Maarif-ul-Quran - Al-Furqaan : 61
تَبٰرَكَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ جَعَلَ فِیْهَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیْرًا
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا ہے الَّذِيْ جَعَلَ : وہ جس نے بنائے فِي السَّمَآءِ : آسمانوں میں بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّجَعَلَ : اور بنایا فِيْهَا : اس میں سِرٰجًا : چراغ (سورج) وَّقَمَرًا : اور چاند مُّنِيْرًا : روشن
بڑی برکت ہے اس کی جس نے بنائے آسمان میں برج اور رکھا اس میں چراغ اور چاند اجالا کرنے والا
تَبٰرَكَ الَّذِيْ جَعَلَ فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِيْهَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِيْرًا، وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ يَّذَّكَّرَ اَوْ اَرَادَ شُكُوْرًا۔
مقصود ان آیات سے انسان کو یہ بتلانا ہے کہ ہم نے آسمان میں بڑے بڑے ستارے اور شمس و قمر اور ان کے ذریعہ رات دن کا انقلاب اور ان کی تاریکی اور روشنی اور زمین و آسمان کی تمام کائنات اس لئے پیدا کئے ہیں کہ غور و فکر کرنے والے کو اس میں حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور توحید کے دلائل فراہم ہوں۔ اور شکر گزار کے لئے شکر کے مواقع ملیں تو جس شخص کا وقت دنیا میں ان دونوں چیزوں سے خالی گزر گیا اس کا وقت ضائع ہوگیا اور اس کا راس المال بھی فنا ہوگیا۔ اللھم اجعلنا من الذاکرین الشاکرین۔
ابن عربی فرماتے ہیں کہ میں نے شہید اکبر سے سنا ہے کہ بڑے غبن اور خسارہ میں ہے وہ آدمی جس کی عمر ساٹھ سال ہوئی۔ اس میں سے آدھا وقت تیس سال رات کو سونے میں گزر گئے اور چھٹا حصہ یعنی دس سال دن کو آرام کرنے میں گزر گیا تو ساٹھ میں سے صرف بیس سال کام میں لگے۔ قرآن حکیم نے اس جگہ بڑے بڑے ستاروں اور سیاروں اور فلکیات کا ذکر کرنے کے بعد یہ بھی بتلادیا کہ قرآن ان چیزوں کا ذکر بار بار اس لئے کرتا ہے کہ تم ان کی تخلیق اور ان کی حرکات ان سے پیدا ہونے والے آثار میں غور کرکے ان کے پیدا کرنے والے اور چلانے والے کو پہچانو اور شکر گزاری کے ساتھ اسے یاد کرتے رہو۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ اجرام سماویہ اور فلکیات کی حقیقیت اور ہیئت کیا ہے یہ آسمانوں کے جرم کے اندر سمائے ہوئے ہیں یا ان سے باہر کی فضائی آسمانی میں ہیں۔ انسان کے معاش یا معاد کا کوئی مسئلہ اس سے وابستہ نہیں اور ان کی حقیقت کا معلوم کرنا انسان کے لئے آسان بھی نہیں۔ جن لوگوں نے اپنی عمریں اس کام میں صرف کی ہیں ان کے اقرار سے ثابت ہے کہ وہ بھی کوئی قطعی اور آخری فیصلہ نہیں کرسکے اور جو فیصلے کئے وہ بھی خود دوسرے حکماء کی مخالف تحقیقات نے مخدوش و مجروح کردیئے۔ اس لئے تفسیر قرآن میں اس سے زیادہ کسی بحث میں پڑنا بھی کوئی قرآن کی ضروری خدمت نہیں۔ لیکن اس زمانے کے ماہرین سائنس نے مصنوعی سیارات اڑانے اور چاند تک پہنچ جانے اور وہاں کی مٹی، پتھر، غاروں، پہاڑوں کے فوٹو فراہم کرنے میں بلاشبہ حیرت انگیز کارنامے انجام دیئے مگر افسوس ہے کہ قرآن حکیم ان چیزوں سے انسان کو جس حقیقت شناسی کا سبق دینا چاہتا ہے یہ لوگ اپنی تحقیقی کاوشوں کے غرور میں مست ہو کر اس سے اور زیادہ دور ہوگئے اور عام لوگوں کے ذہنوں کو بھی بری طرح الجھا دیا، کوئی ان چیزوں کو قرآن کے خلاف سمجھ کر مشاہدات کا ہی انکار کردیتا ہے کوئی قرآن کریم میں تاویلات کرنے لگتا ہے اس لئے ضروری معلوم ہوا کہ بقدر ضرورت تفصیل کے ساتھ اس مسئلہ کو واضح کردیا جائے۔ سورة حجر کی آیت وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا کے تحت اس کا وعدہ بھی کیا گیا کہ تھا کہ سورة فرقان میں اس کی تفصیل لکھی جاوے گی وہ حسب ذیل ہے واللہ الموفق۔
ستارے اور سیارے آسمانوں کے اندر ہیں یا باہر قدیم و جدید علم ہیئت کے نظریات اور قرآن کریم کے ارشادات
جَعَلَ فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا کے الفاظ سے بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ بروج یعنی سیارے آسمانوں کے اندر ہیں کیونکہ حرف فی ظرفیت کے لئے مستعمل ہوتا ہے۔ اسی طرح سورة نوح میں ہے اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا، وَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِيْهِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا، اس میں فیھن کی ضمیر سبع سموات کی طرف راجع ہے جس سے ظاہراً یہی مفہوم ہوتا ہے کہ چاند آسمانوں کے اندر ہے۔ لیکن یہاں دو باتیں قابل غور ہیں۔ اول تو یہ کہ قرآن کریم میں لفظ سماء جس طرح اس عظیم الشان اور وہم و گمان سے زائد وسعت رکھنے والی مخلوق کے لئے استعمال ہوتا ہے جس میں قرآن کی تصریحات کے مطابق دروازے ہیں اور دروازوں پر فرشتوں کے پہرے ہیں جو خاص خاص اوقات میں کھولے جاتے ہیں اور جن کی تعداد قرآن کریم نے سات بتلائی ہے اسی طرح یہ لفظ سماء ہر بلند چیز جو آسمان کی طرف ہو اس پر بھی بولا جاتا ہے۔ آسمان و زمین کے درمیان کی فضا اور اس سے آگے جس کو آج کل کی اصطلاح میں خلا بولتے ہیں یہ سب دوسرے معنی کے اعتبار سے لفظ سماء کے مفہوم میں داخل ہیں۔ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً طَهُوْرًا، اور اسی طرح کی دوسری آیتیں جن میں آسمان سے پانی برسانے کا ذکر ہے ان کو اکثر مفسرین نے اسی دوسرے معنی پر محمول فرمایا ہے کیونکہ عام مشاہدات سے بھی یہ ثابت ہے کہ بارش ان بادلوں سے برستی ہے جو آسمان کی بلندی سے کوئی نسبت نہیں رکھتے اور خود قرآن کریم نے بھی دوسری آیات میں بادلوں سے پانی برسانے کی تصریح فرمائی ہے ارشاد ہے ءَاَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْهُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ اس میں مزن مزنتہ کی جمع ہے جس کے معنی سفید بادل کے آتے ہیں۔ معنی یہ ہیں کہ کیا بارش کو سفید بادلوں سے تم نے اتارا ہے یا ہم نے دوسری جگہ ارشاد ہے وّاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْــصِرٰتِ مَاۗءً ثَجَّاجًا، اس میں معصرات کے معنی پانی سے بھرے ہوئے بادل ہیں اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ ہم نے ہی پانی بھرے بادلوں سے کثرت سے پانی برسایا۔ قرآن مجید کی ان واضح تصریحات اور عام مشاہدات کی بناء پر جن آیات قرآن میں بارش کا آسمان سے برسانا مذکور ہے ان میں بھی اکثر مفسرین نے لفظ سماء کے یہی دوسرے معنی لئے ہیں یعنی فضاء آسمانی۔
خلاصہ یہ ہے کہ جب قرآن کریم اور لغت کی تصریحات کے مطابق لفظ سماء فضائے آسمانی کے لئے بھی بولا جاتا ہے اور خود جرم آسمان کے لئے بھی۔ تو ایسی صورت میں جن آیات میں کواکب اور سیارات کے لئے فی السمآء کا لفظ استعمال ہوا ہے ان کے مفہوم میں دونوں احتمال موجود ہیں کہ یہ کواکب اور ستارے جرم آسمان کے اندر ہوں یا فضائے آسمانی میں آسمانوں کے نیچے ہوں اور دو احتمالوں کے ہوتے ہوئے کوئی قطعی فیصلہ قرآن کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن نے ستاروں اور سیاروں کو آسمان کے اندر قرار دیا ہے یا ان سے باہر فضائے آسمانی میں بلکہ الفاظ قرآن کے اعتبار سے دونوں صورتیں ممکن ہیں۔ کائنات کی تحقیقات اور تجربے اور مشاہدے سے جو صورت بھی ثابت ہوجائے قرآن کی کوئی تصریح اس کے منافی نہیں ہے۔
حقائق کونیہ اور قرآن
یہاں ایک بات اصولی طور پر سمجھ لینا ضروری ہے کہ قرآن کریم کوئی فلسفہ یا ہیئت کی کتاب نہیں جس کا موضوع بحث حقائق کائنات یا آسمانوں اور ستاروں کی ہیئت و حرکات وغیرہ کا بیان ہو مگر اس کے ساتھ ہی وہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی کائنات کا ذکر بار بار کرتا ہے ان میں غور و فکر کی طرف دعوت بھی دیتا ہے۔ قرآن کریم کی ان تمام آیات میں غور کرنے سے واضح طور پر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ قرآن عزیز ان حقائق کونیہ کے متعلق انسان کو صرف وہ چیزیں بتلانا چاہتا ہے جن کا تعلق اس کے عقیدے اور نظریئے کی درستی سے ہو یا اس کے دینی اور دنیوی منافعان سے متعلق ہوں۔ مثلاً قرآن کریم نے آسمان و زمین اور ستاروں، سیاروں کا اور ان کی حرکات اور حرکات سے پیدا ہونے والے آثار کا ذکر بار بار ایک تو اس مقصد سے کیا ہے کہ انسان ان کی عجیب و غریب صنعت اور مافوق العادت آثار کو دیکھ کر یہ یقین کرے کہ یہ چیزیں خود بخود پیدا نہیں ہوگئیں ان کو پیدا کرنے والا کوئی سب سے بڑا حکیم سب سے بڑا علیم اور سب سے بڑا صاحب قدرت و قوت ہے اور اس یقین کے لئے ہرگز اس کی ضرورت نہیں کہ آسمانوں کی اور فضائی مخلوقات اور ستاروں، سیاروں کے مادے کی حقیقت اور ان کی اصلی ہیئت و صورت اور ان کے پورے نظام کی پوری کیفیت اس کو معلوم ہو بلکہ اس کے لئے صرف اتنا ہی کافی ہے جس کو ہر شخص مشاہدہ سے دیکھتا اور سمجھتا ہے کہ شمس و قمر اور دوسرے ستاروں کے کبھی سامنے آنے اور کبھی غائب ہوجانے سے نیز چاند کے گھٹنے بڑھنے سے اور رات دن کے انقلاب سے پھر مختلف موسموں اور مختلف خطوں میں دن رات کے گھٹنے بڑھنے کے عجیب و غریب نظام سے جس میں ہزاروں سال سے کبھی ایک منٹ ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آتا، ان سب امور سے ایک ادنیٰ عقل و بصیرت رکھنے والا انسان یہ یقین کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ سب کچھ حکیمانہ نظام یوں ہی خود بخود نہیں چل رہا، کوئی اس کو بنانے چلانے والا اور باقی رکھنے والا ہے اور اتنا سمجھنے کے لئے انسان کو نہ کسی فلسفی تحقیق اور آلات رصدیہ وغیرہ کی حاجت پڑتی ہے نہ قرآن نے اس کی طرف دعوت دی۔ قرآن کی دعوت صرف اسی حد تک ان چیزوں میں غور و فکر کی ہے جو عام مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام نے آلات رصدیہ بنانے یا مہیا کرنے اور اجرام سماویہ کی ہیئتیں دریافت کرنے کا مطلقا کوئی اہتمام نہیں فرمایا۔ اگر ان آیات کونیہ میں تدبر اور غور و فکر کا یہ مطلب ہوتا کہ ان کے حقائق اور ہیئات اور ان کی حرکات کا فلسفہ معلوم کیا جائے تو یہ ناممکن تھا کہ رسول اللہ ﷺ اس کا اہتمام نہ فرماتے، خصوصاً جبکہ ان فنون کا رواج اور تعلیم و تعلم کا سلسلہ دنیا میں اس وقت موجود بھی تھا۔ مصر، شام، ہند، چین وغیرہ میں ان فنون کے جاننے والے اور ان پر کام کرنے والے موجد تھے۔ حضرت مسیح ؑ سے پانسو سال پہلے فیثا غورس کا اور اس کے کچھ بعد بطلیموس کا نظریہ دنیا میں شائع اور رائج ہوچکا تھا اور اس زمانے کے حالات کے مناسب آلات رصدیہ وغیرہ ایجاد بھی ہوچکے تھے مگر جس ذات قدسی پر یہ آیات نازل ہوئیں اور جن صحابہ کرام نے بلاواسطہ آپ سے ان کو پڑھا انہوں نے کبھی اس طرف التفات تک نہیں فرمایا۔ اس سے قطعی طور پر معلوم ہوا کہ ان آیات کونیہ میں تدبر اور غور و فکر کا وہ منشاء ہرگز نہ تھا جو آج کل کے بعض تجدد پسند علماء نے یورپ اور اس کی تحقیقات سے متاثر ہو کر اختیار کیا ہے کہ خلائی سفر، چاند اور مریخ و زہرہ پر کمندیں پھینکنے کی مساعی قرآن کریم کے تقاضے کو پورا کرنا ہے۔
بس صحیح بات یہ ہے کہ قرآن کریم نہ ان فلسفی اور سائنسی تحقیقات قدیمہ یا جدیدہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہے نہ ان سے بحث کرتا ہے اور نہ ان کی مخالفت کرتا ہے۔ قرآن کریم کا حکیمانہ اصول و اسلوب کائنات و مخلوقات سے متعلقہ تمام فنون کے بارے میں یہی ہے کہ وہ ہر فن کی چیزوں سے صرف اسی قدر لیتا اور بیان کرتا ہے جس قدر انسان کی دینی یا دنیوی ضرورت سے متعلق ہے اور جس کو انسان آسانی سے حاصل بھی کرسکتا ہے اور جس کے حصول پر تخمیناً اس کو اطمینان بھی ہوسکتا ہے فلسفیانہ دور ازکار بحثوں سے اور ایسی تحقیقات سے جو عام انسانوں کے قابو سے باہر ہیں اور جن کو کچھ حاصل کرلینے کے بعد بھی قطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ ہی صحیح ہیں بلکہ حیرانی اور شکوک بڑھتے ہیں، ایسی بحثوں میں انسان کو نہیں الجھاتا۔ کیونکہ قرآن کی نظر میں انسان کی منزل مقصود ان تمام زمینی اور آسمانی کائنات و مخلوقات سے آگے اپنے خالق کی مرضیات پر چل کر جنت کی دائمی نعمتوں اور راحتوں کو حاصل کرنا ہے۔ حقائق کائنات کی بحث نہ اس کے لئے ضروری ہے اور نہ اس پر پورا عبور انسان کے بس میں ہے۔ ہر زمانے کے فلاسفروں اور ماہرین فلکیات کے نظریات میں شدید اختلافات اور روز مرہ کے نئے اکتشافات اس کی واضح دلیل ہیں کہ کسی نظریہ اور تحقیق کو یقینی اور آخری نہیں کہا جاسکتا۔ انسانی ضرورت سے متعلقہ تمام فنون، فلکیات، کائنات، فضا، ابرو باراں، خلا، طبقات الارض، پھر زمین پر پیدا ہونے والی مخلوقات، جمادات، نباتات، حیوانات سے اور عام انسان اور انسانی علوم و فون، تجارت، زراعت صنعت وغیرہ ان سب میں سے قرآن حکیم صرف ان کی روح اور مشاہداتی حصہ کو اس قدر لیتا ہے جس سے انسان کی دینی یا دنیوی ضرورت متعلق ہے، دور ازکار تحقیقات کی دلدل میں انسان کو نہیں پھنساتا البتہ کہیں کہیں کسی خاص مسئلے کی طرف اشارہ یا صراحت بھی پائی جاتی ہے۔
تفسیر قرآن میں فلسفی نظریات کی موافقت یا مخالفت کا صحیح معیار
علماء اہل حق قدیم و جدید اس پر متفق ہیں کہ ان مسائل کے متعلق جو بات قرآن کریم سے یقینی طور پر ثابت ہے، اگر کوئی قدیم یا جدید نظریہ اس سے مختلف ہو تو اس کی وجہ سے قرآنی آیات میں کھینچ تان اور تاویل جائز نہیں، اس نظریہ ہی کو مغالطہ قرار دیا جائے گا، البتہ جن مسائل میں قرآن کریم کی کوئی تصریح موجود نہیں الفاظ قرآنی میں دونوں معنے کی گنجائش ہے وہاں اگر مشاہدات اور تجربے سے کسی ایک نظریہ کو قوت حاصل ہوجائے تو آیت قرآن کو بھی اسی معنی پر محمول کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جیسے اسی آیت جَعَلَ فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا میں ہے کہ قرآن کریم نے اس بارے میں کوئی واضح فیصلہ نہیں دیا کہ ستارے آسمان کے اندر ہیں یا باہر فضائے آسمانی میں ہیں۔ آج کل جبکہ خلائی تجربات نے یہ ثابت کردیا کہ ان سیارات تک پہنچا جاسکتا ہے تو اس سے فیثا غورسی نظریہ کی تائید ہوگئی کہ ستارے آسمانوں میں پیوست نہیں کیونکہ قرآن کریم اور احادیث صریحہ کی تصریحات کی رو سے آسمان ایک ایسا حصار ہے جس میں دروازے ہیں اور دروازوں پر فرشتوں کا پہرہ ہے ان میں ہر شخص داخل نہیں ہو سکتا۔ اس مشاہدے اور تجربے کی بناء پر آیت مذکورہ کا یہ مفہوم قرار دیا جائے گا کہ کواکب کو فضائے آسمانی میں پیدا کیا گیا ہے اور یہ کوئی تاویل نہیں بلکہ دو مفہوم میں سے ایک کی تعیین ہے۔ لیکن اگر کوئی سرے سے آسمانوں کے وجود کا انکار کرے جیسے بعض ہیئت جدید والے کہتے ہیں یا کوئی یہ دعویٰ کرے کہ راکٹوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ آسمانوں کے اندر داخل ہوسکتا ہے تو ازروئے قرآن اس دعوے کو غلط قرار دیا جائے گا کیونکہ قرآن کریم نے متعدد آیات میں یہ بات واضح طور پر بتلائی ہے کہ آسمانوں میں دروازے ہیں اور وہ دروازے خاص خاص حالات میں کھولے جاتے ہیں ان دروازوں پر فرشتوں کا پہرہ مسلط ہے۔ آسمانوں میں داخلہ ہر شخص کا جب چاہے نہیں ہو سکتا، اس دعوے کی وجہ سے ان آیات میں کوئی تاویل نہیں کی جائے گی اور اس دعوے کو غلط قرار دیا جائے گا۔
اسی طرح جبکہ قرآن کریم کی آیت كُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ سے ستاروں کا حرکت کرنا ثابت ہے تو اس معاملہ میں بطلیموسی نظریہ کو غلط قرار دیا جائے گا جس کی رو سے ستارے آسمان کے جرم میں پیوست ہیں وہ خود حرکت نہیں کرتے بلکہ آسمان کی حرکت کے تابع ان کی حرکت ہوتی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ قدیم مفسرین میں سے بعض لوگ جو فلکیات کے متعلق بطلیموسی نظریئے کے معتقد تھے انہوں نے ان آیات قرآنی میں تاویلات سے کام لیا جن سے بطلیموسی نظریہ کے خلاف کوئی چیز سمجھی جاتی تھی اسی طرح آج کے بعض مصنفین جن آیات کو جدید ہیئت کے نظریات سے مختلف سمجھتے ہیں ان میں تاویلات کر کے اس کے مطابق بنانے کی فکر کرتے ہیں۔ یہ دونوں صورتیں درست نہیں سلف صالحین کے طریقے کے خلاف اور قابل تردید ہے۔ البتہ واقعہ یہی ہے کہ اس وقت تک ہیئت جدید نے جو نئی تحقیقات پیش کی ہیں ان میں آسمانوں کے انکار کے سوا کوئی بھی قرآن و سنت کے خلاف نہیں، بعض لوگ اپنے قصور علم سے ان کو قرآن یا سنت کے خلاف سمجھ کر تاویلات کے در پے ہوجاتے ہیں۔
زمانہ حال کے سب سے بڑے مفسر قرآن سید محمود آلوسی بغدادی جن کی تفسیر روح المعانی علماء سلف کی تفاسیر کا بہترین خلاصہ اور عرب و عجم مشرق و مغرب میں مقبول و مستند تفسیر ہے۔ موصوف جس طرح قرآن و سنت کے متبحر عالم ہیں اسی طرح فلسفہ و ہیئت قدیم و جدید کے بھی بڑے عالم ہیں۔ انہوں نے اپنی تفسیر میں تحقیقات فلسفیہ کے متعلق یہی اصول قرار دیا ہے جو اوپر ذکر کیا گیا ہے اور ان کے پوتے علامہ سید محمود شکری آلوسی نے ان مسائل پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے مادل علیہ القرآن مما یعضد الھیئة الجدیدة القویمة البرھان جس میں ہیئت جدید کے نظریات کی تائید قرآن کریم کی روشنی میں کی گئی ہے مگر دوسرے تجدد پسند علماء کی طرح قرآنی آیات میں کسی قسم کی تاویل کو روا نہیں رکھا۔ ان کے چند جملے اس جگہ نقل کردینا کافی ہیں جو ہیئت جدیدہ کی تائید میں لکھے ہیں وہ فرماتے ہیں۔
رایت کثیرا من قواعدھا لا یعارض النصوص الواردۃ فی الکتاب والسنۃ علی انھا لو خالفت شیئا من ذلک لم یلتفت الیھا ولم نؤ ول النصوص لاجلھا والتاویل فیھا لیس من مذاھب السلف الحریۃ بالقبول بل لا بد ان نقول ان المخالف لھا مشتمل علی خلل فیہ فان العقل الصریح لا یخالف النقل الصحیح بل کل منھما یصدق الاخر و یؤ یدہ (ما دل علیہ القران)
میں نے ہیئت جدیدہ کے بہت سے قواعد کو دیکھا ہے وہ قرآن و سنت کی نصوص کے خلاف نہیں اور اس کے باوجود اگر وہ قرآن و سنت کی کسی نص کے خلاف ہو تو ہم اس کی طرف رخ نہ کریں گے اور قرآن و سنت کی نصوص میں اس کی وجہ سے تاویل نہ کریں گے کیونکہ ایسی تاویل سلف صالحین کے مذہب مقبول میں نہیں ہے بلکہ ہم اس وقت یہ کہیں گے کہ جو نظریہ قرآن و سنت کے خلاف ہے اس میں ہی کوئی خلل ہے کیونکہ عقل سلیم اور نقل صحیح میں کبھی اختلاف نہیں ہوتا بلکہ ایک دوسرے کی تائید کرتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ فلکیات اور ستاروں، سیاروں کی حرکات اور ہیئات کے متعلق بحث و تحقیق کوئی نیا فن نہیں، ہزاروں سال پہلے سے ان مسائل پر تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ مصر، شام، ہند چین وغیرہ میں ان فنون کا چرچا قدیم زمانہ سے چلا آ رہا ہے۔ حضر مسیح ؑ سے پانسو سال پہلے اس فن کا بڑا معلم فیثا غورس گزرا ہے جو اطالیہ کے مدرسہ کروتونا میں باقاعدہ اس کی تعلیم دیتا تھا اس کے بعد میلاد مسیح ؑ سے تقریباً ایک سو چالیس سال پہلے اس فن کا دوسرا محقق بطلیموس رومی آیا اور اسی زمانے میں ایک دوسرے فلاسفر ہیئر خوس کی شہرت ہوئی جس نے زاویئے ناپنے کے آلات ایجاد کئے۔
فیثا غورس اور بطلیموس کے نظریات ہیئت افلاک کے متعلق بالکل ایک دوسرے سے متضاد تھے۔ بطلیموس کو اپنے زمانے کی حکومت اور عوام کا تعاون حاصل ہوا۔ اس کا نظریہ اتنا پھیلا کہ فیثا غورس کا نظریہ گوشہ گمنامی میں جا پڑا اور جب یونانی فلسفہ کا عربی زبان میں ترجمہ ہوا تو یہی بطلیموس کا نظریہ ان کتابوں میں منتقل ہوا اور اہل علم میں عام طور سے یہی نظریہ جانا پہچانا گیا۔ بہت سے مفسرین نے آیات قرآنیہ کی تفسیر میں بھی یہی نظریہ سامنے رکھ کر کلام کیا۔ گیارہویں صدی ہجری اور پندرہویں صدی عیسوی جس میں اقوام یورپ کی ترقی کا آغاز ہوا اور یوروپین محققین نے ان مسائل پر کام کرنا شروع کیا جن میں سب سے پہلے کو پر نک پھر جرمنی میں کیلر اور طالیہ میں گلیلیو وغیرہ کے نام آتے ہیں۔ انہوں نے از سرنو ان مباحث کا جائزہ لیا، یہ سب اس پر متفق ہوگئے کہ ہیئت افلاک کے متعلق بطلیموسی نظریہ غلط اور فیثا غورس کا نظریہ صحیح ہے۔ اٹھارہویں صدی عیسوی اور تیرہویں صدی ہجری میں اسحاق نیوٹن کی شہرت ہوئی۔ اس کی تحقیقات و ایجادات نے اس کو مزید تقویت پہنچائی، اس نے یہ تحقیق کی کہ وزنی چیزیں اگر ہوا میں چھوڑی جائیں تو ان کے زمین پر آگرنے کا سبب وہ نہیں جو بطلیموسی نظریہ میں بتلایا گیا ہے کہ زمین کے وسط میں مرکز عالم ہے اور تمام وزنی چیزیں مرکز کی طرف فطرة رجوع کرتی ہیں بلکہ اس نے بتلایا کہ جتنے ستارے اور سیارات ہیں سب میں ایک جذب و کشش کا مادہ ہے زمین بھی اس طرح کا ایک سیارہ ہے اس میں بھی کشش ہے۔ جس حد تک زمین کی کشش کا اثر رہتا ہے وہیں سے ہر وزنی چیز زمین پر آوے گی لیکن اگر کوئی چیز اس کی کشش کے دائرے سے باہر نکل جائے تو وہ پھر نیچے نہیں آئے گی۔
حال میں روسی اور امریکی ماہرین نے قدیم اسلامی فلاسفر ابو ریحان بیرونی کی تحقیقات کی امداد سے راکٹ وغیرہ ایجاد کر کے اس کا عملی تجربہ اور مشاہدہ کرلیا کہ راکٹ جب اپنی شدید قوت اور تیز رفتاری کے سبب زمین کی کشش کو توڑ کر اس کے دائرہ سے باہر نکل گیا تو پھر یہ نیچے نہیں آتا بلکہ ایک مصنوعی سیارے کی صورت اختیار کرلیتا اور اپنے مدار پر چکر لگاتا ہے۔ پھر ان مصنوعی سیاروں کا تجربہ کرتے کرتے اس کے ماہرین نے سیاروں تک پہنچنے کی تدبیریں شروع کیں اور بالاخر چاند پر پہنچ گئے جس کی تصدیق اس زمانے کے تمام ماہرین فن موافق و مخالف نے کی اور اب تک چاند پر بار بار جانے، وہاں کے پتھر، خاک وغیرہ لانے اور اس کے فوٹو مہیا کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسرے سیارات تک پہنچنے کی بھی کوششیں ہو رہی ہیں اور خلا نوردی خلا پیمائی کی مشقیں جاری ہیں۔
ان میں سے امریکن خلا نور و جان گلین جو کامیابی کے ساتھ خلا کا سفر کر کے واپس آیا اور اس کی کامیابی پر اس کے موافق و مخالف سبھی نے اعتماد کیا، اس کا ایک بیان امریکہ کے مشہور ماہنامہ ریڈرز ڈائجسٹ میں اور اس کا اردو ترجمہ امریکہ کے اردو ماہنامہ سیربین میں مفصل شائع ہوا ہے، یہاں اس کے اہم اقتباسات ماہنامہ سیربین سے نقل کئے جاتے ہیں جن سے ہمارے زیر بحث مسئلہ پر کافی روشنی پڑتی ہے جان گلین نے اپنے طویل مقالہ میں خلاء کے عجائب کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے
" یہی وہ ایک واحد شئی ہے جو خلاء میں خدا کے وجود پر دلالت کرتی ہے اور یہ کہ کوئی طاقت ہے جو ان سب کو مرکز و محور سے وابستی رکھتی ہے "۔
آگے لکھا ہے کہ
" اس کے باوجود خلا میں پہلے ہی سے جو عمل جاری ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہماری کوششیں انتہائی حقیر ہیں۔ سائنسی اصطلاحات و پیمانوں میں خلائی پیمائش ناممکن ہے "۔
آگے ہوائی جہاز کی مشینی قوت کا تذکرہ کر کے لکھا ہے کہ
" لیکن ایک یقینی اور غیر محسوس قوت کے بغیر اس کا استعمال بھی محدود اور بےمعنی ہو کر رہ جاتا ہے اس لئے کہ جہاز کو اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے تعیین رخ کی حاجت ہوتی ہے اور یہ کام قطب نما سے لیا جاتا ہے۔ وہ قوت جو قطب نما کو متحرک رکھتی ہے ہمارے تمام حواس خمسہ کے لئے ایک کھلا چیلنج ہے اسے نہ ہم دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں نہ چھو سکتے ہیں نہ چکھ سکتے ہیں نہ سونگھ سکتے ہیں حالانکہ نتائج کا ظہور اس پر واضح دلالت کر رہا ہوتا ہے کہ یہاں کوئی پوشیدہ قوت ضرور موجود ہے "۔
آگے سب سیر و سفر کے نتیجہ کے طور پر لکھتا ہے
" عیسائیت کے اصول و نظریات کی حقیقت بھی ٹھیک یہی کچھ ہے۔ اگر ہم ان کو اپنا رہنما بنائیں تو باوجودیکہ ہمارے حواس ان کے ادراک سے عاجز ہوتے ہیں لیکن اس رہنما قوت کے نتائج و تاثرات اپنے اور اپنے دوسرے بھائیوں کی زندگیوں میں کھلی آنکھوں دیکھیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جانتے ہیں اور اس بناء پر کہتے ہیں کہ اس کائنات میں ایک رہنما قوت موجود ہے "۔
یہ ہیں خلاء کے مسافروں اور سیارات پر کمند پھینکنے والوں کی کمائی کے حاصلات جو آپ نے امریکی خلا نورد کے بیان میں پڑھ لیں کہ اس تمام تگ و دو کے نتیجہ میں راز کائنات اور اس کی حقیقت تک رسائی تو کیا ہوتی، بےحد و بےحساب سیارات و نجوم کی گردشوں کا ادراک ہو کر اور حیرانی بڑھ گئی۔ سائنسی آلات سے ان کی پیمائش کے ناممکن ہونے اور اپنی سب کوششوں کی اس کے مقابلہ میں حقارت کا اقرار و اعتراف کرنا پڑا۔ بس حاصل اتنی بات ہوئی کہ یہ سب نظام کائنات اور نجوم و سیارات خود بخود نہیں، بلکہ کسی عظیم اور غیر محسوس طاقت کے زیر فرمان چل رہے ہیں۔ یہی وہ بات ہے جس کو انبیاء (علیہم السلام) نے پہلے قدم پر عام انسانوں کو بتلا دیا تھا اور قرآن کریم کی بیشمار آیات میں اسی چیز کا یقین دلانے کے لئے آسمان و زمین، نجوم و سیارات وغیرہ کے حالات پر غور و فکر کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔
آپ نے دیکھ لیا کہ جس طرح زمین میں بیٹھ کر آسمانی فضاؤں اور نجوم و سیارات کی تحقیقات و ہیئات پر فلسفیانہ بحثیں کرنے والے ان چیزوں کی حقیت تک نہ پہنچ سکے اور بالاخر اپنے عجز و بےبسی کا اعتراف کیا۔ اسی طرح یہ زمین سے لاکھوں میل اوپر کا سفر کرنے والے اور چاند کے پتھر اور مٹی اور وہاں کے فوٹو لانے والے بھی حقیقت شناسی کے میدان میں کچھ اس سے آگے نہ بڑھ سکے۔
ان تحقیقات نے انسان اور انسانیت کو کیا بخشا
جہاں تک انسانی جدوجہد اور فکری ارتقاء اور اس کی اعجوبہ کاری اور حیرت انگیز انکشافات کا معاملہ ہے وہ اپنی جگہ درست اور عام نظروں کے اعتبار سے قابل تحسین بھی ہے۔ لیکن اگر اس پر غور کیا جائے کہ بےمصرف شعبدہ گری اور تماش بینی جس سے انسان اور انسانیت کا کوئی معتدبہ فائدہ نہ ہو وہ حکماء و عقلاء کا کام نہیں۔ دیکھنا یہ چاہئے کہ اس پچاس سال کی جدوجہد اور اربوں کھربوں روپیہ جو بہت سے انسانوں کے مصائب دور کرنے کے لئے کافی ہوتا اس کو آگ کی نذر کردینے اور چاند تک پہنچ کر وہاں کی خاک اور پتھر سمیٹ لانے سے انسان اور انسانیت کو کیا فائدہ پہنچا۔ انسان کی بڑی بھاری تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو بھوک سے مرتے ہیں ان کو لباس اور سر چھپانے کی جگہ میسر نہیں، کیا اس جدوجہد نے ان کے افلاس و مصیبت کا کوئی حل نکالا۔ یا ان کے امراض و آفات سے صحت و عافیت کا کوئی انتظام کیا ان کے لئے قلبی سکون و راحت کا کوئی سامان فراہم کیا ؟ تو یقین ہے کہ کسی کے پاس اس کا جواب بجز نفی کے نہیں ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت انسان کو ایسے لایعنی مشغلے میں مبتلا کرنے سے گریز کرتے ہیں اور کائنات عالم میں غور و فکر اور تدبیر کی دعوت صرف دو حیثیتوں سے دیتے ہیں۔ پہلی حیثیت جو اصل مقصود ہے یہ ہے کہ ان آثار عجیبہ کو دیکھ کر موثر حقیقی اور اس غیر محسوس قوت کا یقین کرلیں جو اس سارے نظام کو چلا رہی ہے، اسی کا نام خدا ہے۔ دوسرے ان زمینی اور آسمانی مخلوقات میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے فائدے کے لئے ہر ضرورت کی چیز ودیعت فرما دی ہے انسان کا کام یہ ہے کہ اپنی عقل و شعور اور جدوجہد سے کام لے کر ان چیزوں کو زمین کے خزائن سے نکالنے اور استعمال کرنے کے طریقہ سیکھ لے۔ پہلی حیثیت اصل مقصود ہے اور دوسری حیثیت ثانوی رفع ضرورت کے لئے ہے اس لئے ضرورت سے زائد اس میں انہماک پسندیدہ نہیں اور کائنات عالم میں غور و فکر اور تدبر کی دونوں حیثیتیں انسان کے لئے آسان بھی ہیں نتیجہ خیز بھی۔ اور ان دونوں حیثیتوں کے نتائج میں قدیم و جدید فلاسفہ کا کوئی اختلاف بھی نہیں۔ ان کے سب اختلافات افلاک اور سیارات کی ہیئت و حقیقت سے متعلق ہیں جن کو قرآن نے بےضرورت اور ناقابل حصول قرار دے کر نظر انداز کردیا ہے۔ علامہ بخیت مفتی مصر نے اپن کتاب توفیق الرحمٰن میں علم ہیئت کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک حصہ وصفی ہے جو اجرام سماویہ کی حرکات اور حسابات سے متعلق ہے۔ دوسرا عملی جو ان حسابات کو معلوم کرنے کے لئے آلات قدیمہ و جدیدہ سے متعلق ہے۔ تیسرا طبعی، جو افلاک و سیارات کی ہیئت و حقیقت سے متعلق ہے اور لکھا ہے کہ پہلی دونوں قسموں میں ماہرین قدیم وجدید میں اختلاف کالعدم ہے۔ آلات ادراک میں بہت بڑا اختلاف ہونے کے باوجود نتائج پر اکثر امور میں سب کا اتفاق ہے ان کا شدید اختلاف صرف تیسری قسم میں ہے۔
غور کیجئے تو انسانی ضرورت کے متعلق بھی یہی پہلی دو قسمیں ہیں۔ تیسری قسم دور از کار بھی ہے اور مشکل بھی۔ اسی لئے قرآن و سنت اور عام انبیاء (علیہم السلام) کی تعلیمات نے انسان کو اس تیسری بحث میں نہیں الجھایا، اور بزرگان سلف نے یہ نصیحت فرمائی۔
زبان تازہ کردن باقرار تو نینگیختن علت از کار تو
مہندس بسے جوید از راز شاں نداند کہ چوں کردی آغاز شاں
صوفیائے کرام جو نظر کشفی سے ان چیزوں کو دیکھتے ہیں ان کا فیصلہ بھی انجام کار وہی ہے جو شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے فرمایا۔
چہ شبہا نشستم دریں سیر گم کہ حیرت گرفت آستینم کہ قم
حافظ شیرازی نے اپنی لے میں فرمایا
سخن از مطرب و می گوی راز دہر کمتر جو کہ کس نکشود و نکشاید بحکمت ایں معما را
اس تمام تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ کائنات افلاک و فضاء اور کائنات اراضی میں غور و فکر اس حیثیت سے کہ ان سے پیدا کرنے والے کے وجود اور توحید اور اس کی بےمثال علم وقدرت پر استدلال کیا جاسکے عین مقصود قرآنی ہے اور قرآن جا بجا اس کی دعوت دے رہا ہے اور اس حیثیت سے کہ ان چیزوں سے انسان کے معاشی مسائل کا تعلق ہے وہ بھی ضرورت کی حد تک منشاء قرآنی ہے اور قرآن اس کی طرف بھی دعوت دیتا ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ معاش اور معاشی ضروریات کو اصل مقصد قرار دے کر اس میں انہماک نہ کرے بلکہ اس موجودہ زندگی کو اصلی زندگی کی طرف ایک سفر کا درجہ قرار دے کر اس کے مطابق اس میں مغشول ہو اور تیسری حیثیت چونکہ انسانی ضرورت سے زائد بھی ہے اور اس کا حصول بھی مشکل ہے اس میں عمر عزیز صرف کرنے سے گریز کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہاں سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ موجودہ سائنس کی جدید ترقیات و تحقیقات کو عین منشاء قرآنی سمجھنا بھی غلط ہے جیسا کہ بعض تجدد پسند علماء نے لکھا ہے اور قرآن کو ان کا مخالف کہنا بھی غلط ہے جیسا کہ بعض قدامت پسند علماء نے کہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن نہ ان چیزوں کے بیان کے لئے آیا ہے نہ یہ اس کا موضوع بحث ہے نہ انسان کے لئے ان کا حاصل کرنا آسان ہے نہ انسانی ضروریات سے اس کا کوئی تعلق ہے۔ قرآن ان معاملات میں ساکت ہے۔ تجربات و مشاہدات سے کوئی چیز ثابت ہوجائے تو اس کو قرآن کے منافی کہنا بھی صحیح نہیں۔ چاند کے اوپر پہنچنا، رہنا بسنا اور وہاں کی معدنیات وغیرہ سے نفع اٹھانا وغیرہ سب اس میں داخل ہیں ان میں سے کوئی چیز مشاہد اور تجربہ سے ثابت ہوجائے تو اس کے انکار کی کوئی وجہ نہیں اور جب تک ثابت نہ ہو خوامخواہ اس کے تصورات باندھنا اور اس میں عمر عزیز کے اوقات صرف کرنا بھی کوئی دانشمندی نہیں۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم
Top