Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 78
وَ اللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا١ۙ وَّ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْئِدَةَ١ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَاللّٰهُ : اور اللہ اَخْرَجَكُمْ : تمہیں نکالا مِّنْ : سے بُطُوْنِ : پیٹ (جمع) اُمَّهٰتِكُمْ : تمہاری مائیں لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہ جانتے تھے شَيْئًا : کچھ بھی وَّجَعَلَ : اور اس نے بنایا لَكُمُ : تمہارے لیے السَّمْعَ : کان وَالْاَبْصَارَ : اور آنکھیں وَالْاَفْئِدَةَ : اور دل (جمع) لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : تم شکر ادا کرو
اور اللہ نے تم کو نکالا تمہاری ماں کے پیٹ سے نہ جانتے تھے تم کسی چیز کو اور دیئے تم کو کان اور آنکھیں اور دل، تاکہ تم احسان مانو،
معارف و مسائل
قولہ تعالیٰ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا اس میں اشارہ ہے کہ علم انسان کا ذاتی ہنر نہیں پیدائش کے وقت وہ کوئی علم وہنر نہیں رکھتا پھر ضرورت انسانی کے مطابق اس کو کچھ کچھ علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاواسطہ سکھایا جاتا ہے جس میں نہ ماں باپ کا دخل ہے نہ کسی معلم کا سب سے پہلے اس کو رونا سکھایا اس کی یہی صفت اس وقت اس کی تمام ضروریات مہیا کرتی ہے بھوک پیاس لگے تو وہ روتا ہے سردی گرمی لگے تو رو دیتا ہے کوئی اور تکلیف پہنچنے تو رو دیتا ہے قدرت نے اس کی ضروریات کے لئے ماں باپ کے دلوں میں خاص الفت ڈال دی کہ جب بچے کی آواز سنیں تو وہ اس کی تکلیف کے پہچاننے اور اس کے دور کرنے لئے آمادہ ہوجاتے ہیں اگر بچے کو منجانب اللہ یہ رونے کی تعلیم نہ دی جاتی تو اس کو کون یہ کام سکھا سکتا کہ جب کوئی ضرورت پیش آئے تو اس طرح چلایا کرے اس کے ساتھ ہی اس کو اللہ تعالیٰ نے الہامی طور پر یہ بھی سکھا دیا کہ اپنی غذاء کو چھاتی سے حاصل کرنے کے لئے اپنے مسوڑھوں اور ہونٹوں سے کام لے اگر یہ تعلیم فطری اور بلاواسطہ نہ ہوتی تو کس معلم کی مجال تھی جو اس نومولود کو منہ چلانا اور چھاتی کو چوسنا سکھا دیتا اسی طرح جوں جوں اس کی ضروریات بڑھتی گئیں قدرت نے اس کو بلاواسطہ ماں باپ اور دوسرے آس پاس کے آدمیوں کی بات سن کر یا کچھ چیزوں کو دیکھ کر کچھ سیکھنے لگتا ہے اور پھر ان سنی ہوئی آوازوں اور دیکھی ہوئی چیزوں کو سوچنے سمجھنے کا سلیقہ پیدا ہوتا ہے۔
اسی لئے آیت مذکورہ میں لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا کے بعد فرمایا (آیت) وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ یعنی اگرچہ پیدائش میں انسان کو کسی چیز کا علم نہیں تھا مگر قدرت نے اس کے وجود میں علم حاصل کرنے کے عجیب و غریب قسم کے آلات نصب کردیئے کہ انسان کا سب سے پہلا علم اور سب سے زیادہ علم کانوں ہی کے راستہ سے آتا ہے شروع میں آنکھ تو بند ہوتی ہے مگر کان سنتے ہیں اور اس کے بعد بھی اگر غور کیا جائے تو انسان کو اپنی پوری عمر میں جس قدر معلومات حاصل ہوتی ہیں ان میں سب سے زیادہ کانوں سے سنی ہوئی ہوتی ہیں آنکھ سے دیکھی ہوئی معلومات اس کی نسبت سے بہت کم ہوتی ہیں
ان دونوں کے بعد نمبر ان معلومات کا ہے جن کو انسان اپنی سنی اور دیکھی ہوئی چیزوں میں غور و فکر کر کے معلوم کرتا ہے اور یہ کام قرآنی ارشادات کے مطابق انسان کے قلب کا ہے اس لئے تیسرے نمبر میں افئدۃ فرمایا جو فواد کی جمع ہے جس کے معنی قلب کے ہیں فلاسفہ نے عام طور پر سمجھ بوبھ اور ادراک کا مرکز انسان کے دماغ کو قرار دیا ہے مگر ارشاد قرآنی سے معلوم ہوا کہ دماغ کو اگرچہ اس ادراک میں دخل ضرور ہے مگر علم و ادراک کا اصلی مرکز قلب ہے۔
اس موقع پر حق تعالیٰ نے سننے دیکھنے اور سمجھنے کی قوتوں کا ذکر فرمایا ہے گویائی اور زبان کا ذکر نہیں فرمایا کیونکہ نطق اور گویائی کو حصول علم میں داخل نہیں بلکہ وہ اظہار علم کا ذریعہ ہیں اس کے علاوہ امام قرطبی نے فرمایا کہ لفظ سمع کے ساتھ نطق بھی ضمنا آگیا کیونکہ تجربہ شاہد ہے کہ جو شخص سنتا ہے وہ بولتا بھی ہے گونگا جو بولنے پر قادر نہیں وہ کانوں سے بھی بہرا ہوتا ہے اور شاید اس کے نہ بولنے کا سبب ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی آواز سنتا نہیں جس کو سن کر بولنا سیکھے واللہ اعلم۔
Top