Maarif-ul-Quran - Al-Qalam : 4
وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ
وَاِنَّكَ : اور بیشک آپ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ : البتہ اخلاق کے بلند مرتبے پر ہیں
اور تو پیدا ہوا ہے بڑے خلق پر
(آیت) وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ ، اس میں رسول اللہ میں جو انسان کو عزت و شرف بخشتی ہیں مدی الدھر ان اللہ اقسم بالقلم کے اخلاق فاضلہ کاملہ میں غور کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے کہ دیوانو ذرا تو دیکھو کہیں مجنونوں دیوانوں کے ایسے اخلاق و اعمال ہوا کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کا خلق عظیم۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ خلق عظیم سے مراد دین عظیم ہے کہ اللہ کے نزدیک اس دین اسلام سے زیادہ کوئی محبوب دین نہیں۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ آپ کا خلق خود قرآن ہی یعنی قرآن کریم جن اعلیٰ اعمال و اخلاق کی تعلیم دیتا ہے آپ ان سب کا عملی نمونہ ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ خلق عظیم سے مراد آداب القرآن ہیں یعنی وہ آداب جو قرآن نے سکھائے ہیں۔ حاصل سب کا تقریباً ایک ہی ہے۔ رسول کریم ﷺ کے وجود باجود میں حق تعالیٰ نے تمام ہی اخلاق فاضلہ بدرجہ کمال جمع فرما دیئے تھے خود آنحضرت ﷺ نے فرمایا بعثت لاتمم مکارم الاخلاق یعنی مجھے اس کام کے لئے بھیجا گیا ہے کہ میں اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کروں (ابو حیان)
حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی اس پوری مدت میں جو کام میں نے کیا آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ ایسا کیوں کیا اور جو کام نہیں کیا اس پر کبھی یہ نہیں فرمایا کہ یہ کام کیوں نہیں کیا (حالانکہ یہ ظاہر ہے کہ دس سال کی مدت میں خدمت کرنے والے کے بہت سے کام خلاف طبع ہوئے ہوں گے) (بخاری و مسلم)
اور حضرت انس فرماتے ہیں کہ آپ کے مکارم اخلاق کا یہ حالت ھا کہ مدینہ کی کوئی لونڈی باندی بھی آپ کا ہاتھ پکڑ کر جہاں لیجانا چاہے لیجا سکتی تھی (رواہ البخاری)
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی اپنے ہاتھ سے کسیک و نہیں مارا بجز جہاد فی سبیل اللہ کے کہ اس میں کفار کو مارنا اور قتل کرنا ثابت ہے ورنہ آپ نے نہ کسی خادم کو نہ کسی عورت کو کبھی مارا، ان میں سے کسی سے خطا و لغزش بھی ہوئی تو اس کا انتقام نہیں لیا بجز اس کے کہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہوت و اس پر شرعی سزا جاری فرمائی (رواہ مسلم)
حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے کبھی کسی چیز کا سوال نہیں کیا گیا جس کے جواب میں آپ نے نہیں فرمایا ہوصبخاری و مسلم)
اور حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فحش گو تھے نہ فحش کے پاس جاتے تھے نہ بازاروں میں شور و شغب کرتے تھے برائی کا بدلہ کبھی برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ معافی اور درگزر کا معاملہ فرماتے تھے اور حضرت ابوالدردا فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میزان عمل میں خلق حسن کی برابر کسی عمل کا وزن نہیں ہوگا، اور اللہ تعالیٰ گالی گلوچ کرنے والے بدزبان سے بغض رکھتے ہیں (رواہ الترمذی وقال حیدث حسن صحیح)
اور ضحرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان اپنے حس خلق کی بدولت اس شخص کا درجہ حاصل کرلیتا ہے جو ہمیشہ رات کو عبادت میں جاگتا اور دن بھر روزہ رکھتا ہو (رواہ ابوداؤد)
اور حضرت معاذ نے فرمایا کہ مجھے یمن کا عامل مقرر کر کے بھیجنے کے وقت) آخری وصیت جو آپ نے مجھے اس وقت فرمائی جبکہ میں اپنا ایک پاؤں رکاب میں رکھ چکا تھا وہ یہ تھی یامعاذ احسن خلقک للناس۔ اے معاذ لوگوں سے حسن خلق کا برتاؤ کرو۔ رواہ مالک) یہ سب روایات حدیث تفسیر مظہری سے نقل کی گئی ہیں۔
Top