Tafseer-e-Mazhari - Al-Hijr : 29
فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ
فَاِذَا : پھر جب سَوَّيْتُهٗ : میں اسے درست کرلوں وَنَفَخْتُ : اور پھونکوں فِيْهِ : اس میں مِنْ رُّوْحِيْ : اپنی روح سے فَقَعُوْا : تو گر پڑو تم لَهٗ : اس کے لیے سٰجِدِيْنَ : سجدہ کرتے ہوئے
جب اس کو (صورت انسانیہ میں) درست کر لوں اور اس میں اپنی (بےبہا چیز یعنی) روح پھونک دوں تو اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا
فاذا سویتہ ونفخت فیہ من روحی سب جب میں اس کو پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی طرف سے جان ڈال دوں۔ نفخ کا معنی ہے : کسی کھوکھلی چیز میں ہوا کو گذارنا (منہ سے یا کسی اور طریقہ سے۔ مترجم) روح کی دو قسمیں ہیں : علوی اور سفلی۔ روح علوی ایک خاص مخلوق ہے جو مادہ سے خالی ہے (غیر مادی ہے) نظر کشف سے اس کو دیکھا جاسکتا ہے۔ چونکہ عرش سے بھی زیادہ لطیف ہے ‘ اسلئے اس کا مقام عرش کے اوپر ہے۔ فوقانی و تحتانی مراتب کے لحاظ سے ہم کہتے ہیں کہ ارواح علویہ پانچ ہوتی ہیں : قلب ‘ روح ‘ سر ‘ خفی ‘ اخفیٰ ۔ انہی کو عالم امر کے لطائف (خمسہ) کہا جاتا ہے۔ روح سفلی اس بخار لطیف کو کہتے ہیں جو ان چاروں عناصر سے پیدا ہوتا ہے جن سے جسم انسانی کی ساخت ہوئی ہے ‘ اسی کو نفس کہا جاتا ہے۔ اللہ نے اس کو روح سفلی یعنی نفس کو ارواح علویہ کا آئینہ بنایا ہے۔ آفتاب آسمان پر ہونے کے باوجود جب آئینہ پر عکس ریز ہوتا ہے تو آئینہ کے اندر اس کے آثار پیدا ہوجاتے ہیں ‘ روشنی بھی اور حرارت بھی۔ آئینہ روشنی آفریں بھی ہوجاتا ہے اور جلانے والا بھی۔ ارواح علویہ تجرد کی انتہائی چوٹی پر ہونے کے باوجود نفس کے آئینہ پر اثر انداز ہوتی ہیں اور انہی کی پر توفگنی کا جو اثر ہوتا ہے ‘ وہی ہر فرد کی روح جزئی کہلاتی ہے۔ ارواح علویہ سے روح سفلی پر قوت حیوانیہ اور معارف انسانی کا فیضان ہوتا ہے ‘ ارواح علویہ کے یہی آثار ہوتے ہیں جو روح سفلی میں نمودار ہوجاتے ہیں۔ سب سے پہلے روح سفلی ان آثار کو ساتھ لے کر دل (سینہ کے اندر جو گوشت کا لوتھڑا ہے یعنی طبی قلب) سے متعلق ہوتی ہے ‘ پھر قوت حیوانیہ اور معارف انسانیہ کو ساتھ لئے ہوئے (قلب کے ذریعہ سے) شریانوں کی خلاؤں میں پہنچتی ہے اور اس طرح بدن کے ہر حصہ میں سرایت کر جاتی ہے۔ اسی کو نفخ روح کہا جاتا ہے۔ کھوکھلی چیز میں جس طرح نفخ ریح (ہوا کا پھونکا جانا) ہوتا ہے ‘ اسی کے مشابہ (شریانوں کی خلاؤں میں) روح کا نفخ ہوتا ہے۔ رُوْحِیْ میں روح کی اضافت اپنی ذات کی طرف کرنے سے روح کی عظمت شان کی طرف اشارہ ہے۔ رُوْحِیْ کا مطلب ہے : میرے حکم سے براہ راست بغیر مادہ کے پیدا کی ہوئی روح۔ یا انسانی روح کو اپنی روح اسلئے قرار دیا کہ صرف انسانی روح میں رحمانی تجلیات و انوار کو قبول کرنے کی صلاحیت ہے ‘ دوسری مخلوق میں یہ استعداد نہیں۔ انسان کی ساخت میں اگرچہ مٹی کا عنصر غالب ہے ‘ اسلئے انسان کی تخلیق کو مٹی سے قرار دیا ہے لیکن درحقیقت انسانی تقویم کے دس اجزاء ہیں : مٹی ‘ پانی ‘ ہوا ‘ آگ اور وہ لطیف بخار جو ان چاروں کے اختلاط سے پیدا ہوتا ہے۔ اسی کو نفس اور روح سفلی کہتے ہیں۔ ان پانچ اجزاء کے علاوہ پانچ اجزاء وہ ہیں جن کا فیضان عالم امر سے ہوتا ہے ‘ ان کا ذکر اوپر آچکا ہے (قلب ‘ روح ‘ سر ‘ خفی ‘ اخفیٰ ) انسان اسی جامعیت کی وجہ سے مستحق خلافت ہوا ‘ معرفت کے نور اور عشق و محبت کی آگ کا اہل قرار پایا۔ انسان کی یہی جامعیت اس بےکیف معیت کی مقتضی ہے جس کا ذکر حدیث المرء مع من احب میں آیا ہے اور اسی جامعیت کے باعث آدمی کو انوار ذاتیہ ‘ صفاتیہ اور ظلیہ کا مہبط بنایا گیا ‘ پھر اسی معیت اور حامل تجلیات ہونے کے سبب سے ملائکہ کو اس کی جانب سجدہ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا : فقعوا لہ سجدین تو تم اس کی طرف رخ کر کے سجدہ میں گرپڑنا۔ قعوا امر ہے ‘ وَقَعَ وَقَوعًا سے۔ لَہٗ میں لام بمعنی اِلٰی ہے ‘ یعنی آدم کی جہت کو اور آدم کی طرف رخ کر کے سجدہ کرنا۔ اللہ نے آدم کو ملائکہ کا قبلۂ سجود بنایا ‘ جیسے کعبہ کو قبلۂ عبادت انسانوں کیلئے قرار دیا۔ کعبہ کو سجدہ نہیں کیا جاتا بلکہ کعبہ کو تجلیات و انوار سے چونکہ ایک خصوصیت ہے ‘ اسلئے اس کو جہت سجدہ بنایا۔ پس اسی طرح فرشتوں کیلئے آدم کو سجدہ کی جہت بنایا ‘ مسجود لہٗ نہیں بنایا۔
Top