Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 77
وَ نَصَرْنٰهُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمَ سَوْءٍ فَاَغْرَقْنٰهُمْ اَجْمَعِیْنَ
وَنَصَرْنٰهُ : اور ہم نے اس کو مدد دی مِنَ : سے (پر) الْقَوْمِ : لوگ الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَذَّبُوْا : جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کو اِنَّهُمْ : بیشک وہ كَانُوْا : وہ تھے قَوْمَ : لوگ سَوْءٍ : برے فَاَغْرَقْنٰهُمْ : ہم نے غرق کردیا انہیں اَجْمَعِيْنَ : سب
نیز ان لوگوں کے مقابلہ میں جو ہماری نشانیاں جھٹلاتے تھے ان کی مدد کی وہ بڑے ہی بدراہ لوگ تھے پس ہم نے ان سب کو غرق کر دیا
حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ بھی بڑے ہی بد راہ تھے اور شرک ان کو گھٹی میں پلایا گیا تھا : 77۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے آپ کی قوم رب العزت کی توحید اور صحیح مذہبی روشنی سے یکسر نا آشنا ہوچکی تھی اور حقیقی خدا کی جگہ خود ساختہ بتوں نے لے لی تھی غیر اللہ کی پرستش اور اصنام پرستی ان کا شعار تھا اور یہ بات قبل ازیں واضح کی جا چکی ہے کہ بتوں کی پرستش کرنے والے دراصل ان بزرگ شخصیتوں ہی کی پرستش کرتے ہیں جن کی یاد کو تازہ رکھنے کے لئے وہ بت گھڑ لیتے تھے ورنہ فی نفسہ کبھی بت کی پوجا نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی کرتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح آج بتوں کی جگہ مسلمانوں میں سے مشرک قبریں لے آئیں ہیں کہ وہ قبروں کی پرستش نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ صاحب قبر کی پرستش ہوتی ہے اور دونوں میں نئے اور پرانے کا فرق ہے بلکہ یہ جدید شرک اس پرانے شرک سے زیادہ ضرر رساں اور زیادہ ایمان کی دھجیاں اڑانے والا ہے ۔ بہرحال سنت اللہ کے مطابق ان کی رشد وہدایت کے لئے بھی انہی میں سے ایک ہادی اور اللہ کے سچے رسول حضرت نوح (علیہ السلام) کو مبعوث کیا گیا حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو حق کی طرف پکارا اور توحید کی دعوت دی ‘ لیکن قوم نے نہ مانا اور نفرت و حقارت کے ساتھ انکار پر اصرار کیا ‘ امراء وروساء قوم نے ان کی تکذیب وتحقیر کا کوئی پہلو نہ چھوڑا اور ان کے پیرؤوں نے انہی کی تقلید وپیروی کے ثبوت میں ہر قسم کی تذلیل وتوہین کے طریقوں کو حضرت نوح (علیہ السلام) پر آزمایا جس کی مکمل داستان آپ سورة ہود میں پڑھ آئے ، قوم نوح نے زور دار الفاظ میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی تردید کرتے ہوئے آپس میں کہا کہ : (آیت) ” وقالوا لا تذرن الھتکم ولا تذرن ودولا سواعا ولا یغوث ویعوق ونسرا “۔ (نوح 71 : 23) ” اور انہوں نے آپس میں کہا ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑو اور ود ‘ سواع ‘ یغوث ‘ یعوق ‘ اور نسر ‘ کو نہ چھوڑو “ ۔ اور آخر میں زچ ہو کر کہنے لگے اے نوح ! اب ہم سے جنگ وجدل نہ کر اور ہمارے اس انکار پر اپنے خدا سے جو عذاب لاسکتا ہے اسے لے آ ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان کی بات سن کر جواب دیا کہ عذاب الہی تو میرے قبضہ میں نہیں اگر میرے قبضہ میں ہوتا تو کبھی کے تم ختم ہوچکے ہوتے وہ تو اللہ رب العزت ہی کے قبضہ میں ہے جس نے مجھ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور جس کے حکم سے میں نے تم کو اس کی خبر دی ہے وہ چاہے گا تو یہ سب کچھ ہوجائے گا تم جلدی نہ کرو جب وہ آگیا تمہارا کام تمام ہوجائے گا نہ تم رہو گے اور نہ تمہارا یہ استہزاء و مذاق ہی رہے گا اور پھر جب مقررہ وقت آگیا تو وہی کچھ ہوا جس کی خبر حضرت نوح (علیہ السلام) نے اس بدبخت قوم کو دی تھی ۔
Top