Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Hud : 41
وَ قَالَ ارْكَبُوْا فِیْهَا بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖؔىهَا وَ مُرْسٰىهَا١ؕ اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَقَالَ
: اور اس نے کہا
ارْكَبُوْا
: سوار ہوجاؤ
فِيْهَا
: اس میں
بِسْمِ اللّٰهِ
: اللہ کے نام سے
مَجْرٖ۩ىهَا
: اس کا چلنا
وَمُرْسٰىهَا
: اور اس کا ٹھہرنا
اِنَّ
: بیشک
رَبِّيْ
: میرا رب
لَغَفُوْرٌ
: البتہ بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: نہایت مہربان
(نوح نے) کہا کہ خدا کا نام لیکر (کہ اسی کے ہاتھ میں) اس کا چلنا اور ٹھہرنا (ہے) اس میں سوار ہوجاؤ۔ بیشک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے۔
آیت نمبر
41
تا
44
اللہ تعالیٰ کا ارشاد : وقال ارکبوافیھاسوار ہونے کا حکم ہے۔ اس میں یہ احتمال ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا اور یہ احتمال بھی ہے کہ یہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف سے اپنی قوم کو ہو۔ رکوب کا معنی ہوتا ہے کسی کی پشت پر بلند ہونا۔ کہا جاتا ہے : رکبہ الدیندین اس پر سوار ہوا۔ اور کلام میں حذف ہے یعنیارکبوا ال ماء فی السفینۃ کشتی میں پانی پر سوار ہوجاؤ۔ ایک قول یہ ہے (اس کا) معنی ” ارکبوھا “ ہے یعنی اس پر سوار ہوجا۔ اور فیتاکید کے لیے ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ان کنتم للرء یاتعبرون(یوسف) (للرءیا میں لام تبیین کے لیے ہے) اور فیکا فائدہ یہ ہے کہ انہیں حکم دیا گیا کہ وہ کشتی کے پیٹ میں (اندر) ہوجائیں نہ کہ اس کی پشت پر۔ عکرمہ نے کہا : حضرت نوح (علیہ السلام) دس رجب کو کشتی میں سوار ہوئے اور کشتی دس محرم کو جودی (پہاڑ) پر رکی۔ تو یہ چھ ماہ ہیں، یہ قول قتادہ نے کیا اور اس نے (اس بات کا) اضافہ کیا اور وہ یوم عاشورہ ہے۔ پس آپ (نوح) نے اپنے ساتھیوں کو کہا : کو روزہ دار ہے وہ اپنا روزہ پورا کرے اور جو روزہ دار نہیں وہ روزہ رکھے۔ طبری نے اس سلسلہ میں نبی کریم ﷺ سے حدیث ذکر کی ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) رجب کی یکم کو کشتی میں سوار ہوئے اور پورا مہینہ روزہ رکھا کشتی یوم عاشورہ تک ان کو لے کرچلی اور اس (یوم عاشورہ) میں جودی (پہاڑ) پر رکی، تو حضرت نوح (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں نے اس دن کا روزہ رکھا۔ طبری نے ابن اسحاق سے جو ذکر کیا ہے وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ آپ پانی پر ایک سال تک مقیم رہے، کشتی بیت اللہ کے پاس سے گزری تو اس نے سات چکر لگائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس (بیت اللہ) کو غرق نہ ہونے دیا۔ پھر کشتی یمن کی طرف گئی اور جودی (پہاڑ) کی طرف واپس ہوئی پس اس پر ٹھہرگئی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : بسم اللہ مجرئھا ومرسٰھا اہل حرمین اور اہل بصرہ نے ان دونوں کو میم کے ضمہ کے ساتھ پڑھا سوائے اس آدمی کے جو جدا ہوگیا، اس معنی پر کہ اللہ کے نام سے اس کا چلنا اور لنگر انداز ہونا ہے۔ پسمجرئھا اور مرسٰھامبتدا ہونے کی وجہ سے محل رفع میں ہے یہ بھی جائز ہے کہ یہ محل نصب میں ہو (اس صورت میں) تقدیر عبارت ہوگی : اللہ کے نام سے اس کے چلنے کا وقت ہے۔ پھر وقت کو حذف کردیا گیا اور مجرئھاکو اس کے قائم مقام کردیا گیا۔ اعمش، حمزہ اور کسائی نے ” بسم اللہ مجرئھا “ میم کے فتحہ کے ساتھ اور مرساھامیم کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یحییٰ بن عیسیٰ نے اعمش عن یحییٰ بن وثاب بسم اللہ مجراھا مرساھادونوں میں میم کے فتحہ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اس بنیاد پر کہ یہ مصدر ہے جر تتجری جر یا ومجری اور دست رسوا ومرسی سے وہ لنگر انداز ہوجائے۔ مجاہد، سلمان بن جندب، عاصم جحدری اور ابورجاء نے ” بسم اللہ مجرئھا ومرسیھا “ پڑھا ہے اللہ عزوجل کی صفت کے طور پر محل جر میں۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ محل رفع میں ہو مبتدا مضمر ہونے کی بنیاد پر یعنی ھو مجریھا ومرسیھاحال ہونے کی وجہ سے بھی نصب جائز ہے۔ ضحاک نے کہا : حضرت نوح (علیہ السلام) جب بسم اللہ مجراھاکہتے تو وہ چل پڑتی اور جب بسم اللہ مرساھاکہتے تو وہ رک جاتی۔ مروان بن سالم نے طلحۃ بن عبید اللہ بن کریز سے انہوں نے حضرت حسین بن علی سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” میری امت کے لیے غرق سے امان ہے جب وہ کشتی پر سوار ہوں (اور یہ پڑھیں) اللہ کے نام سے کو بہت ہی مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔ وماقدروا اللہ حق قدرہٖ والارض جمیعًاقبضتہ یوم القیٰمۃ والسمٰوٰت مطویت بیمینہٖ ؕ سبحٰنہ و تعلی عمایشرکون(الزمر) بسم اللہ مجرئھا ومرسٰھا ؕ ان ربی لغفوررحیم (ہود) اور نہ قدر پہچانی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی جس طرح قدر پہچاننے کا حق تھا اور (اس کی شان تو یہ ہے) ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور سارے آسمان لپٹے ہوئے اس کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے پاک ہے وہ ہر عیب سے اور برتر ہے لوگوں کے شرک سے۔ اس آیت میں ہر کام کی ابتداء کے وقتبسم اللہ کے ذکر پر دلیل ہے، جیسا کہ ہم (قرطبی) نے اس کو بسم اللہ میں بیان کردیا۔ والحمدللہ۔ ان ربی لغفور رحیم یعنی کشتی والوں کو۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : جب گوبر اور گندگی زیادہ ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف وحی کی جہ ہاتھی کی دم کو ہاتھ سے ٹٹولو۔ تو اس سے خنزیر اور خنزیرہ گرے تو وہ دونوں گوبر کی طرف آئے تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے کہا : اگر میں اس خنزیر کی دم ٹٹولوں : پس آپ نے ایسا کیا تو اس سے چوہا اور چوہیا نکلے جب وہ دونوں گرے تو کشتی اور اس کی رسی کی طرف آئے۔ اس (چوہیا) نے اس کو کاٹا اور اس نے سامان اور زادراہ کو کاٹا یہاں تک کہ ان (کشتی والوں) کو کشتی کی رسیوں کے بارے میں خطرہ لاحق ہوا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف وحی کی کہ شیر کی پیشانی پر ہاتھ پھیرو تو آپ نے اس کو ہاتھ پھیرا، تو اس سے دو بلیاں نکلیں انہوں نے چوہیا کو کھالیا۔ جب حضرت نوح (علیہ السلام) نے شیر کو کشتی میں سوار کیا تو عرض کیا : اے رب ! میں اس کو کہاں سے کھلاؤں گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں عنقریب اس کو مغشول کردوں گا۔ تو اس کو بخار نے آلیا تو وہ سارو زمانہ (ہمیشہ) بخار زدہ ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : بہائم میں سے پہلے جس کو حضرت نوح (علیہ السلام) نے سوار کیا وہ بطخ ہے جب کہ جس کو سب سے آخر میں سوار کیا وہ گدھا ہے۔ انہوں نے کہا : شیطان اس (گدھے) کی دم سے لٹک گیا۔ اور اس (گدھے) کی اگلی ٹانگیں کشتی میں داخل ہوچکی تھیں جب کہ پچھلی ٹانگیں باہر تھیں، تو گدھا اچھلنے لگا اور داخل نہ ہوسکا، حضرت نوح (علیہ السلام) نے بلند آواز سے کہا : داخل ہو، تیرے لیے ہلاکت ہو، تو وہ اچھلنے لگا، آپ نے فرمایا : داخل ہو تیرے لیے ہلاکت ہو، اگرچہ ہو، اگرچہ تیرے ساتھ شیطان ہی کیوں نہ ہو، یہ کلمہ غلطی سے آپ کی زبان پر جاری ہوگیا۔ (گدھا) داخل ہو اور شیطان جھپٹا اور داخل ہوگیا۔ پھر حضرت نوح (علیہ السلام) نے اسے کشتی میں گانے گاتے ہوئے دیکھا تو اس کو کہا : اے لعنتی ! تجھے میرے گھر میں کس نے داخل کردیا ؟ اس نے کہا : آپ نے مجھے اجازت دی اس نے (واقعہ) آپ کے سامنے ذکر کیا، آپ نے اس کو فرمایا : اٹھ نکل جا۔ اس نے کہا : آپ کے لیے ضروری تھا کہ آپ مجھے اپنے ساتھ اٹھائیں۔ پس ان کے گمان کے مطابق وہ کشتی کی پشت پر تھا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس پتھر کے دو چمک دار نگینے تھے۔ ایک سورج کی جگہ اور دوسرا چاند کی جگہ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : ان میں سے ایک دن کی سفیدی کی طرح سفید تھا اور دوسرا رات کی سیاہی کی طرح تھا۔ آپ ان کے ذریعے نماز کے اوقات کو پہچانتے تھے۔ جب شام ہوتی اس کی سیاہی دوسرے کی سفیدی پر غالب آجاتی اور جب وہ صبح کرتے تو اس کی سفیدی دوسرے کی سیاہی پر غالب آجاتی اوقات کے حساب سے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : وھی تجری بھم فی موجٍ کالجبال، موجٍ ، موجۃ کی جمع، اس سے مراد وہ (لہریں ہیں) جو ہوا کی شدت کے وقت زیادہ پانی سے اٹھتی ہیں۔ کاف تشبیہ کے لیے ہے۔ یہ موج کی صفت ہونے کی وجہ سے محل جر میں ہے۔ تفسیر میں آیا ہے کہ پانی ہر چیز سے پندرہ ذراع تجاوز کر گیا۔ ونادٰی نوح ابنہ ایک قول ہے : وہ کافر تھا اور اس کا نام کنعان تھا، ایک قول ہے : یام۔ سیبویہ کے قول کے مطابقونادٰی نوح ابنہلفظوں میں ابنہ سے واؤ کے حذف کے ساتھ بھی جائز ہے اور اس نے شعر پڑھا : لہ زجل کا نہ صوت حاد اور جہاں تکونادٰی نوحۨ ابنہ وکانکا تعلق ہے تو یہ قراءت شاذہ ہے یہ حضرت علی ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور عروہ بن زبیر سے مروی ہے۔ ابو حاتم نے گمان کیا کہ یہ جائز ہے اس بنیاد پر کہ اس سے ان کی مرادابنھا ہے۔ الف کو حذف کردیا گیا جس طرح آپانبہکہتے ہیں۔ پس آپ واؤ کو حذف کردیتے ہیں۔ نحاس نے کہا : اور یہ جو ابو حاتم نے کہا ہے یہ سیبویہ کے مذہب کے مطابق درست نہیں کیونکہ لف خفیف ہے اس کو حذف کرنا جائز نہیں جب کہ واؤ ثقیل ہے اس کا حذف کرنا جائز ہے۔ وکان فی معزلٍیعنی اپنے باپ کے دین سے۔ ایک قول ہے : کشتی سے۔ کہا گیا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو پتہ نہ تھا کہ ان کا بیٹا کافر ہے کہ ان کا گمان تھا کہ وہ مومن ہے، اسی وجہ سے آپ نے اسے فرمایا : ولا تکن مع الکٰفریناس کا بیان آئے گا۔ یہ ندا قوم کو غرق ہونے کے یقین اور ناامیدی کی صورت سے پہلے تھی، بلکہ یہ تنور کے پھوٹنے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے لیے علامت کے ظاہر ہر نے کے آغاز میں تھی۔ عاصم نے یبنی ارکب معنایا کے فتح کے ساتھ پڑھا ہے اور باقیوں نے اس کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یابنی کی اصل یہ ہے کہ یہ تین یا کے ساتھ ہو۔ یاتصغیر، یافعل اور یا اضافت۔ یا تصغیرکو فعل کے لام کلمہ میں مدغم کردیا گیا، یا اضافت کی وجہ سے فعل کے لام کلمہ کو کسرہ دیا گیا اور یا اضافت کو تنوین کی جگہ واقع ہونے کی وجہ سے حذف کردیا گیا، یا اس کے اور را کے ساکن ہونے کی وجہ سے حذف کردیا گیا۔ یہ یا کی کسرہ کے قراءت کی اصل ہے اور یہی (اس جگہ پر) فتح کی قراءت کی اصل بھی ہے، کیونکہ یا اضافت کو الف کے خفیف ہونے کی وجہ سے الف کے ساتھ بدل دیا گیا پھر الف کے حذف ہونے والے حرف کے عوض میں آنے کے سبب یا الف اور را کے ساکن ہونے کے سبب حذف کردیا گیا : جہاں تک عاصم کی قراءت کا تعلق ہے تو یہ مشکل ہے۔ ابو حاتم نے کہا : اس سے مرادیابنیاہ ہے پھر الف اور ہا کو حذف کردیا جاتا ہے۔ نحاس نے کہا : میں نے علی بن سلیمان کو دیکھا کہ ان کا نقطہء نظر اس کے عدم جواز کا تھا، کیونکہ الف خفیف ہے۔ ابو جعفر نحاس نے کہا : مجھے معلوم نہیں کہ نحویوں میں سے سوائے ابواسحاق کے کسی نے اس کلام کو جائزقرار دیا ہو۔ پس اس نے یہ گمان کیا ہے کہ فتحہ دو جہتوں سے ہے اور کسرہ بھی دوجہتوں سے ہے۔ پس فتحہ اس صورت میں (ہوگا) کہ وہ یا کو الف سے بدلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خبر دیتے ہوئے فرمایا : یاویلتاجس طرح کہ شاعر نے کہا : فیا عجبا من رحلھا المتحمل پس وہ یابنیامراد لیتے ہی پھر التقاء ساکنین کی وجہ سے الف کو حذف کردیا گیا، جس طرح آپ کہتے ہیں : جاء عبدا اللہ تثنیہ کے بارے میں۔ اور دوسری جہت یہ ہے کہ الف کو حذف کردیا جائے کیونکہ نداء مقام حذف ہوتا ہے۔ اور کسرہ اس بنیاد پر ہوگا کہ ندا کی وجہ سے یا کو حذف کردیا جائے اور دوسری جہت یہ ہے کہ اس کو التقاء ساکنین کی وجہ سے حذف کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : قال ساٰویٓیعنی میں لوٹ جاؤں گا اور مل جاؤں گا۔ الیٰ جبل یعصمنیپس وہ مجھے بچالے گا۔ من المآء پس میں غرق نہیں ہوں گا۔ قال لاعاصم الیوم من امر اللہ یعنی کوئی بچانے والا نہیں، پس یہ دن وہ ہے جس میں کفار پر عذاب ثابت ہوچکا ہے۔ عاصم منصوب ہوگا۔ یہ بھی جائز ہے کہ ” لاعاصم الیوم میں لابمعنی لیس “ ہو۔ الا من رحمیہ محل نصب میں ہے پہلے سے استثنا ہے، یعنی لیکن اللہ تعالیٰ جس پر رحم فرمائے پس وہ اسکو بچا لے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ محل رفع میں ہو اس بنیاد پر کہ عاصم بمعنی ہو جسطرح ماء دافق میں دافق مدفوق ہے۔ اس صورت میں استثنا متصل ہوگی، شاعر نے کہا : دع المکارم لا تنھض لیغی تھا واقعد فإنک أنت الطاعم الکاسی یعنی ” المطعور المکسو “۔ نحاس نے کہا : اس کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے اس میں سب سے بہتر بات یہ ہے کہ منمحل رفع میں ہے، معنی ہوگا۔ آج اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی نہیں بچا سکتا سوائے رحم فرمانے والے کے یعنی سوائے اللہ کے، یہ طبری کا اختیار کردہ (موقف) ہے۔ اور یہ عمدہ ہے اس اعتبار سے کہ آپ کو نہ تو عاصم بمعنی معصوم کرنا پڑے گا کہ آپ اس کو اس کے باب سے ہی خارج کردیں اور نہ ہی الابمعنی لکن کرنا پڑے گا۔ وحال بینھما الموج یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے بیٹے کے درمیان۔ فکان من المغرقین کہا گیا ہے کہ وہ گھوڑے پر سوار تھا تو اس نے شخصیت پر غرور کیا اور اس کی وجہ سے تکبر میں مبتلا ہوگیا، جب اس نے دیکھا کہ پانی آگیا ہے تو اس نے کہا : اے میرے باپ ! تنور ابل پڑا، تو اس کے باپ نے اسے کہا : اے بیٹے ! سوار ہوجاؤ ہمارے ساتھ، وہ واپس نہ لوٹا تھا کہ ایک بڑی موج آئی تو اس نے اس کو اور اس کے گھوڑے کو نگل لیا اور وہ اس کے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیان حائل ہوگئی پس وہ غرق ہوگیا۔ ایک قول یہ ہے کہ اس نے اپنے لیے شیشے کا ایک ایسا گھر بنایا تھا جس میں پانی (کے عذاب) سے اس نے پناہ لینی تھی۔ پس جب تنور ابلا تو وہ اس میں داخل ہوگیا اور اندر سے اس کو تالا لگا دیا اس میں غوطے کھاتا رہا اور بیشاب کرتا رہا یہاں تک کہ اسی کے سبب غرق ہوگیا۔ اور کہا گیا ہے کہ وہ پہاڑ جس کی اس نے پناہ لی تھی وہ طور سیناء ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : وقیل یٰارض ابلعی مآءک ولیسمآء اقلعییہ مجاز ہے کیونکہ وہ (زمین، آسمان) موات (جن میں زندگی نہ ہو) ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے : ان میں وہ قوت رکھ دی گئی ہے جس کے ذریعے امتیاز ہوسکتا ہے اور جس نے کہا کہ یہ مجاز ہے اس نے کہا ہے : اگر عرب وعجم کے کلام کو تلاش کرکے اس میں غور وفکر کیا جائے تو اس آیت کا حسن نظم اس کی بلاغت اور اس میں موجود معانی کے حوالے سے کوئی کلام اس کا مثل نہیں ہے۔ حدیث میں ہے :” بیشک اللہ تعالیٰ زمین کو سال یا دو سال میں بارش سے خالی نہیں چھوڑتا اور اس نے آسمان سے کبھی بھی پانی نازل نہیں فرمایا مگر ایک فرشتے کی حفاظت میں جو اس کا ذمہ دار ہوتا ہے سوائے طوفان (نوح) کے پانی کے کہ یہ آسمان سے بغیر کسی فرشتے کی حفاظت کے نازل ہوا۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے : انا لماطغا المآء حملنٰکم فی الجاریۃ (الحاقہ) کشتی ان کو لے کر چلی یہاں تک کہ (کفار کی ہلاکت اور مومنین کی نجات) کا امر پورا ہوگیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے آسمان سے موسلادھار بارش کے پانی کو رکنے اور زمین نگلنے کا کلمہ ارشاد فرمایا، کہا جاتا ہے : بدع الماء یبلعہ، منعی منع باب سے اور بدع، یبلع، حمد، یحمد باب سے یہ دو لغتیں ہیں جو کسائی اور قراء نے بیان کیا۔ اور ایسی جگہ جو پانی پیتی ہو اس کو بالوعۃ کہا جاتا ہے۔ ابن عربی نے کہا : دونوں پانی جو زمین میں تھا اور جو آسمان سے نازل ہوا، جمع ہوگئے اس امر کی وجہ سے جو مقدر کردیا گیا تھا، پس اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اترنے والے پانی کو تھمنے کا حکم دیا، اس میں سے زمین نے ایک قطرہ بھی جذب نہ کیا اور زمین کو صرف وہی پانی نکلنے کا حکم دیا جو اس سے نکلا تھا، یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی وجہ سے ہے : وقیل یٰارض ابلغی مآءک ولیسمآء اقلعی وغیض الماء کہا گیا ہے : اللہ تعالیٰ نے دونوں پانی جدا جدا فرمائے پس جو زمین کا پانی تھا تو اس کو حکم دیا کہ تو اس کو نگل جا اور آسمان کا پانی دریا (سمندر) بن گیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : وغیض المآء یعنی وہ کم ہوگیا، کہا جاتا ہے : غاض الشئ وغضتہ أناجس طرح کہا جاتا ہے : نقص بنفسہ ونقصہ غیرہ کہ وہ خود بخود کم ہوگیا اور کسی اور اس سے فارغ ہوگیا۔ یعنی اس نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کو مکمل طور پر اور مضبوطی سے ہلاک کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی عورتوں کے رحموں کو غرق سے چالیس سال پہلے بانجھ کردیا تھا، پس جو ہلاک ہوئے ان میں کوئی چھوٹا نہ تھا اور صحیح بات یہ ہے کہ اس نے طوفان کے ذریعے بچوں کو بھی ہلاک کیا جس طرح پرندے اور درندے ہلاک ہوئے، اور یہ غرق بچوں، جانوروں اور پرندوں کے لیے بطور سزا نہیں تھا، بلکہ وہ اپنی طبعی موت کے سبب مرے۔ حکایت بیان کی گئی ہے کہ جب گلیوں میں پانی زیادہ ہوگیا تو ایک بچے کی ماں بچے کے بارے میں ڈر گئی، وہ اس سے بہت زیادہ محبت کرتی تھی، وہ اس کو لے کر پہاڑ کی طرف نکلی حتی کہ پہاڑ کے تیسرے حصے تک پہنچ گئی جب پانی وہاں پہنچا، وہ نکلی حتی کہ اسکے دوتہائی تک پہنچ گئی، جب پانی وہاں پہنچا تو وہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئی، جب پانی اسکی گردن تک پہنچا تو اس نے اپنے بچے کو ہاتھ پر اوپر اٹھالیا حتی کہ پانی اس کو بہا کرلے گیا۔ اگر اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی ایک پر رحم فرماتا تو اس بچے کی ماں پر رحم فرماتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : واستوت علی الجودی وقیل بعدالقوم الظلمین یعنی ان کے لیے ہلاکت ہے۔ جودی، موصل کے قریب ایک پہاڑ ہے، اس پر وہ (کشتی) محرم کی دس یعنی یوم عاشورہ کو رکی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اس دن روزہ رکھا اور اپنے سب ساتھیوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ لوگوں، وحشی جانوروں، پرندوں، چوپاؤں اور ان کے علاوہ نے بھی روزہ رکھا اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرتے ہوئے۔ یہ معنی پہلے گزر چکا ہے۔ کہا گیا ہے : وہ دن جمعہ کا تھا۔ روایت بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کی طرف وحی فرمائی کہ کشتی ان میں سے کسی ایک پر رکے گی تو انہوں نے تکبر کیا، اور جودی باقی بچ گیا جس نے تکبر نہ کیا اللہ کی بارگاہ میں تواضع کرتے ہوئے تو کشتی اس پر رکی اور اسی پر اس کی لکڑیاں باتی رہیں۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” اس (کشتی) کی کوئی چیز باقی رہ گئی جس کو اس امت کے ابتدائی لوگوں نے پایا ہے “۔ مجاہد نے کہا : پہاڑ بلند ہوئے اور انہوں نے تکبر کیا تاکہ غرق انکو نہ پہنچ سکے، پس پانی انسے پندرہ ذراع بلند ہوگیا اور جودی نے اللہ تعالیٰ کے حکم کیوجہ سے خشوع و خضوع اختیار کیا وہ غرق نہ ہوا اور کشتی اس پر رک گئی۔ ایک قول یہ ہے کہ جودی ہر پہاڑ کا نام ہے۔ اسی سے زید بن عمروبن نفیل کا قول ہے : سبحانہ ثم سبحانا یعودلہ و قبلنا سبح الجودی والحمد کہا جاتا ہے کہ جودی جنت کے پہاڑوں میں سے ہے اس لیے وہ (کشتی) اس پر رکی، کہا جاتا ہے : اللہ تعالیٰ نے تین آدمیوں کی وجہ سے تین پہاڑوں کو عزت بخشی، جودی کو حضرت نوح (علیہ السلام) ، طور سینا کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حرا کو حضرت محمد ﷺ کی وجہ سے۔ مسئلہ : جب جودی نے تواضع اور خضوع اختیار کیا (تو اللہ تعالیٰ نے) اسے عزت دے دی اور جب اس کے علاوہ (دیگر پہاڑ) بلند ہوئے اور انہوں نے بلندی کو چاہا تو اس نے انہیں ذلت دی۔ یہی اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہے اپنی مخلوق کے بارے میں، وہ اٹھاتا ہے جو خشوع کرے اور گراتا ہے کو بلندی چاہے۔ کہنے والے نے بڑی عمدہ بات کہی ہے : وإذا تذللت الرقاب تخشعا منا إلیک فعزھا فی ذلھا ” اور جب ہم میں سے لوگوں نے ڈرتے ہوئے تیری بارگاہ میں تذلل اختیار کیا تو ان (لوگوں) کی عزت انکے تذلل میں ہے “ صحیح بخاری اور مسلم میں حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے انہوں نے کہا : نبی کریم ﷺ کی ایک اونٹنی تھی جس کا نام عضباء تھا، اس سے سبقت نہ لی جاسکتی تھی، ایک عربی اپنی سواری پر آیا تو وہ اس سے سبقت لے گیا تو مسلمانوں کو اس سے بہت زیادہ رنج ہوا۔ انہوں نے کہا : عضباء پیچھے رہ گئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” اللہ نے اپنے اوپر یہ لازم کرلیا ہے کہ جس چیز کو دنیا میں سر بلند کرتا ہے اس کو (ایک بار) سرنگوں بھی کرتا ہے “۔ امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت بیان کی جو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے لی کہ آپ ﷺ نے فرمایا :” صدقہ کسی مال میں کمی نہیں کرتا اور معافی مانگنے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت میں اضافہ کرتا ہے اور جو شخص بھی اللہ کی بارگاہ میں تواضع کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسکو سر بلند کرتا ہے “۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :” اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی ہے کہ تم تواضع کروحتی کہ کوئی شخص دوسرے پر ظلم نہ کرے اور کوئی شخص دوسرے پر فخر نہ کرے “۔ اسکو امام بخاری نے روایت کیا ہے مسئلہ۔ اس میں ہم حضرت نوح (علیہ السلام) کا ان کی قوم کے ساتھ واقعہ ذکر کریں گے اور کشتی کا کچھ کریں گے۔ حافظ ابن عسا کرنے اہنی تاریخ میں حضرت حسن ؓ سے ذکر کیا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) پہلے رسول ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اہل زمین کی طرف مبعوث فرمایا، اس کی وجہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ولقد ارسلنا نوحًا الہۃ قومہٖ فلبث فیھم الف سنۃٍ الا خمسین عامًا (العنکبوت :
14
) اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وہ ان میں ایک ہزار سال ٹھہرے مگر پچاس سال اور ان میں گناہ گار اور جابر لوگ بہت زیادہ تھے اور انہوں نے بہت زیادہ تکبر کیا، حضرت نوح (علیہ السلام) ان کو رات، دن مخفی طور پر اور اعلانیہ طور پر دعوت دیتے رہے، آپ بہت زیادہ صبر کرنے والے بردبار تھے، انبیاء میں سے کسی پر اتنی سختیاں نہیں آئیں جتنی کہ حضرت نوح (علیہ السلام) پر آئیں۔ وہ لوگ آپ کے پاس آتے تو گلہ دباتے یہاں تک کہ ادھ موا کرکے چھوڑتے، مجالس میں وہ آپ کو مارتے اور مجالس سے باہر نکال دیتے، آپ ایسا کرنے والے پر بددعا نہ فرماتے بلکہ ان کے لیے دعا کرتے اور کہتے : رب اغفر لقومی فانھم لایعلموناے میرے رب ! میری قوم کو معاف فرماپس یہ نہیں جانتے۔ یہ چیز ان پر کسی قسم کا اضافہ نہ کرتی سوائے ان (حضرت نوح علیہ السلام) سے فرار کے حتیٰ کہ اگر آپ ان میں سے کسی آدمی سے گفتگو کرتے تو وہ اپنے سر کو کپڑے سے ڈھانپ لیتا اور اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیتا تاکہ وہ آپ کے کلام میں سے کچھ بھی نہ سن سکے۔ پس اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد (دلالت کرتا) ہے۔ وانی کلما دعوتھم لتغفر لھم جعلوٓا اصابعھم فیٓ اٰذانھم واستغشواثیابھم (نوح :
7
) اور میں بھی انہیں دعوت دیتا ہوں تاکہ تو انہیں معاف کردے تو وہ اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال دیتے ہیں اور اپنے کپڑے لپیٹ لیتے ہیں۔ مجاہد اور عبید بن عمیر نے کہا : وہ آپ کو مارتے حتی کہ آپ پر غشی طاری ہوتی جب آپ کو افاقہ ہوتا تو آپ کہتے : اے میرے رب ! میری قوم کو معاف فرماپس یہ نہیں جانتے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : حضرت نوح (علیہ السلام) کو مارا جاتا پھر کپڑے میں لپیٹ دیا جاتا اور آپ کو اپنے گھر میں پھینک دیا جاتا وہ (یہ) خیال کرتے کہ آپ فوت ہوگئے ہیں پھر آپ نکلتے اور ان کو دعوت دیتے، حتی کہ آپ اپنی قوم کے ایمان سے مایوس ہوگئے۔ ایک آدمی آپ کے پاس آیا، اس کے ساتھ اس کا بیٹا تھا وہ شخص عصا پر ٹیک لگائے ہوئے تھا، اس آدمی نے کہا : اے میرے بیٹے ! دیکھ یہ شیخ تمہیں دھوکہ نہ دے، اس (بیٹے نے) کہا : اے باپ ! عصا مجھے دیجئے، اس نے اس کو عصا دیا اس (لڑکے) نے عصا لیا پھر کہا : مجھے زمین پر چھوڑ دو اس کے (باپ) نے اسے چھوڑ دیا وہ عصا کے ساتھ آپ کی طرف چلا تو اس نے آپ کو مارا اور آپ کے سر میں موضحہ (جس میں سر کی ہڈی ظاہر ہوجاتی ہے) زخم لگایا اور خون بہنے لگا۔ تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے کہا : اے رب ! تو دیکھ رہا ہے جو تیرے بندے میرے ساتھ کرتے ہیں پس اگر تیرے بندوں میں تیرے لیے کوئی بہتری ہے تو تو ان کو ہدایت نصب فرما اور اگر (ان میں) اس کے علاوہ ہو تو تو مجھے صبر دے یہاں تک کہ تو فیصلہ فرمائے اور تو سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی فرمائی اس حال میں کہ آپ اپنی قوم کے ایمان سے ناامید ہوچکے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی کہ مردوں کی صلبوں میں اور عورتوں کے رحموں میں کوئی مومن باقی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : واوحی الیٰ نوحٍ انہ لن یومن من قومک الامن قداٰمن فلاتبتئس بماکانوایفعلون یعنی آپ ان کے بارے میں پریشان نہ ہوں۔ واصنع الفلک باعینناو وحینا آپ نے عرض کی : اے رب ! لکڑی کہاں (سے لوں) ؟ فرمایا : درخت لگا۔ کہا : بیس سال آپ نے ساکھو کا درخت لگایا، دعوت دینے سے رک گئے اور وہ استہزا سے رک گئے حالانکہ وہ آپ کا تمسخر اڑایا کرتے تھے، جب درخت نے اپنے رب کے امر کو پالیا تو آپ نے اسے کاٹا اور خشک کیا۔ عرض کیا : اے رب ! میں اس گھر کو کیسے بناؤں ؟ اللہ نے فرمایا : اس کو تین صورتوں پر بناؤ، اس کا سر مرغ کے سر کی طرح، اس کا سینہ پرندے کے سینہ کی طرح اور اس کی دم مرغ کی دم کی طرح بناؤ۔ اور اس کی منزلیں بناؤ اور ان کے پہلوؤں میں اس منزل کے لئے دروازے رکھو اور آپ نے اس کو میخوں کے ساتھ مضبوط کیا۔ دسر سے مراد ہے کے کیل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جبریل کو بھیجا تو اس نے آپ کو کشتی بنانا سکھائی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : حضرت نوح (علیہ السلام) کا گھر دمشق میں تھا آپ نے اپنی کشتی لبنان کی لکڑی سے زمزم، رکن (یمانی) اور مقام (ملتزم) کے درمیان بنائی۔ جب مکمل ہوگئی تو اس میں درندے اور چوپائے پہلے دروازے میں سوار کیے۔ وحشی جانور اور پرندے دوسرے دروازے میں سوار کیے اور ان دونوں کے دروازے بند کردیئے۔ اور اولاد آدم، چالیس مرد اور چالیس عورتوں کو سب سے اوپر والے دروازے میں سوار کیا اور ان پر دروازہ بند کردیا اور چھوٹی چیونٹیوں کو ان کے کمزور ہونے کی وجہ سے سب سے اوپر والے دروازے میں اپنے ساتھ سوار کیا تاکہ چوپائے ان کو روند نہ ڈالیں۔ زہری نے کہا : اللہ تعالیٰ نے ہوا کو بھیجا پس اس نے درندے، پرندے، وحشی جانور اور چوپاؤں میں ہر جوڑے کو کشتی میں سوار کردیا۔ جعفر بن محمد نے کہا : اللہ تعالیٰ نھے جبریل کو بھیجا اس نے ان کو جمع کردیا، پھر جبریل نے جوڑے پر اپنے ہاتھ پھیرے۔ اس کا دایاں ہاتھ مذکر پر اور بایاں ہاتھ مونث پر ہوتا۔ پس ان کو اس نے کشتی میں داخل کردیا۔ حضرت زید بن ثابت نے کہا : ماعزہ (وہ بھیڑ جو بغیر دم اور لاٹ کے ہوتی ہے) کا کشتی میں داخل کرنا حضرت نوح (علیہ السلام) پر مشکل ہوگیا تو آپ نے اس کی دم میں ہاتھ ڈال کو اس کو دھکیلا، اسی وجہ سے اس کی دم ٹوٹ گئی تو وہ مڑی ہوئی ہوگئی اور اس کا حیا (دبر اور فرج) ظاہر ہوگیا۔ نعجۃ (لاٹ یا چکی والی بھیڑ) چلی گئی حتی کہ داخل ہوگئی تو آپ نے اس کی دم پر ہاتھ پھیرا تو اس کا حیا (دبر اور فرج) مستور ہوگیا۔ اسحاق نے کہا : ہمیں ایک اہل علم نے خبر دی کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے کشتی والوں کو سوار کیا اور اس ہر چیز کا جوڑا جوڑا رکھا تو ہد ہد کا بھی جوڑا سوار کیا، ہد ہدۃ (مونث) زمین ظاہر ہونے سے پہلے ہی کشتی میں مرگئی۔ ہد ہد نے اس کو اٹھالیا، اس کو لے کر دنیا کا چکر لگایا تاکہ اس کے لیے جگہ پالے لیکن اس نے کوئی مٹی وغیرہ نہ پائی، تو اس کے رب نے اس پر رحم فرمایا اس کے لیے اس (نر) کی گدی میں قبر کھوددی تو اس نے اسے اس میں دفن کرلیا، پس ہدہد کی گدی میں اگنے والے بال قبر کی جگہ ہے۔ اس وجہ سے ہد ہد کی گدی ابھری ہوئی ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” حضرت نوح (علیہ السلام) نے کشتی میں اپنے ساتھ تمام درخت لادے اور عجوۃ (کا درخت) جنت میں سے کشتی میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ تھا “۔ صاحب ” العروس “ وغیرہ نے ذکر کیا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جب چاہا کہ زمین کے بارے میں خبر لانے کے لیے کو بھیجیں تو مرغ نے کہا : میں (لاؤں گا) آپ نے اس کو پکڑا اور اس کے پر پر مہر لگا دی اور اس کو کہا : تو میری مہر کی وجہ سے مختومہ ہے تو کبھی بھی نہیں اڑ سکے گا۔ تجھ سے میری امت نفع اٹھائے گی۔ آپ نے کوے کو بھیجا تو اس نے مردار پالیا تو اس پر بیٹھ گیا اور دیر کردی تو آپ نے اس پر لعنت کی، اسی وجہ سے حل وحرم میں اس کو قتل کردیا جاتا ہے اور آپ نے اس کے خلاف خوف کی بددعا کی، اسی وجہ سے یہ گھروں سے مانوس نہیں ہوتا۔ کبوتری کو بھیجا تو اس نے قرار نہ پایا، سیناء کی زمین میں ایک درخت پر بیٹھی اور زیتون کے درخت کا پتہ اٹھا لیا اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف لوٹ آئی تو آپ جان گئے کہ یہ زمین میں قرار حاصل نہیں کرسکے گی۔ پھر اس کو اس کے بعد بھیجا، یہ اڑی یہاں تک کہ حرم کی وادی میں پہنچ گئی تو کعبہ کے مقامات سے پانی جذب ہوچکا تھا اور اس کی مٹی سرخ تھی، وہ اس کی ٹانگوں میں لگ گئی پھر حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس آئی اور کہا : میرے لیے آپ کی طرف سے خوشخبری ہے کہ آپ نے مجھے میری گردن میں طوق ہبہ کردیا اور میری ٹانگ میں خضاب اور میں حرم میں رہوں گی۔ تو آپ نے اس کی گردن اور طوق پر اپنا ہاتھ پھیرا اور اس کی ٹانگوں میں اس کو سرخی ہبہ کردیا اور ان کے لیے اور اس کی اولاد کے لیے برکت کی دعا کی۔ ثعلبی نے ذکر کیا کہ آپ نے کوے کے تدارج کو بھیجا اور یہ مرغ کی جنس میں سے تھا۔ اس کو کہا : معذرت کرنے سے بچنا، تو اس نے شادابی اور فراخی کو پالیا۔ اور واپس نہ لوٹا اور اپنی اولاد کو قیامت تک آپ کے پاس رہن رکھ دیا۔
Top