Maarif-ul-Quran - Al-Muminoon : 67
مُسْتَكْبِرِیْنَ١ۖۗ بِهٖ سٰمِرًا تَهْجُرُوْنَ
مُسْتَكْبِرِيْنَ : تکبر کرتے ہوئے بِهٖ : اس کے ساتھ سٰمِرًا : افسانہ کوئی کرتے ہوئے تَهْجُرُوْنَ : بیہودہ بکواس کرتے ہوئے
اس سے تکبر کر کے ایک قصہ گو کو چھوڑ کر چلے گئے
مُسْتَكْبِرِيْنَ بِهٖ سٰمِرًا تَهْجُرُوْنَ ، اس میں لفظ بہ کی ضمیر اکثر مفسرین نے حرم کی طرف راجع قرار دی جو اگرچہ اوپر کہیں مذکور نہیں مگر حرم سے قریش مکہ کا گہرا تعلق اور ان پر ان کا ناز اتنا معروف و مشہور تھا کہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں اور معنے اس کے یہ ہیں کہ قریش مکہ کا اللہ کی آیتیں سن کر پچھلے پاؤں بھاگنے اور نہ ماننے کا سبب حرم مکہ کی نسبت اور اس کی خدمت پر ان کا تکبر اور ناز تھا۔ اور سامراً ، سمر سے مشتق ہے جس کے اصل معنے چاندنی رات کے ہیں۔ عرب کی عادت تھی کہ چاندنی رات میں بیٹھ کر قصے کہانیاں کہا کرتے تھے اس لئے لفظ سمر قصہ کہانی کے معنے میں استعمال ہونے لگا اور سامر قصہ گو کو کہا جاتا ہے یہ لفظ اگرچہ مفرد ہے مگر معنی میں جمع کے لئے بھی بولا جاتا ہے اس جگہ سامر بمعنے سامرین جمع کے لئے استعمال ہوا ہے۔ مشرکین کا ایک حال جو آیات الٰہیہ سے انکار کا سبب بنا ہوا تھا حرم مکہ کی نسبت و خدمت پر ان کا ناز تھا۔ دوسرا حال یہ بیان فرمایا کہ یہ لوگ بےاصل اور بےبنیاد قصے کہانیوں میں مشغول رہنے کے عادی ہیں ان کو اللہ کی آیات سے دلچسپی نہیں۔
تھجرون، یہ لفظ ہجر بضم الہاء سے مشتق ہے جس کے معنے فضول بکواس اور گالی گلوچ کے ہیں یہ تیسرا حال ان مشرکین کا بیان کیا گیا کہ یہ لوگ فضول بکواس اور گالی گلوچ کے عادی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی شان میں بعض ایسے ہی گستاخانہ کلمات کہتے رہتے ہیں۔
عشاء کے بعد قصہ گوئی کی ممانعت اور خاص ہدایات
رات کو افسانہ گوئی کا مشغلہ عرب و عجم میں قدیم سے چلا آتا ہے اور اس میں بہت سے مفاسد اور وقت کی اضاعت تھی۔ نبی کریم ﷺ نے اس رسم کو مٹانے کے لئے عشاء سے پہلے سونے کو اور عشاء کے بعد فضول قصہ گوئی کو منع فرمایا۔ حکمت یہ تھی کہ عشاء کی نماز پر انسان کے اعمال یومیہ ختم ہو رہے ہیں جو دن بھر کے گناہوں کا بھی کفارہ ہوسکتا ہے۔ یہی اس کا آخری عمل اس دن کا ہو تو بہتر ہے اگر بعد عشاء فضول قصہ گوئی میں لگ گیا تو اولاً یہ خود فعل عبث اور مکروہ ہے اس کے علاوہ اس کے ضمن میں غیبت جھوٹ اور دوسرے طرح طرح کے گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے اور ایک برا انجام اس کا یہ ہے کہ رات کو دیر تک جاگے گا تو صبح کو سویرے نہیں اٹھ سکے گا اسی لئے حضرت فاروق اعظم جب کسی کو عشاء کے بعد فضول قصوں میں مشغول دیکھتے تو تنبیہ فرماتے تھے اور بعض کو سزا بھی دیتے تھے اور فرماتے کہ جلد سو جاؤ شاید آخر رات میں تہجد کی توفیق ہوجائے۔ (قرطبی)
Top