وَ یٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَ غِیْضَ الْمَآءُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ وَ اسْتَوَتْ عَلَى الْجُوْدِیِّ وَ قِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
وَقِيْلَ : اور کہا گیا يٰٓاَرْضُ : اے زمین ابْلَعِيْ : نگل لے مَآءَكِ : اپنا پانی وَيٰسَمَآءُ : اور اے آسمان اَقْلِعِيْ : تھم جا وَغِيْضَ : اور خشک کردیا گیا الْمَآءُ : پانی وَقُضِيَ : اور پورا ہوچکا (تمام ہوگیا) الْاَمْرُ : کام وَاسْتَوَتْ : اور جا لگی عَلَي الْجُوْدِيِّ : جودی پہاڑ پر وَقِيْلَ : اور کہا گیا بُعْدًا : دوری لِّلْقَوْمِ : لوگوں کے لیے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور حکم آیا اے زمین نگل جا اپنا پانی اور اے آسمان تھم جا اور سو کھا دیا گیا پانی اور ہوچکا کام اور کشتی ٹھہری جو دی پہاڑ پر اور حکم ہوا کہ دور ہو قوم ظالم۔
چوتھی آیت کے آخر میں فرمایا کہ زمین و آسمان نے احکام کی تعمیل کی تو طوفان کا قصہ ختم ہوگیا، اور سفینہ نوح ؑ جودی پہاڑ پر ٹھہر گیا، اور ظالموں کو ہمیشہ کے لئے " رحمت سے دور " کہہ دیا گیا۔
جودی پہاڑی آج بھی اس نام سے قائم ہے اس کا محل وقوع حضرت نوح ؑ کے وطن اصلی عراق، موصل کے شمال میں جزیرہ ابن عمر کے قریب آرمینیہ کی سرحد پر ہے، یہ ایک کوہستانی سلسلہ ہے جس کے ایک حصہ کا نام جودی ہے، اسی کے ایک حصہ کو اراراط کہا جاتا ہے، موجودہ تورات میں کشتی ٹھہرنے کا مقام کوہ اراراط کو بتلایا ہے، ان دونوں روایتوں میں کوئی ایسا تضاد نہیں، مگر مشہور قدیم تاریخوں میں بھی یہی ہے کہ نوح ؑ کی کشتی جودی پہاڑ پر آکر ٹھہری تھی۔
قدیم تاریخوں میں یہ بھی مذکور ہے کہ عراق کے بہت سے مقامات میں اس کشتی کے ٹکڑے اب تک موجود ہیں جن کو تبرک کے طور پر رکھا اور استعمال کیا جاتا ہے۔
تفسیر طبری اور بغوی میں ہے کہ نوح ؑ دس (10) ماہ رجب کو کشتی میں سوار ہوئے تھے، چھ مہینہ تک یہ کشتی طوفان کے اوپر چلتی رہی، جب بیت اللہ شریف کے مقام پر پہنچی تو سات مرتبہ طواف کیا، اللہ تعالیٰ نے اپنے بیت کو بلند کرکے غرق سے بچا لیا تھا، پھر دس (10) محرم یوم عاشورا میں طوفان ختم ہو کر کشتی جبل جودی پر ٹھہری، حضرت نوح ؑ نے اس روز شکرانہ کے طور پر روزہ رکھا اور کشتی میں جتنے آدمی ساتھ تھے سب کو روزہ رکھنے کا حکم دیا، (مظہری و قرطبی)
روز عاشورا یعنی محرم کی دسویں تاریخ کی اہمیت تمام شرائع انبیاء میں قدیم چلی آتی ہے ابتداء اسلام میں رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشوراء کا روزہ فرض تھا، رمضان کی فرضیت نازل ہونے کے بعد فرض نہیں، مگر سنت اور ثواب عظیم ہمیشہ کے لئے ہے۔
Top