Maarif-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 33
یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْا١ؕ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍۚ
يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ : اے گروہ جن و انس اِنِ اسْتَطَعْتُمْ : اگر تم استطاعت رکھتے ہو اَنْ تَنْفُذُوْا : کہ تم نکل بھاگو مِنْ اَقْطَارِ : کناروں سے السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کے وَالْاَرْضِ : اور زمین کے فَانْفُذُوْا ۭ : تو بھاگ نکلو لَا تَنْفُذُوْنَ : نہیں تم بھاگ سکتے اِلَّا بِسُلْطٰنٍ : مگر ساتھ ایک زور کے
اے گروہ جنوں کے اور انسانوں کے اگر تم سے ہو سکے کہ نکل بھاگو آسمانوں اور زمین کے کناروں سے تو نکل بھاگو نہیں نکل سکنے کے بدون سند کے
يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْـطَار السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ ، پچھلی آیت میں جن وانس کو بلفظ ثقلین مخاطب کر کے بتلایا گیا تھا کہ قیامت کے روز ایک ہی کام ہوگا کہ سب جن و انس کے اعمال کا جائزہ لیا جائے گا اور اس کے ذرہ ذرہ پر جزاء و سزا ہوگی، اس آیت میں یہ بتلانا منظور ہے کہ روز جزاء کی حاضری اور حساب اعمال سے کوئی شخص راہ فرار اختیار نہیں کرسکتا، کسی کی مجال نہیں جو موت سے یا روز قیامت کے حساب سے کہیں بھاگ کر بچ نکلے، اس آیت میں ثقلین کے بجائے يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ کے صریح نام ذکر فرمائے اور جن کو انس پر مقدم کیا، شاید اس میں اشارہ اس طرف ہو کہ آسمان و زمین کے اقطار سے پار نکل جانا بڑی قوت وقدرت چاہتا ہے، جنات کو حق تعالیٰ نے ایسے امور کی قوت انسان سے زیادہ بخشی ہے، اس لئے جن کے ذکر کو مقدم کیا گیا، مطلب آیت کا یہ ہے کہ اے جنات اور انسانو ! اگر تمہیں یہ گمان ہو کہ ہم کہیں بھاگ جائیں گے اور اس طرح ملک الموت کے تصرف سے بچ جائیں یا میدان حشر سے بھاگ کر نکل جائیں گے اور حساب کتاب سے بچ جائیں گے تو لو اپنی قوت آزما دیکھو، اگر تمہیں اس پر قدرت ہے کہ آسمان و زمین کے دائروں سے باہر نکل جاؤ تو نکل کر دکھلاؤ، یہ کوئی آسان کام نہیں، اس کے لئے تو بہت بڑی قوت وقدرت درکار ہے، جو جن و انس کی دونوں قوموں کو حاصل نہیں، اس کا حاصل ان کا اقطار سماء و ارض سے باہر نکلنے کا امکان و احتمال بتلانا نہیں، بلکہ بطور فرض محال ان کا عاجز ہونا دکھلانا ہے۔
آیت میں مراد اگر موت سے فرار ہے تو یہی دنیا اس کا مصداق ہے کہ کسی کے امکان میں نہیں کہ زمین سے آسمانوں تک کی حدود کو پھلانگ کر باہر نکل جائے اور موت سے بچ جائے، ان حدود کو پار کرنے کا ذکر بھی انسانی خیال کے مطابق کیا گیا ہے، ورنہ بالفرض کوئی آسمانوں کی حدود سے باہر نکل جائے تو اللہ تعالیٰ کے احاطہ قدرت سے بھی باہر نہیں اور اگر مراد محشر کے حساب و کتاب اور جواب دہی سے فرار کا ناممکن ہونا بتلانا ہے، تو اس کی عملی صورت قرآن کریم کی دوسری آیات اور روایات حدیث میں یہ ہے کہ قیامت کے روز آسمان شق ہو کر سب فرشتے زمین کے کناروں پر آجائیں گے اور ہر طرف سے محاصرہ ہوگا جن و انس قیامت کی ہولناک چیزوں کو دیکھ کر مختلف سمتوں میں بھاگیں گے، ہر سمت میں فرشتوں کا محاصرہ دیکھ کر پھر اپنی جگہ لوٹ آئیں گے (روح)
فضائی سفر جو آج کل مصنوعی سیاروں اور راکٹوں سے ہو رہے ہیں ان کا اس آیت سے کوئی جوڑ نہیں
اس زمانہ جو زمین کی کشش سے باہر نکلنے اور خلا میں سیارات پر پہنچنے کے تجربات ہو رہے ہیں وہ سب ظاہر ہے کہ آسمان کے حدود سے باہر نہیں، بلکہ سطح آسمان سے بہت نیچے ہو رہے ہیں، اقطار السمٰوات سے باہر نکل جانے کا اس سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو اقطار السمٰوات کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے باہر نکلنا تو کجا، اس لئے اس آیت کے مفہوم سے ان خلائی سفروں اور سیارات پر پہنچنے کے واقعات کا کوئی تعلق نہیں، بعض سادہ لوح لوگ اس آیت ہی کو خلائی سفروں کے امکان و جواز کے لئے پیش کرنے لگے، جو معانی قرآن سے بالکل ناواقفیت کی دلیل ہے۔
Top