Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 84
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے پختہ عہد لَا تَسْفِكُوْنَ : نہ تم بہاؤگے دِمَآءَكُمْ : اپنوں کے خون وَلَا تُخْرِجُوْنَ : اور نہ تم نکالوگے اَنفُسَكُم : اپنوں مِّن دِيَارِكُمْ : اپنی بستیوں سے ثُمَّ : پھر اَقْرَرْتُمْ : تم نے اقرار کیا وَاَنتُمْ : اور تم تَشْهَدُوْنَ : گواہ ہو
اور جب لیا ہم نے وعدہ تمہارا کہ نہ کرو گے خون آپس میں اور نہ نکال دو گے اپنوں کو اپنے وطن سے پھر تم نے اقرار کرلیا اور تم مانتے ہو۔
خلاصہ تفسیر
اوپر جو عہد میثاق لیا گیا تھا اس آیت میں اس کا تتمہ بیان کیا گیا ہے چناچہ ارشاد ہے اور (وہ زمانہ یاد کرو) جب ہم نے تم کو یہ قول وقرار (بھی) لیا کہ (خانہ جنگی کرکے) باہم خونریزی مت کرنا اور ایک دوسرے کو ترک وطن مت کرانا پھر (ہمارے اس اقرار لینے پر) تم نے اقرار بھی کرلیا اور اقرار بھی (ضمنًا نہیں بلکہ) ایسا جیسے تم (اس پر) شہادت (بھی) دیتے ہو،
فائدہبعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی کی تقریر سے کسی امر کا اقرار مترشح ہوتا ہے گو صاف اقرار نہیں ہوتا مگر عرفا اور عقلا اس کو اقرار ہی سمجھا جاتا ہے لیکن یہاں تو ثُمَّ اَقْــرَرْتُمْ سے اس شبہ کو بھی رفع کردیا اور بتادیا کہ یہ اقرار اتنا صریح اور واضح تھا جیسے شہادت صاف اور واضح ہوا کرتی ہے ترک وطن کرانے کی ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو آزار پہنچا کر اتنا تنگ مت کرنا کہ بیچارہ ترک وطن پر مجبور ہوجائے،
Top