Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 56
قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ فَلَا یَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَ لَا تَحْوِیْلًا
قُلِ : کہ دیں ادْعُوا : پکارو تم الَّذِيْنَ : وہ جن کو زَعَمْتُمْ : تم گمان کرتے ہو مِّنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا فَلَا يَمْلِكُوْنَ : پس وہ اختیار نہیں رکھتے كَشْفَ : دور کرنا الضُّرِّ : تکلیف عَنْكُمْ : تم سے وَ : اور لَا : نہ تَحْوِيْلًا : بدلنا
کہہ پکارو جن کو تم سمجھتے ہو سوائے اس کے سو وہ اختیار نہیں رکھتے کہ کھول دیں تکلیف کو تم سے اور نہ بدل دیں
خلاصہ تفسیر
آپ (ان لوگوں سے) فرما دیجئے کہ جن کو تم خدا کے سوا (معبود) قرار دے رہے ہو (جیسے فرشتے اور جنات) ذرا ان کو (اپنی تکلیف دور کرنے کے لئے) پکارو تو سہی سو وہ نہ تم سے تکلیف کو دور کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ اس کے بدل ڈالنے کا (مثلا تکلیف کو بالکل دور نہ کرسکیں کچھ ہلکا ہی کردیں) یہ لوگ کہ جن کو مشرکین (اپنی حاجت روائی یا مشکل کشائی کے لئے) پکار رہے ہیں وہ خود ہی اپنے رب کی طرف (پہونچنے کا) ذریعہ ڈھونڈ رہے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب بنتا ہے (یعنی وہ خود ہی اطاعت و عبادت میں مشغول ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب میسر ہوجائے اور چاہتے ہیں کہ تقرب کا درجہ اور بڑھ جائے) اور وہ اس کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اس کے عذاب سے (نافرمانی کی صورت میں) ڈرتے ہیں واقعی آپ کے رب کا عذاب ہے بھی ڈرنے کی چیز (مطلب یہ ہے کہ جب وہ خود عابد ہیں تو معبود کیسے ہو سکتے ہیں اور جب وہ خود ہی اپنی ضروریات میں اور تکلیف کے دور کرنے میں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں تو وہ دوسروں کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کیا کرسکتے ہیں) اور (کفار کی) ایسی کوئی بستی نہیں جس کو ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کریں (یا قیامت کے روز) اس کے رہنے والوں کو (دوزخ کا) سخت عذاب نہ دیں یہ بات کتاب (یعنی لوح محفوظ) میں لکھی ہوئی ہے (پس اگر کوئی کافر یہاں ہلاک ہونے سے بچ گیا تو قیامت کے روز کی بڑی آفت سے نہ بچے گا اور طبعی موت سے ہلاک ہونا تو کفار کے ساتھ مخصوص نہیں سبھی مرتے ہیں اس لئے بستیوں کے ہلاک ہونے سے اس جگہ مراد یہ ہے کہ کسی عذاب اور آفت کے ذریعہ ہلاک کیا جائے تو خلاصہ یہ ہوا کہ کفار پر کبھی تو دنیا میں عذاب بھیج دیا جاتا ہے اور آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہوگا اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی عذاب نہ آیا تو آخرت کے عذاب سے بہرحال نجات نہیں۔
Top