Maarif-ul-Quran - Maryam : 20
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ
وَلَقَدْ كَتَبْنَا : اور تحقیق ہم نے لکھا فِي الزَّبُوْرِ : زبور میں مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ : نصیحت کے بعد اَنَّ : کہ الْاَرْضَ : زمین يَرِثُهَا : اس کے وارث عِبَادِيَ : میرے بندے الصّٰلِحُوْنَ : نیک (جمع)
اور ہم نے لکھ دیا ہے زبور میں نصیحت کے پیچھے کہ آخر زمین پر مالک ہوں گے میرے نیک بندے۔
وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ
لفظ زبور، زبر کی جمع ہے جس کے معنی کتاب کے ہیں اور زبور اس خاص کتاب کا نام بھی ہے جو حضرت داؤد ؑ پر نازل ہوئی۔ اس جگہ زبور سے کیا مراد ہے اس میں اقوال مختلف ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی ایک روایت میں یہ ہے کہ ذکر سے مراد آیت میں تورات ہے اور زبور سے مراد وہ سب کتابیں ہیں جو تورات کے بعد نازل ہوئیں۔ انجیل، زبور داؤد۔ اور قرآن (اخرجہ ابن جریر) یہی تفسیر ضحاک سے بھی منقول ہے۔ اور ابن زید نے فرمایا کہ ذکر سے مراد لوح محفوظ ہے اور زبور سے مراد تمام کتابیں جو انبیاء (علیہم السلام) پر نازل ہوئی ہیں۔ زجاج نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ (روح المعانی)
الْاَرْضَ ، اس جگہ ارض سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک ارض جنت ہے۔ ابن جریر نے ابن عباس سے یہ تفسیر نقل کی ہے اور یہی تفسیر مجاہد، ابن جبیر، عکرمہ، سدی اور ابو العالیہ سے بھی منقول ہے۔ امام رازی نے فرمایا کہ قرآن کی دوسری آیت اسی کی موید ہے جس میں فرمایا وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَـتَبَوَّاُ مِنَ الْجَــنَّةِ حَيْثُ نَشَاۗءُ ، اور آیت میں جو یہ فرمایا کہ اس ارض کے وارث صالحین ہوں گے یہ بھی اسی کا قرینہ ہے کہ ارض سے ارض جنت مراد ہو۔ دنیا کی زمین کے وارث تو مومن کافر سبھی ہوجاتے ہیں۔ نیز یہ کہ یہاں صالحین کا وارث ارض ہونا ذکر قیامت کے بعد آیا ہے اور قیامت کے بعد جنت کی زمین کے سوا کوئی دوسری زمین نہیں۔ اور حضرت ابن عباس کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس ارض سے مراد عام ارض ہے دنیا کی زمین بھی اور جنت کی زمین بھی جنت کی زمین کے تو تنہا وارث صالحین ہونا ظاہر ہے۔ دنیا کی پوری زمین کے وارث ہونا بھی ایک وقت میں مومنین صالحین کے لئے موعود ہے جس کی خبر قرآن کریم کی متعدد آیات میں دی گئی ہے۔ ایک آیت میں ہے، ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ ڐ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۭوَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ ، ایک دوسری آیت میں ہے وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ الآیة، تیسری ایک آیت میں اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ ، مومنین صالحین کا دنیا کے معظم معمورہ پر قابض اور وارث ہونا ایک مرتبہ دنیا پہلے مشاہدہ کرچکی ہے اور زمانہ دراز تک یہ صورت قائم رہی اور پھر مہدی ؑ کے زمانے میں ہونے والی ہے (روح المعانی و ابن کثیر)
Top