Al-Qurtubi - Al-Qalam : 4
وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ
وَاِنَّكَ : اور بیشک آپ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ : البتہ اخلاق کے بلند مرتبے پر ہیں
اور تمہارے اخلاق بہت (عالی) ہیں
اس میں دو مسئلہ ہیں : وانک تعلی خلق عظیم۔ ” بیشک آپ عظیم الشان خلق کے مالک ہیں۔ “ اس میں دو مسئلے ہیں : خلق سے مراد مسئلہ نمبر 1۔ وانک لعلی خلق عظیم۔ حضرت ابن عباس اور مجاہد نے کہا : علق خلق سے مراد ہے دنیوں میں سے عظیم دین پر۔ اللہ تعالیٰ کو اس دین سے بڑھ کر کوئی دین محبوب اور پسندیدہ نہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت مروی ہے : آپ کا خلق قرآن ہے (1) حضرت علی شیر خدا اور عطیہ نے کہا، اس سے مراد ادب قرآن ہے (2) ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد آپ ﷺ کا اپنی امت کے لئے نرم دل ہونا اور ان کو اکرام سے نوازنا ہے۔ قتادہ نے کہا : مراد ہے اللہ تعالیٰ جس کا حکم دے اس کو بجا لانا ہے اور جس سے اللہ تعالیٰ منع کرتا ہے اس سے رک جانا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : آپ ﷺ طبع کریم پر ہیں۔ ماوردی نے کہا، یہی معنی ظاہر ہے (و) لغت میں خلق کا حقیقی معنی یہ ہو مایا خذبہ الانسان نفسہ من الادب انسان اپن ینفس کے لئے جو ادب اپناتا ہے اسے خلقک ہتے ہیں کیونکہ یہ چیز اس میں خلقت کی طرح ہوجاتی ہے۔ جس ادب پر اسے پیدا کیا جاتا ہے اسے خیم کہتے ہیں جس کا معنی سجیۃ اور طبیعۃ ہے۔ لفظوں میں اس کا کوئی واحد نہیں۔ خیم پہاڑ کا نام ہے۔ خلق ایسی فطرت ہے جس میں تکلف ہو اور خیم ایسی فطرت ہے جو پیدائشی ہو۔ اعشی نے اسے اپنے شعر میں واضح کیا ہے : واذا ذو الفضول ضن علی المو لی و عادت لخیمھا الاخلاق جب مالدار غلام پر بخل کرنے لگیں تو اخلقا اپنی طبع کی طرف لوٹ آئے۔ میں کہتا ہوں : میں نے حضرت عائشہ صدیقہ کا جو قول، ذکر کیا ہے جو صحیح مسلم میں موجود ہے وہ تمام اقوال سے اصح ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ سے آپ ﷺ کے بارے میں پوچھا گیا تو حضرت عائشہ صدیقہ نے قد افلح المومنون۔ سے دس آیات کو پڑھا۔ فرمایا : رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر اخلاق میں کوئی اچھا نہ تھا۔ آپ ﷺ کے صحابہ اور گھر والوں میں سے کسی نے آپ ﷺ کو نہ بلایا مگر آپ ﷺ نے جواب میں کا، لبیک۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وانک لعلی خلق عظیم۔ کوئی خلق محمود ذکر نہیں کیا گیا مگر نبی کریم ﷺ کا اس میں وافر حصہ ہوتا۔ جنید بغدادی نے کہا، آپ ﷺ کے خلق کو عظیم کہا گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا یہ کہنے کی کسی کی ہمت نہ تھی۔ ایک قول یہ کیا یا ہے : آپ ﷺ کے خلق کو عظیم نام دیا گیا کیونکہ آپ ﷺ میں مکارم اخلاق جمع ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ادب سکھایا، اس کی آپ ﷺ نے اطاعت کی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : خد العفو وامربالعرف و اعرض عن الجھلین۔ (الاعراف) نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” مجھے میرے رب نے اچھا ادب سکھایا کیونکہ ارشاد فرمایا : خذالعفو وا مر بالعرف و اعرض عن الجھلین۔ (الاعراف) جب میں نے اسے قبول کرلیا تو فرمایا، وانک لعلی خلق عظیم۔۔ “ خلق سے مراد اخلاق ہے مسئلہ نمبر 2۔ امام ترمذی نے حضرت ابوذر کے واسطہ سے نبی کریم ﷺ سے راویت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اتق اللہ حیثما کنت و اتبع السیئۃ الحسنۃ تمحھا وخلاق النا بخلق حسن جہاں کہیں ہو اللہ سے ڈرو، برائی کے بعد اچھائی کرو جو برائی کو مٹا دے اور لوگوں کے ساتھ خلق حسن کے ساتھ معاملہ کرو (1) حضرت ابوب وردا سے مروی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” قیامت کے روز مومن کے میزان میں اچھے اخلاق سے بڑھ کر کوئی وزنی چیز نہ ہوگی، بیشک اللہ تعالیٰ فحش یا وہ گوئی کرنے والے کو ناپسند کرتا ہے (2) کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : ما من شیء یو ضع فی المیزان اثقل من حسن الخلق وان صاحب حسن الخلق لیبلغ بہ درجۃ صاحب الصلاۃ والصوم جو چیز میزان میں رکھی جاتی ہے حسن خلق سے بڑھ کر کوئی وزنی چیز نہ ہوگ ی۔ اچھے اخلاق والا نماز پڑھنے والے اور روزہ رکھنے والے کے درجہ تک جا پہنچتا ہے۔ کہا، حیدث غریب ہے، اسی سند سے مروی ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : سب سے زیادہ کونسی چیز لوگوں کو جنت میں داخل کرے گی ؟ فرمایا :” اللہ سے تقویٰ اور حسن خلوق “ (3) پوچھا گیا : کو سنی چیز سب سے زیادہ لوگوں کو جہنم میں داخل کرے گی ؟ فرمایا :” منہ اور شرمگاہ “ کہا : یہ حدیث صحیح غریب ہے۔ حضرت عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے : آپ نے حسن خلق کے بارے میں فرمایا : ترش روئی نہ کرنا، نیکی کرنا اور اذیت کو دور کرنا (4) حضرت جابر سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” قیامت کے روز مجھے سب سے محبوب اور میرے سب سے قریب وہ ہوگا جو تم میں سے اخلاق میں سب سے اچھا ہوگا “ (5) فرمایا : ’ قیامت کے روز تم میں سے سب سے زیادہ مبغوض اور مجلس میں سب سے دور وہ ہوگا جو ثرث اورن (زیادہ باتیں کرنے والے) متشدقون (زبان دراز) اور متفیھقون ہیں۔ “ (صحابہ نے عرض کی : ہم ثرثا رون اور متشدقون کو تو جانتے ہیں، یہ متفیھقون کون ہیں ڈ فرمایا :” متکبر “۔ اس بارے میں حضرت ابوہریرہ سے ریات مروی ہے۔ کہا : یہ حدیث حسن غریب ہے۔
Top