Maarif-ul-Quran - An-Najm : 33
اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ تَوَلّٰىۙ
اَفَرَءَيْتَ : کیا بھلا دیکھا تم نے الَّذِيْ تَوَلّٰى : اس شخص کو جو منہ موڑ گیا
بھلا تو نے دیکھا اس کو جس نے منہ پھیر لیا
شان نزول
در منثور میں بروایت ابن جریر یہ نقل کیا ہے کہ کوئی شخص اسلام لے آیا تھا، اس کے کسی ساتھی نے اس کو ملامت کی کہ تو نے اپنے باپ دادا کے دین کو کیوں چھوڑ دیا ؟ اس نے کہا کہ میں اللہ کے عذاب سے ڈرتا ہوں وہ بولا کہ تو مجھے کچھ دیدے تو میں آخرت کا تیرا عذاب اپنے سر پر رکھ لوں گا، تو عذاب سے بچ جائے گا، چناچہ اس نے کچھ دیدیا، اس نے اور مانگا تو کچھ کشا کشی کے بعد کچھ اور بھی دے دیا اور بقیہ کی دستاویز مع گواہوں کے لکھ دی، روح المعانی میں اس شخص کا نام ولید بن مغیرہ لکھا ہے، جس کا اسلام کی طرف میلان ہوگیا تھا، اس کے دوست نے ملامت کی اور عذاب کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔
خلاصہ تفسیر
(آپ نے نیکوں کی صفات تو سن لیں) تو بھلا آپ نے ایسے شخص کو بھی دیکھا جس نے (دین حق سے) روگردانی کی (یعنی اسلام سے ہٹ گیا) اور تھوڑا مال دیا اور (پھر) بند کردیا (یعنی جس شخص سے مال دینے کا وعدہ اپنے مطلب کے واسطے کیا تھا، وہ بھی پورا نہ دیا اور اسی سے مفہوم ہوا کہ ایسا شخص دوسروں کی نفع رسانی کے لئے کیا خرچ کرے گا جب اپنے ہی مطلب کے لئے پورا خرچ نہ کرسکا جس کا حاصل اس کا بخیل ہونا ہے) کیا اس شخص کے پاس (کسی صحیح ذریعہ سے) علم غیب ہے کہ اس کو دیکھ رہا ہے (جس کے ذریعہ سے معلوم ہوگیا کہ فلاں شخص میری طرف سے میرے گناہوں کا عذاب اپنے سر لے کر مجھے عذاب سے بچا دے گا) کیا اس کو اس مضمون کی خبر نہیں پہنچی جو موسیٰ ؑ کے صحیفوں میں ہے (اور حسب روایت در منثور در تفسیر سورة اعلیٰ موسیٰ ؑ کے یہ دس صحیفے علاوہ توریت کے ہیں) اور نیز ابراہیم ؑ کے (صحیفوں میں ہے وسیاتی فی سورة الاعلیٰ) جنہوں نے احکام کی پوری بجا آوری کی (اور وہ مضمون) یہ (ہے) کہ کوئی شخص کسی کا گناہ اپنے اوپر (ایسے طور سے) نہیں لے سکتا (کہ گناہ کرنے والا بری ہوجاوے، پھر یہ شخص کیسے سمجھ گیا کہ میرا سارا گناہ یہ شخص اپنے سر رکھ لے گا) اور یہ (مضمون ہے) کہ انسان کو (ایمان کے بارے میں) صرف اپنی ہی کمائی ملے گی (یعنی کسی دوسرے کا ایمان اس کے کام نہ آوے گا، پس اگر اس ملامت کرنے والے شخص کے پاس ایمان ہوتا تب بھی اس شخص کے کام نہ آتا، چہ جائے کہ وہاں بھی ایمان ندارد ہے) اور یہ (مضمون ہے) کہ انسان کی سعی بہت جلد دیکھی جائے گی پھر اس کو پورا بدلہ دیا جاوے گا (باوجود اس کے یہ شخص اپنی فلاح کی سعی سے کیسے غافل ہوگیا) اور یہ (مضمون ہے) کہ (سب کو) آپ کے پروردگار ہی کے پاس پہنچنا ہے (پھر وہ شخص کیسے نڈر ہوگیا) اور یہ (مضمون ہے) کہ وہی ہنساتا اور رلاتا ہے اور یہ کہ وہی مارتا ہے اور جلاتا ہے اور یہ کہ وہی دونوں قسم یعنی نر اور مادہ کو نطفہ سے بناتا ہے جب (وہ رحم میں) ڈالا جاتا ہے (یعنی مالک تمام تصرفات کا خدا ہی ہے، دوسرا نہیں، پھر وہ شخص کیسے سمجھ گیا کہ قیامت کے روز یہ تصرف کہ مجھ کو عذاب سے بچا لے کسی دوسرے کے قبضہ میں ہوجاوے گا) اور یہ (مضمون ہے) کہ دوبارہ پیدا کرنا (حسب وعدہ) اس کے ذمہ ہے (یعنی ایسا ضروری ہونے والا ہے جیسے کسی کے ذمہ ہو تو اس شخص کے نڈر ہونے کی وجہ یہ بھی نہ ہونا چاہئے کہ قیامت نہ آوے گی) اور یہ (مضمون ہے) کہ وہی غنی کرتا ہے (یعنی سرمایہ دیتا ہے) اور سرمایہ (دے کر محفوظ اور) باقی رکھتا ہے اور یہ کہ وہی مالک ہے ستارہ شعریٰ کا بھی (جس کی عبادت جاہلیت میں بعض لوگ کرتے تھے، یعنی ان تصرفات و اشیاء کا مالک بھی وہی ہے جیسے پہلے تصرفات کا مالک وہی ہے اور اوپر کے تصرفات خود انسان کے وجود میں ہیں اور بعد کے تصرفات متعلقات انسان میں ہیں، چناچہ مال اور ستارہ دونوں خارج ہیں اور شاید ان دو کے ذکر میں اشارہ ہو کہ جس کو تم اپنا مددگار سمجھتے ہو اس کے رب بھی ہم ہی ہیں، پھر دوسرے کو قیامت میں اس شخص کے گمان کے موافق کیا تصرف پہنچ سکتا ہے) اور یہ (مضمون ہے) کہ اس نے قدیم قوم عاد کو (اس کے کفر کی وجہ سے) ہلاک کیا اور ثمود کو بھی کہ (ان میں سے) کسی کو باقی نہ چھوڑا اور ان سے پہلے قوم نوح ؑ کو (ہلاک کیا) بیشک وہ سب سے بڑھ کر ظالم اور شریر تھے (کہ ساڑھے نو سو برس کی دعوت میں بھی راہ پر نہ آئے) اور (قوم لوط ؑ کی) الٹی ہوئی بستیوں کو بھی پھینک مارا تھا، پھر ان بستیوں کو گھیر لیا جس چیز نے کہ گھیر لیا (یعنی اوپر سے پتھر برسنا شروع ہوئے، پس یہ شخص اگر ان قصوں میں غور کرتا تو عذاب کفر سے ڈرتا اور بےفکر نہ ہوتا، آگے ان سب مضامین پر تفریع فرماتے ہیں کہ اے انسان جب ایسے ایسے مضامین سے تجھ کو آگاہ کیا جاتا ہے جو بوجہ ہدایت ہونے کے ہر مضمون بجائے خود ایک نعمت ربانی ہے) تو تو اپنے رب کی کون کونسی نعمت میں شک (و انکار) کرتا رہے گا (اور ان مضامین کی تصدیق کر کے منتفع نہ ہوگا) یہ (پیغمبر) بھی پہلے پیغمبروں کی طرح ایک پیغمبر ہیں (ان کو مان لو کیونکہ) وہ جلدی آنے والی چیز قریب آپہنچی ہے (مراد قیامت ہے اور جب وہ آوے گی تو) کوئی غیر اللہ اس کا ہٹانے والا نہیں (پس کسی کے بھروسہ بےفکری کی گنجائش ہی نہیں) سو کیا (ایسی خوف کی باتیں سن کر بھی) تم لوگ اس کلام (الٰہی) سے تعجب کرتے اور (استہزاءً) ہنستے ہو اور (خوف عذاب سے) روتے نہیں ہو اور تم (اطاعت سے) تکبر کرتے ہو سو (اس کبر و غفلت سے باز آؤ اور حسب تعلیم ان پیغمبر کے) اللہ کی اطاعت کرو اور (اس کی بلا شرکت) عبادت کرو (تاکہ تم کو نجات ہو)

معارف و مسائل
اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ تَوَلّٰى، تولی کے لفظی معنی منہ پھیر لینے کے ہیں، مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ پھیرے۔
Top