Maarif-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 27
وَّ یَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِۚ
وَّيَبْقٰى : اور باقی رہے گی وَجْهُ رَبِّكَ : تیرے رب کی ذات ذُو الْجَلٰلِ : بزرگی والی وَالْاِكْرَامِ : اور کرم والی
اور باقی رہے گا منہ تیرے رب کا بزرگی اور عظمت والا
وَجْهُ رَبِّكَ ، وجہ سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک ذات حق سبحانہ و تعالیٰ ہے اور ربک میں ضمیر خطاب رسول اللہ ﷺ کی طرف راجع ہے، یہ حضرت سید الانبیاء ﷺ کا خاص اعزازو اکرام ہے کہ آپ کو خاص مقام مدح میں کہیں تو عبدہ کا خطاب ہوا ہے اور کہیں رب الارباب نے اپنی ذات کی نسبت حضور کی طرف کر کے ربک سے خطاب فرمایا ہے۔
مشہور تفسیر کے مطابق معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے جن میں جن و انس بھی داخل ہیں سب کے سب فانی ہیں، باقی رہنے والی ایک ہی ذات حق جل و علا شانہ کی ہے۔
فانی ہونے سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ سب چیزیں اس وقت بھی اپنی ذات میں فانی ہیں، ان میں دوام وبقاء کی صلاحیت نہیں اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ قیامت کے روز یہ سب چیزیں فنا ہوجائیں گی۔
اور بعض حضرات مفسرین نے وَجْهُ رَبِّكَ کی تفسیر جہت اور سمت سے کی ہے، اس صورت میں معنی آیت کے یہ ہوجائیں گے کہ کل موجودات میں بقا صرف اس چیز کو ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب میں ہے اس میں اس کی ذات وصفات بھی داخل ہیں اور مخلوقات کے اعمال و احوال میں جس چیز کا تعلق حق تعالیٰ کے ساتھ ہے وہ بھی شامل ہے، جس کا حاصل یہ ہوگا کہ انسان اور جن اور فرشتے جو کام اللہ کے لئے کرتے ہیں وہ کام بھی باقی ہے وہ فنا نہیں ہوگا (کذا فی المظہری والقرطبی والروح) اور اس مفہوم کی تائید قرآن مجید کی ایک آیت سے بھی ہوتی ہے مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ " یعنی جو کچھ تمہارے پاس ہے مال و دولت ہو یا قوت و طاقت یا راحت و کلفت یا کسی کی محبت و عداوت یہ سب چیزیں فنا ہونے والی ہیں اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے " اللہ کے پاس انسان کے اعمال و احوال میں سے وہ چیز ہے جس کا تعلق حق تعالیٰ سے ہے کہ اس کو فنا نہیں، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔
ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ ، یعنی وہ رب صاحب عظمت و جلال بھی ہے اور صاحب اکرام بھی، صاحب اکرام ہونے کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ در حقیقت ہر اکرام و اعزاز کا مستحق تنہا وہی ہے اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ خود صاحب عظمت و جلال ہونے کے باوجود عام دنیا کے بادشاہوں اور عظمت والوں کی طرح نہیں کہ ان کو دوسروں کی اور غریبوں کی طرف التفات و توجہ نہ ہو، بلکہ وہ عظمت و جلال کے ساتھ اپنی مخلوقات کا بھی اکرام کرتا ہے، کہ ان کو عطاء وجود کے بعد طرح طرح کی بیشمار نعمتوں سے نوازتا ہے اور ان کی درخواستیں اور دعائیں سنتا ہے، اگلی آیت اسی دوسرے معنی کی شہادت دیتی ہے اور یہ لفظ ذو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ حق تعالیٰ کی ان خاص صفات میں سے ہے کہ ان کو ذکر کر کے انسان جو دعا مانگتا ہے قبول ہوتی ہے، ترمذی، نسائی اور مسند احمد میں ربیعہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا الظوا بیا ذا الجلال والاکرام، الظوا، الظاظ سے مشتق ہے، جس کے معنی لازم پکڑنے کے ہیں، مراد حدیث کی یہ ہے کہ اپنی دعاؤں میں یا ذا الجلال والا کرام کو یاد رکھو اور اس کے ساتھ دعا کیا کرو (کیونکہ وہ اقرب الی القبول ہے (مظہری)
Top