Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 19
قُلْ اَیُّ شَیْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةً١ؕ قُلِ اللّٰهُ١ۙ۫ شَهِیْدٌۢ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ١۫ وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَ مَنْۢ بَلَغَ١ؕ اَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّٰهِ اٰلِهَةً اُخْرٰى١ؕ قُلْ لَّاۤ اَشْهَدُ١ۚ قُلْ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّ اِنَّنِیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَۘ
قُلْ : آپ کہ دیں اَيُّ : کونسی شَيْءٍ : چیز اَكْبَرُ : سب سے بڑی شَهَادَةً : گواہی قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ شَهِيْدٌ : گواہ بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنَكُمْ : اور تمہارے درمیان وَاُوْحِيَ : وحی کیا گیا اِلَيَّ : مجھ پر هٰذَا : یہ الْقُرْاٰنُ : قرآن لِاُنْذِرَكُمْ : تاکہ میں تمہیں ڈراؤں بِهٖ : اس سے وَمَنْ : اور جس بَلَغَ : وہ پہنچے اَئِنَّكُمْ : کیا تم بیشک لَتَشْهَدُوْنَ : تم گواہی دیتے ہو اَنَّ : کہ مَعَ : ساتھ اللّٰهِ : اللہ اٰلِهَةً : کوئی معبود اُخْرٰي : دوسرا قُلْ : آپ کہ دیں لَّآ اَشْهَدُ : میں گواہی نہیں دیتا قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّمَا : صرف هُوَ : وہ اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : یکتا وَّاِنَّنِيْ : اور بیشک میں بَرِيْٓءٌ : بیزار مِّمَّا : اس سے جو تُشْرِكُوْنَ : تم شرک کرتے ہو
تو پوچھ سب سے بڑا گواہ کون ہے کہہ دے اللہ گواہ ہے میرے اور تمہارے درمیان اور اترا ہے مجھ پر یہ قرآن تاکہ تم کو اس سے خبردار کردوں اور جس کو یہ پہنچے کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ معبود اور بھی ہیں تو کہہ دے میں گواہی نہ دوں گا کہہ دے وہی ہے معبود ایک اور میں بیزار ہوں تمہارے شرک سے
پانچویں آیت کا ایک خاص واقعہ نزول عامہ مفسرین نے نقل کیا ہے، کہ ایک مرتبہ اہل مکہ کا ایک وفد نبی کریم ﷺ کے پاس آیا، اور کہنے لگا کہ آپ جو رسول اللہ ﷺ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اس پر آپ کا گواہ کون ہے ؟ کیونکہ ہمیں کوئی آدمی ایسا نہیں ملا جو آپ کی تصدیق کرتا ہو، حالانکہ ہم نے یہود سے نصاریٰ سے اس کی تحقیق میں پوری کوشش کی۔
اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ قُلْ اَيُّ شَيْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةً یعنی آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ اللہ سے بڑھ کر کس کی شہادت ہوگی، جس کے قبضہ میں کل جہان اور سب کا نفع و ضرر ہے، پھر آپ کہہ دیجئے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے، اور اللہ تعالیٰ کی گواہی سے مراد وہ معجزات اور آیات بینات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے رسول برحق ہونے کے متعلق ظاہر فرمائی اسی لئے اس کے بعد اہل مکہ کو خطاب کرکے یہ ارشاد فرمایااَىِٕنَّكُمْ لَتَشْهَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّٰهِ اٰلِهَةً اُخْرٰي یعنی کیا اللہ تعالیٰ کی اس گواہی کے بعد بھی تم اس کے خلاف اس کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبود بھی ہیں، اگر ایسا ہے تو اپنے انجام کو تم سمجھو، میں تو ایسی گواہی نہیں دے سکتا، قُلْ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ، یعنی آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ یکتا معبود ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔
اور ارشاد فرمای آوَاُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ ، یعنی مجھ پر بطور وحی قرآن بھیجا گیا، تاکہ اس کے ذریعہ میں تم کو اللہ کے عذاب سے ڈراؤ ں، اور ان لوگوں کو ڈراؤں جن کو قیامت تک یہ قرآن پہنچے گا۔
حضرت سعید بن جبیر رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ جس شخص کو قرآن پہنچ گیا وہ ایسا ہوگیا جیسے اس نے محمد ﷺ کی زیارت کرلی، اور ایک حدیث میں ہے کہ جس شخص کو قرآن پہنچ گیا میں اس کا نذیر ہوں۔
اسی لئے رسول کریم ﷺ نے صحابہ کرام کو تاکید فرمائیبلغوا عنی ولو ایة، یعنی میرے احکام وتعلیمات لوگوں تک پہنچاؤ اگرچہ ایک ہی آیت ہو۔
اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ اور صحت مند رکھے جس نے میرا کوئی مقالہ سنا پھر اس کو یاد رکھا پھر اس کو امت تک پہنچا دیا، کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی خود کسی کلام کے مفہوم کو اتنا نہیں سمجھتا جتنا بعد میں آنے والا سمجھتا ہے جس کو یہ کلام اس نے پہنچایا ہے۔
Top