Mutaliya-e-Quran - Al-Qalam : 4
وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ
وَاِنَّكَ : اور بیشک آپ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ : البتہ اخلاق کے بلند مرتبے پر ہیں
اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو
[وَاِنَّكَ : اور بیشک آپ ][ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ : یقینا عظیم اخلاقیات پر ہیں ] نوٹ۔ 1: رسول کریم ﷺ کے وجود میں حق تعالیٰ نے تمام ہی اخلاق فاضلہ بدرجۂ کمال جمع فرما دیئے تھے۔ خود آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس کام کے لیے بھیجا گیا ہے کہ میں اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کروں۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی اس پوری مدت میں جو کام میں نے کیا، آپ ﷺ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ ایسا کیوں کیا اور جو کام نہیں کیا اس پر کبھی یہ نہیں فرمایا کہ یہ کام کیوں نہیں کیا۔ بی بی عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا بجز جہاد فی سبیل اللہ کے۔ ورنہ آپ نے نہ کسی خادم کو، نہ کسی عورت کو کبھی نہیں مارا۔ ان میں سے کسی سے خطا و لغزش بھی ہوئی تو اس کا انتقام نہیں لیا بجز اس کے کہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کو ہو تو شرعی سزا جاری فرمائی۔ آپ نہ فحش گو تھے نہ فحش کے پاس جاتے تھے، نہ بازار میں شوروشغب کرتے تھے۔ برائی کا بدلہ کبھی برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ معافی اور درگزر کا معاملہ فرماتے تھے۔ اور حضرت ابودرداء فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میزانِ عمل میں خلق حسن کے برابر کسی عمل کا وزن نہیں ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ گالی گلوچ کرنے والے بدزبان سے بغض رکھتے ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان اپنے حسن خلق کی بدولت اس شخص کا درجہ حاصل کرلیتا ہے جو ہمیشہ رات کو عبادت میں جاگتا اور دن بھر روزہ رکھتا ہو۔ اور حضرت معاذ نے فرمایا کہ مجھے یمن کا عامل (گورنر) مقرر کر کے بھیجنے کے وقت آخری وصیت جو آپ نے مجھے اس وقت فرمائی جبکہ میں اپنا ایک پائوں رکاب میں رکھ چکا تھا، وہ یہ تھی کہ اے معاذ لوگوں سے حسن خلق کا برتائو کرنا۔ (معارف القرآن)
Top