Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 71
یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ؕ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا
يُّصْلِحْ : وہ سنوار دے گا لَكُمْ : تمہارے عمل (جمع) اَعْمَالَكُمْ : تمہارے عمل (جمع) وَيَغْفِرْ : اور بخش دے لَكُمْ : تمہارے لیے ذُنُوْبَكُمْ ۭ : تمہارے گناہ وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّطِعِ اللّٰهَ : اللہ کی اطاعت کی وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَقَدْ فَازَ : تو وہ مراد کو پہنچا فَوْزًا عَظِيْمًا : بڑی مراد
کہ سنوار دے تمہارے واسطے تمہارے کام اور بخش دے تم کو تمہارے گناہ اور جو کوئی کہنے پر چلا اللہ کے اور اس کے رسول کے اس نے پائی بڑی مراد۔
زبان کی اصلاح باقی سب اعضاء و اعمال کی اصلاح میں موثر ذریعہ ہے
اس آیت میں اصل حکم سب مسلمانوں کو یہ دیا گیا ہے کہ اتقوا اللہ یعنی تقویٰ اختیار کرو جس کی حقیقت تمام احکام آلہیہ کی مکمل اطاعت ہے کہ تمام اوامر کی تعمیل کرے اور تمام منہیات و مکروہات سے اجتناب کرے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ کام انسان کے لئے آسان نہیں، اس لئے اتقوا اللہ کے بعد ایک خاص عمل کی ہدایت ہے، یعنی اپنے کلام کی درستی اور اصلاح۔ یہ بھی اگرچہ تقویٰ کا ہی ایک جز ہے مگر ایسا جز ہے کہ اس پر قابو پا لیا جائے تو باقی اجزاء تقویٰ خود بخود حاصل ہوتے چلے جائیں گے جیسا کہ خود آیت مذکورہ میں قول سدید اختیار کرنے کے نتیجہ میں (آیت) یصلح لکم اعمالکم کا وعدہ ہے یعنی اگر تم نے اپنی زبان کو غلطی سے روک لیا اور کلام درست اور بات سیدھی کہنے کے خوگر ہوگئے تو اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال کی اصلاح فرمائیں گے، اور سب کو درست کردیں گے اور آخر آیت میں یہ وعدہ فرمایا کہ یغفرلکم ذنوبکم یعنی جس شخص نے اپنی زبان پر قابو پا لیا، راست گوئی اور سیدھی بات کا عادی بن گیا، اللہ تعالیٰ اس کے باقی اعمال کی بھی اصلاح فرما دیں گے اور جو لغزشیں اس سے ہوئی ہیں ان کو معاف فرما دیں گے۔
قرآنی احکام میں تسہیل کا خاص اہتمام
قرآن کریم کے عام اسلوب میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کوئی حکم ایسا دیا گیا جس کی تعمیل میں کچھ مشقت و دشواری ہو تو ساتھ ہی اس کے آسان کرنے کا طریقہ بھی بتلا دیا گیا ہے۔ اور چونکہ سارے دین کا خلاصہ تقویٰ ہے اور اس میں پورا اترنا بڑی مشقت ہے، اس لئے عموماً جہاں اتقوا اللہ کا حکم دیا گیا ہے تو اس سے پہلے یا بعد میں کوئی ایک عمل ایسا بتلا دیا ہے جس کے اختیار کرنے سے تقویٰ کے باقی ارکان پر عمل منجانب اللہ آسان کردیا جاتا ہے۔ اسی کی ایک نظر اس آیت میں اتقوا اللہ کے بعد قولوا قولاً سدیداً کی تلقین ہے، اور اس سے پہلی آیت میں اتقوا اللہ سے پہلے (آیت) ولا تکونوا کالذین اذا واموسیٰ فرما کر اس بات کی طرف ہدایت فرما دی کہ تقویٰ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اللہ کے نیک اور مقبول بندوں کو ایذاء دینا ہے اسے چھوڑ دو تو تقویٰ آسان ہوجائے گا۔
ایک آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) اتقوا اللہ وکونوامع الصدقین، اس میں تقویٰ کو آسان کرنے کے لئے ایسے لوگوں کی صحبت ومجالست کی تلقین فرمائی جو بات کے سچے ہوں اور عمل کے بھی سچے ہوں، جس کا حاصل ولی اللہ ہونا ہے۔ اور دوسری آیت میں اتقوا اللہ کے ساتھ (آیت) ولتنظر نفس ماقدمت لغد بڑھا دیا، جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر انسان کو اس کی فکر چاہئے کہ اس نے کل یعنی روز محشر کے لئے کیا سامان بھیجا ہے ؟ جس کا خلاصہ فکر آخرت ہے اور یہ فکر تقویٰ کے تمام ارکان کو آسان کردینے والی چیز ہے۔
زبان و کلام کی درستی دین و دنیا دونوں کے کام درست کرنیوالی ہے
حضرت شاہ عبدالقادر صاحب دہلوی ؒ نے جو ترجمہ اس آیت کا کیا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں جو سیدھی بات کا عادی ہونے پر اصلاح اعمال کا وعدہ ہے وہ صرف دینی اعمال ہی نہیں، بلکہ دنیا کے سب کام بھی اس میں داخل ہیں، جو شخص قول سدید کا عادی ہوجائے یعنی کبھی جھوٹ نہ بولے، سوچ سمجھ کر کلام کرے جو خطاء و لغزش سے پاک ہو، کسی کو فریب نہ دے، دل خراش بات نہ کرے، اس کے اعمال آخرت میں بھی درست ہوجائیں گے اور دنیا کے کام بھی بن جائیں گے۔ حضرت شاہ صاحب کا ترجمہ یہ ہے کہ (کہو بات سیدھی کہ سنوار دے تم کو تمہارے کام)۔
Top