Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 64
ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ١ۚ فَلَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ لَكُنْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ
ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ : پھر تم پھرگئے مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ : اس کے بعد فَلَوْلَا : پس اگر نہ فَضْلُ اللہِ : اللہ کا فضل عَلَيْكُمْ : تم پر وَرَحْمَتُهُ : اور اس کی رحمت لَكُنْتُمْ ۔ مِنَ : تو تم تھے۔ سے الْخَاسِرِیْنَ : نقصان اٹھانے والے
پھر تم پھرگئے اس کے بعد سو اگر نہ ہوتا للہ کا فضل تم پر اور اس کی مہربانی تو ضرور تم تباہ ہوتے۔
خلاصہ تفسیر
پھر تم اس قول وقرار کے بعد بھی (اس سے) پھرگئے سو اگر تم لوگوں پر خدا تعالیٰ کا فضل اور رحم نہ ہوتا (تو اس عہد شکنی کا مقتضا تو یہ تھا کہ) ضرور تم (فورا) تباہ (اور ہلاک) ہوجاتے (مگر ہماری عنایت و رحمت عامہ ہے کہ حیات مستعار کے ختم ہونے تک مہلت دے رکھی ہے لیکن کب تک ؟ آخر بعد از مرگ وبال اعمال میں مبتلا ہوگے)
فائدہحق تعالیٰ کی رحمت عامہ دنیا میں مومن کافر سب پر ہے جس کا اثر عافیت اور دنیوی راحت ہے رحمت خاصہ کا ظہور آخرت میں ہوگا جس کا اثر نجات اور قرب خداوندی ہے،
بظاہر اس آیت کے جزو آخر کے مخاطب وہ یہودی ہیں جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں موجود تھے چونکہ حضور ﷺ پر ایمان نہ لانا بھی عہد شکنی میں داخل ہے اس لئے ان کو بھی عہد شکنوں میں شامل کرکے بطور مثال فرمایا گیا کہ اس پر بھی ہم نے تم پر دنیا میں کوئی عذاب ایسا نازل نہیں کیا جیسا پہلے بےایمانوں اور عہد شکونوں پر ہوتا رہا یہ محض خدا کی رحمت ہے، اور چونکہ اب از روئے احادیث ایسے عذابوں کا نہ آنا حضور ﷺ کی برکت ہے اس لئے بعض مفسرین نے فضل و رحمت کی تفسیر بعثت محمدیہ سے کی ہے،
اس مضمون کی تائید کے لئے گذشتہ بےایمانوں کا ایک واقعہ اگلی آیت میں بیان ہو رہا ہے،
Top