Ahkam-ul-Quran - Al-Muminoon : 67
مُسْتَكْبِرِیْنَ١ۖۗ بِهٖ سٰمِرًا تَهْجُرُوْنَ
مُسْتَكْبِرِيْنَ : تکبر کرتے ہوئے بِهٖ : اس کے ساتھ سٰمِرًا : افسانہ کوئی کرتے ہوئے تَهْجُرُوْنَ : بیہودہ بکواس کرتے ہوئے
ان سے سرکشی کرتے، کہانیوں میں مشغول ہوتے اور بےہودہ بکواس کرتے تھے
قول باری ہے (مستکبرین بہ سامراً تھجرون اپنے گھمنڈ میں اس کو خاطر ہی میں نہ لاتے تھے، اپنی چوپالوں میں اس پر باتیں چھاٹتے اور بکواس کیا کرتے تھے) لفظ تھجرون کی ایک قرأت حرف تاء کے فتحہ اور حرف جیم کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ ایک قرأت کے مطابق حرف تاء مضموم اور حرف جیم مکسور ہے۔ اس لفظ کی تفسیر میں دو قول ہیں۔ ایک تو حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ تم حق سے منہ موڑ کر اسے چھوڑ دیتے ہو۔ “ مجاہد اور سعید بن جبیر کا قول ہے کہ ” تم بکواس کرتے ہو۔ “ ھجر بکواس کرنے کو کہتے ہیں۔ جن حضرات نے پہلی قرأت کی ہے ان کے نزدیک یہ لفظ ھجر بمعنی چھوڑنا سے ہی نکلا ہے جیسا کہ حضرت ابن بع اس وغیرہ سے مروی ہے۔ جب مریض بیماری کے دبائو میں آ کر ادھر ادھر کی ہانکنے لگے اور ہذیانی انداز میں باتیں کریں تو کہا جاتا ہے۔ ” اھجر المریض “ ایک قول کے مطابق لفظ (سامراً ) کو واحد کے صیغے میں بیان کیا گیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ظرفیت کے معنی ادا کر رہا ہے اور تقدیر کلام اس طرح ہے ۔” لیلا تھجرون “ (تم رات کے وقت بکواس کرتے رہتے ہو) مشرکین کی عادت تھی کہ رتا کے وقت کعبہ کے ارد گرد ٹولیاں بنا کر بیٹھ جاتے اور دنیا بھر کی گپیں ہانکتے (ایک قول کے مطابق اس لفظ کے معنی اگرچہ سماء یعنی اکٹھے بیٹھ کر گپ ہانکنے کے ہیں لیکن لفظ (سامراً ) اس لئے واحد لایا گیا ہے کہ یہ مصدر کے مقام میں ہے جس طرح کہا جاتا ہے ” قوموا قیاماً (کھڑے ہو جائو) رات کو گپیں ہانکنا شیوئہ مومن نہیں یعنی رات کے وقت باتیں کرنے اور گپیں ہانکنے کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ شعبہ نے ابو المنہال سے، انہوں نے حضرت ابوبرزہ اسلمی سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ عشاء کی نماز سے پہلے سو جانے کو اور عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند کرتے تھے شعبہ نے منصور سے، انہوں نے خزیمہ سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے یہ روایت کی ہے (الا سمو الالرجلین مضل او مسافر۔ دو شخصوں کے سوا کسی کے لئے رات کو باتیں کرنا درست نہیں ہے ایک نمازی اور دوسرا مسافر ) حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ وہ عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرنے سے منع کیا کرتے تھے۔ باتیں کرنے کے متعلق رخصت والی روایتیں بھی موجود ہیں۔ اعمش نے ابراہیم سے اور انہوں نے علقمہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا۔ حضور ﷺ ابوبکر کے ساتھ مسلمانوں کے معاملات میں سے کسی نہ کسی معاملے پر رتا کے وقت تبادلہ خیالات کیا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح عمرو بن دینار اور ایوب سختیانی بھی آدھی آدھی رات تک باتیں کرتے رہتے تھے۔
Top