Maarif-ul-Quran - Al-Hijr : 29
فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ
فَاِذَا : پھر جب سَوَّيْتُهٗ : میں اسے درست کرلوں وَنَفَخْتُ : اور پھونکوں فِيْهِ : اس میں مِنْ رُّوْحِيْ : اپنی روح سے فَقَعُوْا : تو گر پڑو تم لَهٗ : اس کے لیے سٰجِدِيْنَ : سجدہ کرتے ہوئے
پھر جب ٹھیک کروں اس کو اور پھونک دوں اس میں اپنی جان سے تو گر پڑیو اس کے آگے سجدہ کرتے ہوئے
معارف و مسائل
بدن انسانی میں نفخ روح اور اس کو مسجود ملائکہ بنانے کی مختصر تحقیق
روح کوئی جسم ہے یا جوہر مجرد اس میں علماء وحکماء کا اختلاف قدیم زمانے سے چلا آتا ہے شیخ عبد الرءوف منادی نے فرمایا کہ اس میں حکماء کے اقوال ایک ہزار تک پہنچنے ہیں مگر سب قیاسات اور تخمینے ہی ہیں کسی کو یقینی نہیں کہا جاسکتا امام غزالی، امام رازی اور عموما صوفیہ اور فلاسفہ کا قول یہ ہے کہ وہ جسم نہیں بلکہ جوہر مجرد ہے امام رازی نے اس کے بارہ دلائل پیش کئے ہیں
مگر جمہور علماء امت روح کو ایک جسم لطیف قرار دیتے ہیں نفخ کے معنی پھونک مارنے کے ہیں اگر بقول جمہور روح کو جسم لطیف قرار دیا جائے تو اس کو پھونکنا ظاہر ہے اور جوہر مجرد مان لیا جائے تو پھونکنے کے معنی اس کا بدن سے تعلق پیدا کردینا ہوگا (بیان القرآن)
روح اور نفس کے متعلق حضرت قاضی ثناء اللہ کی تحقیق
یہاں اس طویل الذیل بحث کو چھوڑ کر ایک خاص تحقیق پر اکتفاء کیا جاتا ہے جو تفسیر مظہری میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے تحریر فرمائی ہے حضرت قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ روح کی دو قسم ہیں، علوی اور سفلی، روح علوی مادہ سے مجرد اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے جس کی حقیقت کا ادراک مشکل ہے اہل کشف کو اس کا اصل مقام عرش کے اوپر دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ عرش سے زیادہ لطیف ہے اور روح علوی بنظر کشفی اوپر نیچے پانچ درجات میں محسوس کی جاتی ہے وہ پانچ یہ ہیں قلب، روح، سر، خفی، اخفی، اور یہ سب عالم امر کے لطائف میں سے ہیں جس کی طرف قرآن کریم نے اشارہ فرمایا ہے (آیت) قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ اور روح سفلی وہ بخار لطیف ہے جو بدن انسانی کے عناصر اربعہ آگ پانی مٹی ہوا سے پیدا ہوتا ہے اور اسی روح سفلی کو نفس کہا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس روح سفلی کو جسے نفس کہا جاتا ہے ارواح علویہ مذکورہ کا آئینہ بنادیا ہے جس طرح آئینہ جس آفتاب کے مقابل کیا جائے تو آفتاب کے بہت بعید ہونے کے باوجود اس میں آفتاب کا عکس آجاتا ہے اور روشنی کی وجہ سے وہ بھی آفتاب کی طرح چمک اٹھتا ہے اور آفتاب کی حرارت بھی اس میں آجاتی ہے جو کپڑے کو جلا سکتی ہے اسی طرح ارواح علویہ اگرچہ اپنے تجرد کی وجہ سے بہت اعلیٰ وارفع اور بہت مسافت بعیدہ پر ہیں مگر ان کا عکس اس روح سفلی کے آئینہ میں آ کر ارواح علویہ کی کیفیات وآثار اس میں منتقل کردیتا ہے اور یہی آثار جو نفوس میں پیدا ہوجاتے ہیں ہر ہر فرد کے لئے ارواح جزئیہ کہلاتے ہیں
پھر یہ روح سفلی جس کو نفس کہتے ہیں اپنی ان کیفیات وآثار کے ساتھ جن کو ارواح علویہ سے حاصل کیا ہے اس کا تعلق بدن انسانی میں سب سے پہلے مضغہ قلبیہ سے ہوتا ہے اور اس تعلق ہی کا نام حیات اور زندگی ہے روح سفلی کے تعلق سے سب سے پہلے انسان کے قلب میں حیات اور وہ ادراکات پیدا ہوتے ہیں جن کو نفس نے ارواح علویہ سے حاصل کیا ہے یہ روح سفلی پورے بدن میں پھیلی ہوئی باریک رگوں میں سرایت کرتی ہے جن کو شرائین کہا جاتا ہے اور اس طرح وہ تمام بدن انسانی کے ہر حصہ میں پہنچ جاتی ہے۔
روح سفلی کے بدن انسانی میں سرایت کرنے ہی کو نفخ روح سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ یہ کسی چیز میں پھونک بھرنے سے بہت مشابہ ہے۔
اور آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے روح کو اپنی طرف منسوب کر کے من روحی اسی لئے فرمایا ہے کہ تمام مخلوقات میں روح انسانی کا اشرف واعلیٰ ہونا واضح ہوجائے کیونکہ وہ بغیر مادے کے محض امر الہی سے پیدا ہوئی ہے نیز اس میں تجلیات رحمانیہ کے قبول کرنے کی ایسی استعداد ہے جو انسان کے علاوہ کسی دوسرے جاندار کی روح میں نہیں ہے۔
اور انسان کی پیدائش میں اگرچہ عنصر غالب مٹی کا ہے اور اسی لئے قرآن عزیز میں انسان کی پیدائش کو مٹی کی طرف منسوب کیا گیا ہے لیکن درحقیقت وہ دس چیزوں کا جامع ہے جن میں پانچ عالم خلق کی ہیں اور پانچ عالم امر کی عالم خلق کے چار عنصر آگ پانی مٹی ہوا اور پانچواں ان چاروں سے پیدا ہونے والا بخار لطیف جس کو روح سفلی یا نفس کہا جاتا ہے اور عالم امر کی پانچ چیزیں وہ ہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے یعنی قلب، روح، سر، خفی، اخفی، اسی جامعیت کے سبب انسان خلافت الہیہ کا مستحق بنا اور نور معرفت اور نار عشق و محبت کا متحمل ہوا جس کا نتیجہ بےکیف معیت الہیہ کا حصول ہے کیونکہ رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے (المرء مع من احب) یعنی ہر انسان اس فرد کے ساتھ ہوگا جس سے اس کو محبت ہے۔
اور انسان میں تجلیات الہیہ کی قابلیت اور معیت الہیہ کا جو درجہ اس کو حاصل ہے اسی کی وجہ سے حکمت الہیہ کا تقاضا یہ ہوا کہ اس کو مسجود ملائکہ بنایا جائے ارشاد ہوا (آیت) فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ
Top