Maarif-ul-Quran - Al-Hijr : 20
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ هَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ١ۙ وَ اَنَّ اَكْثَرَكُمْ فٰسِقُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب هَلْ تَنْقِمُوْنَ : کیا ضد رکھتے ہو مِنَّآ : ہم سے اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ اٰمَنَّا : ہم سے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَمَآ : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْنَا : ہماری طرف وَمَآ : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَاَنَّ : اور یہ کہ اَكْثَرَكُمْ : تم میں اکثر فٰسِقُوْنَ : نافرمان
تو کہہ اے کتاب والو ! کیا ضد ہے تم کو ہم سے مگر یہی کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور جو نازل ہوا ہم پر اور جو نازل ہوچکا پہلے اور یہی کہ تم میں اکثر نافرمان ہیں ،
خلاصہ تفسیر
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب تم ہم میں کیا عیب پاتے ہو بجز اس کے کہ ہم ایمان لائے ہیں اللہ پر اور اس کتاب پر جو ہمارے پاس بھیجی گئی ہے (یعنی قرآن) اور اس کتاب پر (بھی) جو (ہم سے) پہلے بھیجی جا چکی ہے (یعنی تمہاری کتاب تورات و انجیل) باوجود اس کے کہ تم میں اکثر لوگ ایمان سے خارج ہیں (کہ نہ قرآن کا ایمان ہے جس کا خود ان کو بھی اقرار ہے اور نہ تورات و انجیل پر ایمان ہے، کیونکہ ان پر ایمان ہوتا تو ان میں رسول اللہ ﷺ اور قرآن پر ایمان لانے کی ہدایت موجود ہے اس پر بھی ضرور ایمان ہوتا، قرآن کا انکار اس پر شاہد ہے کہ تورات و انجیل پر بھی ان کا ایمان نہیں ہے۔ یہ حال تو تم لوگوں کا ہوا اور ہم اس کے برعکس سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ تو عیب ہم میں نہیں خود تم میں ہے غور کرو) اور آپ ﷺ (ان سے) کہہ دیجئے کہ (اگر اس پر بھی تم ہمارے طریقہ کو برا سمجھتے ہو تو آؤ) کیا میں (اچھے برے میں موازنہ کرنے کے لئے) تم کو ایسا طریقہ بتلاؤں جو (ہمارے) اس (طریقہ) سے بھی (جس کو تم برا سمجھ رہے ہو) خدا کے یہاں سزا ملنے میں زیادہ برا ہو، وہ ان اشخاص کا طریقہ ہے جن کو (اس طریقہ کی وجہ سے) اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دور کردیا ہو اور ان پر غضب فرمایا ہو اور ان کو بندر اور سور بنادیا ہو اور انہوں نے شیطان کی پرستش کی ہو (اب دیکھ لو کہ ان میں کون سا طریقہ برا ہے، آیا وہ طریقہ جس میں غیر اللہ کی عبادت اور اس پر یہ وبال ہوں، یا وہ طریقہ جو سراسر توحید اور نبوت انبیاء کی تصدیق ہو۔ یقینا موازنہ یہی ہے کہ) ایسے اشخاص (جن کا طریقہ ابھی ذکر کیا گیا ہے آخرت میں) مکان کے اعتبار سے بھی (جو ان کو سزا کے طور پر ملے گا) بہت برے ہیں (کیونکہ یہ مکان دوزخ ہے) اور (دنیا میں) راہ راست سے بھی بہت دور ہیں (اشارہ یہ ہے کہ تم لوگ ہم پر ہنستے ہو، حالانکہ استہزاء کے قابل تمہارا طریقہ ہے کیونکہ یہ سب خصلتیں تم میں پائی جاتی ہیں، کہ یہود نے گو سالہ پرستی کی اور نصاریٰ نے حضرت مسیح ؑ کو خدا بنا لیا، پھر اپنے علماء و مشائخ کو خدائی کے اختیارات سپرد کر دئے، اسی لئے یہودیوں نے جب یوم سبت کے احکام کی خلاف ورزی کی تو اللہ کا عذاب آیا، وہ بندر بنا دیئے گئے، اور نصاریٰ کی درخواست پر آسمانی مائدہ نازل ہونے لگا۔ انہوں نے پھر بھی ناشکری کی تو ان کو بندر اور سور بنادیا گیا۔ آگے ان کی ایک خاص جماعت کا ذکر ہے جو منافق تھے کہ مسلمانوں کے سامنے اسلام کا اظہار کرتے تھے اور اندرونی طور پر یہودی ہی تھے) اور جب یہ (منافق) لوگ تم لوگوں کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں حالانکہ وہ کفر ہی کو لے کر (مسلمانوں کی مجلس میں) آئے تھے اور کفر ہی لے کر چلے گئے اور اللہ تعالیٰ تو خوب جانتے ہیں جس کو یہ (اپنے دل میں) چھپائے ہوئے ہیں (اس لئے ان کا نفاق اللہ تعالیٰ کے سامنے کام نہیں دے گا اور کفر کی بدترین سزا سے سابقہ پڑے گا)۔

معارف و مسائل
اَكْثَرَكُمْ فٰسِقُوْنَ. میں حق تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے خطاب میں سب کے بجائے اکثر کو خارج از ایمان فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ہر حال میں مومن ہی رہے، جب تک رسول اللہ ﷺ کی بعثت نہیں ہوتی تھی وہ احکام تورات و انجیل کے تابع اور ان پر ایمان رکھتے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوئے اور قرآن نازل ہوا تو آپ ﷺ پر ایمان لائے اور عمل قرآن کے تابع کرنے لگے۔
Top