Maarif-ul-Quran - Al-Hadid : 22
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌۚۖ
مَآ اَصَابَ : نہیں پہنچتی مِنْ : سے مُّصِيْبَةٍ : کوئی مصیبت فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ : اور نہ تمہارے نفسوں میں اِلَّا : مگر فِيْ كِتٰبٍ : ایک کتاب میں ہے مِّنْ قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ نَّبْرَاَهَا ۭ : کہ ہم پیدا کریں اس کو اِنَّ ذٰلِكَ : بیشک یہ بات عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر يَسِيْرٌ : بہت آسان ہے
کوئی آفت نہیں پڑتی ملک میں اور نہ تمہاری جانوں میں جو لکھی نہ ہو ایک کتاب میں پہلے اس سے کہ پیدا کریں ہم اس کو دنیا میں بیشک یہ اللہ پر آسان ہے
خلاصہ تفسیر
کوئی مصیبت نہ دنیا میں آتی ہے اور نہ خاص تمہاری جانوں میں مگر وہ (سب) ایک کتاب میں (یعنی لوح محفوظ میں) لکھی ہیں قبل اس کے کہ ہم ان جانوں کو پیدا کریں (یعنی تمام مصیبتیں خارجی ہوں یا داخلی، وہ سب مقدر ہیں اور) یہ اللہ کے نزدیک آسان کام ہے (کہ واقع ہونے سے پہلے لکھ دیا کیونکہ اس کو علم غیب حاصل ہے اور ہم نے یہ بات اس واسطے بتلا دی ہے) تاکہ جو چیز تم سے جاتی رہے (تندرستی یا اولاد یا مال) تم اس پر (اتنا) رنج نہ کرو (جو حق تعالیٰ کی مرضی کے طلب کرنے اور آخرت کے امور میں مشغول ہونے میں رکاوٹ ہوجاوے اور طبعی تکلیف کا مضائقہ نہیں) اور تاکہ جو چیز تم کو عطا فرمائی ہے (اس کی نسبت بھی یہی سمجھ کر کہ خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت و فضل سے عطا فرمانا تجویز کردیا تھا اور اسی نے ہم کو دی ہے) اس پر اتراؤ نہیں (کیونکہ اتراوے تو وہ جس کا استحقاق ذاتی ہو اور جب دوسرے کی مشیت و حکم سے ایک چیز ملی ہے، اس پر اترانے کا کیا حق ہے) اور (آگے اس اترانے پر و عید ہے کہ) اللہ تعالیٰ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا (اختیال کا لفظ اکثر اندرونی فضائل پر اترانے کے لئے اور فخر اکثر خارجی اشیاء مال و مرتبہ وغیرہ پر اترانے کے لئے مستعمل ہوتا ہے، آگے بخل کی مذمت ہے کہ) جو ایسے ہیں کہ (دنیا کی محبت کی وجہ سے) خود بھی (خدا کے نزدیک پسندیدہ حقوق میں صرف کرنے سے) بخل کرتے ہیں (گو اپنی خواہشات و گناہوں میں کتنا ہی اسراف کریں) اور (اس گناہ کے مرتکب بھی ہوتے ہیں کہ) دوسرے لوگوں کو بھی بخل کی تعلیم کرتے ہیں (الذین الخ سے جو ترکیب میں بدل ہے یہ مقصود نہیں کہ وعید ان افعال کے مجموعہ کے ساتھ متعلق ہے، کیونکہ ظاہر ہے کہ ہر بری خصلت پر وعید ہے، بلکہ اشارہ اس طرف ہے کہ دنیا کی محبت ایسی ہے جس سے اکثر بری صفات جمع ہو ہی جاتی ہے، اختیال اور افتخار بھی اور بخل بھی وغیر ذالک) اور (یہی دنیا کی محبت کبھی حق سے رو گردانی کرنے تک پہنچا دیتی ہے، جس کے حق میں یہ وعید ہے کہ) جو شخص (دین حق سے جس کی ایک فرع انفاق فی سبیل اللہ بھی ہے) اعراض کرے گا تو اللہ تعالیٰ (کا کوئی نقصان نہیں، کیونکہ وہ سب کی عبادت اور اموال سے) بےنیاز ہیں (اور اپنی ذات وصفات میں کامل اور) سزاوار حمد ہیں۔

معارف و مسائل
دنیا کی دو چیزیں انسان کو اللہ کی یاد اور آخرت کی فکر سے غافل کرنے والی ہیں، ایک راحت و عیش جس میں مبتلا ہو کر انسان اللہ کو بھلا بیٹھتا ہے اس سے بچنے کی ہدایت سابقہ آیات میں آ چکی ہے دوسری چیز مصیبت و غم ہے، اس میں مبتلا ہو کر بھی بعض اوقات انسان مایوس اور خدا تعالیٰ کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے، آیات مذکورہ میں اس کا بیان ہے۔
(آیت) مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا، یعنی جو کوئی مصیبت تم کو زمین میں یا اپنی جانوں میں پہنچتی ہے وہ سب ہم نے کتاب یعنی لوح محفوظ میں مخلوقات کو پیدا کرنے سے بھی پہلے لکھ دیا تھا، زمین کی مصیبت سے مراد قحط، زلزلہ، کھیت اور باغ میں نقصان، تجارت میں گھاٹا، مال و دولت کا ضائع ہوجانا، دوست احباب کی موت سب داخل ہیں اور اپنی جانوں کی مصیبت میں ہر طرح کے امراض اور زخم اور چوٹ وغیرہ شامل ہیں۔
Top