Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 137
وَ اَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ كَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَهَا الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا١ؕ وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ١ۙ۬ بِمَا صَبَرُوْا١ؕ وَ دَمَّرْنَا مَا كَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَ قَوْمُهٗ وَ مَا كَانُوْا یَعْرِشُوْنَ
وَاَوْرَثْنَا
: اور ہم نے وارث کیا
الْقَوْمَ
: قوم
الَّذِيْنَ
: وہ جو
كَانُوْا
: تھے
يُسْتَضْعَفُوْنَ
: کمزور سمجھے جاتے
مَشَارِقَ
: مشرق (جمع)
الْاَرْضِ
: زمین
وَمَغَارِبَهَا
: اور اس کے مغرب (جمع)
الَّتِيْ
: وہ جس
بٰرَكْنَا
: ہم نے برکت رکھی
فِيْهَا
: اس میں
وَتَمَّتْ
: اور پورا ہوگیا
كَلِمَتُ
: وعدہ
رَبِّكَ
: تیرا رب
الْحُسْنٰى
: اچھا
عَلٰي
: پر
بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ
: بنی اسرائیل
بِمَا
: بدلے میں
صَبَرُوْا
: انہوں نے صبر کیا
وَدَمَّرْنَا
: اور ہم نے برباد کردیا
مَا
: جو
كَانَ يَصْنَعُ
: بناتے تھے (بنایا تھا)
فِرْعَوْنُ
: فرعون
وَقَوْمُهٗ
: اور اس کی قوم
وَمَا
: اور جو
كَانُوْا يَعْرِشُوْنَ
: وہ اونچا پھیلاتے تھے
اور وارث کردیا ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور سمجھے جاتے تھے، اس زمین کے مشرق اور مغرب کا کہ جس میں برکت رکھی ہے ہم نے اور پورا ہوگیا نیکی کا وعدہ تیرے رب کا بنی اسرائیل پر، بسبب ان کے صبر کرنے کے، اور خراب کردیا ہم نے جو کچھ بنایا تھا فرعون اور اس کی قوم نے اور جو اونچا کر کے چھایا تھا،
خلاصہ تفسیر
اور (فرعون اور اہل فرعون کو غرق کرکے) ہم نے ان لوگوں کو جو کہ بالکل کمزور شمار کیے جاتے تھے (یعنی بنی اسرائیل) اس سرزمین کے پورب پچھم (یعنی تمام حدود) کا مالک بنادیا جس میں ہم نے برکت رکھی ہے (ظاہری برکت کثرت پیداوار سے اور باطنی برکت ذی فضائل و مدفن ومسکن انبیاء (علیہم السلام) ہونے سے) اور آپ رب کا اچھا وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر کی وجہ سے پورا ہوگیا (جس کا حکم انہیں دیا گیا تھا اصبِرُوْا) اور ہم نے فرعون اور اس کی قوم کے ساختہ پر داختہ کارخانوں کو اور جو کچھ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنواتے تھے سب کو درہم برہم کردیا اور (جس دریا میں فرعون کو غرق کیا گیا) ہم نے بنی اسرائیل کو (اس دریا سے پار اتار دیا (جس کا قصہ سورة شعراء میں ہے) پھر (پار ہونے کے بعد) ان لوگوں کا ایک قوم پر گزر ہوا جو اپنے چند بتوں کو لگے بیٹھے تھے (یعنی ان کی پوجا پاٹ کر رہے تھے) کہنے لگے اے موسیٰ ہمارے لئے بھی ایک (مجسم) معبود ایسا ہی مقرر کر دیجئے جیسے ان کے یہ معبود ہیں، آپ نے فرمایا واقعی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے، یہ لوگ جس کام میں لگے ہیں (یہ من جانب اللہ بھی) تباہ کیا جائے گا (جیسا کہ عادة اللہ ہمیشہ سے جاری ہے کہ حق کو باطل پر غالب کر کے اس کو درہم برہم کردیتے ہیں) اور ان کا یہ کام محض بےبنیاد ہے (کیونکہ شرک کا بطلان یقینی وبدیہی ہے) اور) فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو تمہارا معبود بنادوں حالانکہ اس نے تم کو (بعض نعمتوں میں) تمام دنیا جہاں والوں پر فوقیت دی ہے اور (اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کے قول کی تائید کے لئے ارشاد فرمایا کہ) وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم کو فرعون والوں (کے ظلم و ایذاء) سے بچالیا جو تم کو بڑی سخت تکلیفیں پہنچاتے تھے کہ تمہارے بیٹوں کو بکثرت قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو (اپنی بیگار اور خدمت کے لئے) زندہ چھوڑ دیتے تھے اور اس (واقعہ) میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی بھاری آزائش تھی۔
معارف و مسائل
پچھلی آیات میں قوم فرعون کی مسلسل سرکشی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف عذابوں کے ذریعہ ان کی تنبیہات کا بیان تھا، مذکورہ آیات میں ان کے انجام بد اور بنی اسرائیل کی فتح و کامرانی کا ذکر ہے۔ پہلی آیت میں ارشاد ہے وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ كَانُوْا يُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا، یعنی جس قوم کو کمزور ضعیف سمجھا جاتا تھا ان کو ہم نے اس زمین کے مشرق ومغرب کا مالک بنادیا جس میں ہم نے برکات رکھی ہیں۔ الفاظ قرآن میں غور کیجئے، یہ نہیں فرمایا کہ جو قوم ضعیف و کمزور تھی بلکہ یہ فرمایا کہ جس کو قوم فرعون نے ضعیف و کمزور سمجھا تھا، اشارہ اس کی طرف ہے اللہ تعالیٰ جس قوم کی مدد پر ہوں وہ حقیقت میں کبھی کمزور و ذلیل نہیں ہوتی گو کسی وقت اس کے ظاہر حال سے دوسرے لوگ دھوکہ کھائیں اور ان کو کمزور سمجھیں مگر انجام کار پر سب کو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کمزور و ذلیل نہ تھے، کیونکہ در حقیقت قوت وعزت حق تعالیٰ شانہ کے قبضہ میں ہے، وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۔
اور زمین مالک بنانے کے لئے لفظ اَوْرَثْنَا ارشاد فرمایا کہ ہم نے ان کو وارث بنادیا، اس میں اشارہ اس کی طرف ہے کہ جس طرح وارث ہی اپنے مورث کے مال کا مستحق ہوتا ہے، باپ کی حیات ہی میں ہر شخص یہ جان لیتا ہے کہ اس کے مال و جائیداد کی مالک آخر کار اس کی اولاد ہے، اسی طرح علم الہی میں بنی اسرائیل پہلے ہی سے قوم فرعون کے ملک ومال کے مستحق تھے۔
مَشَارِقَ مشرق کی جمع ہے اور مَغَارِبَ مغرب کی، سردی گرمی کے مختلف موسموں میں مغرب سے مشرق کے بدلنے کی وجہ سے جمع کا لفظ لایا گیا، اور زمین سے مراد اس جگہ جمہور مفسرین کے قول کے مطابق ملک شام اور مصر کی سرزمین ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو قوم فرعون اور قوم عمالقہ کے ہلاک ہونے کے بعد قبضہ اور حکومت عطا فرمائی۔
اور الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا سے یہ بتلا دیا کہ ان زمینوں میں اللہ تعالیٰ نے خصوصیت سے اپنی برکات نازل فرمائی ہیں، ملک شام کے بارے میں تو قرآن کریم کی متعدد آیات میں محل برکات ہونے کا ذکر ہے الَّتِيْ بٰرَكْنَا حَولَھَا میں اسی کا بیان ہے، اسی طرح ارض مصر کے بارے میں بھی محل برکات وثمرات ہونا متعدد روایات سے نیز مشاہدات سے ثابت ہے، حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا کہ مصر کا دریائے نیل سید الانہار یعنی دریاؤں کا سردار ہے، اور حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ برکات کے دس حصوں میں سے نو مصر میں ہیں اور باقی ایک پوری زمین میں (بحر محیط)
خلاصہ یہ ہے کہ جس قوم کو غرور و پندار کے نشہ والوں نے اپنی کوتاہ نظری سے ذلیل و کمزور سمجھ رکھا تھا، ہم نے اسی کو ان متکبرین کی دولت و سلطنت اور ملک ومال کا مالک بنا کر دکھلا دیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کا وعدہ سچا ہوتا ہے، ارشاد فرمایا وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ یعنی آپ کے رب کا اچھا وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں پورا ہوگیا۔
اس اچھے وعدے سے مراد یا تو وہ وعدہ ہے جو موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے کیا تھا، عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ یعنی قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور ان کی زمین کا تمہیں مالک بنا دے۔
اور یا وہ وعدہ ہے جو قرآن کریم میں دوسری جگہ خود حق تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے بارے میں فرمایا ہےوَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ اَىِٕمَّةً وَّنَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِيْنَ۔ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْاَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوْدَهُمَا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَحْذَرُوْنَ ، یعنی ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس قوم پر احسان کریں جن کو اس ملک میں کمزور و ذلیل سمجھا گیا ہے، اور ان کو ہی سردار اور حکام بنادیں اور ان کو ہی اس زمین کا وارث قرار دیں اور اس زمین پر تصرفات کرنے کا حق دیں اور فرعون وہامان اور ان کے لشکروں کو وہ چیز واقع کرکے دکھلا دیں جس کے ڈر سے وہ موسیٰ ؑ کے خلاف طرح طرح کی تدبیریں کر رہے ہیں۔
اور حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں وعدے ایک ہی ہیں، اللہ تعالیٰ کے وعدے ہی کی بناء پر موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا، اس آیت میں اس وعدہ کا پورا ہونا لفظ تمت سے بیان کیا گیا۔ کیونکہ وعدہ کا اتمام و تکمیل اسی وقت ہوتی ہے جب وہ پورا ہوجائے۔
اس کے ساتھ ہی بنی اسرائیل پر اس انعام و احسان کی وجہ بیان فرمادی بِمَا صَبَرُوْا یعنی اس وجہ سے کہ ان لوگوں نے اللہ کے راستہ میں تکلیفیں برداشت کیں اور ان پر ثابت قدم رہے اس میں اشارہ کردیا کہ ہمارا یہ احسان و انعام کچھ بنی اسرائیل ہی کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ ان کے عمل صبر وثابت قدمی کا نتیجہ تھا جو شخص یا جو قوم اس عمل کو اختیار کرے ہمارا انعام ہر جگہ ہر وقت اس کے لئے موجد ہے۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
حضرت موسیٰ ؑ نے جب نصرت الہی کا وعدہ اپنی قوم سے کیا تھا اس وقت بھی انہوں نے قوم کو یہی بتلایا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا اور مصائب وآفات کا ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہی کلید کامیابی ہے۔
حسن بصری ؒ نے فرمایا کہ اس آیت میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ جب انسان کا مقابلہ کسی ایسے شخص یا جماعت سے ہو جس کا دفاع کرنا اس کی قدرت میں نہ ہو تو ایسے وقت کامیابی اور فلاح کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ مقابلہ نہ کرے بلکہ صبر کرے، انہوں نے فرمایا کہ جب کوئی آدمی کسی کی ایذاء کا مقابلہ اس کی ایذاء سے کرتا ہے یعنی اپنا انتقام خود لینے کی فکر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اسی کے حوالے کردیتے ہیں کامیاب ہو یا ناکام، اور جب کوئی شخص لوگوں کی ایذاء کا مقابلہ صبر اور نصرت الہی کے انتظار سے کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ خود اس کے لئے راستے کھول دیتے ہیں۔
اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے صبر وثابت قدمی پر یہ وعدہ فرمایا تھا کہ ان کو دشمن پر فتح اور زمین پر حکومت عطا کریں گے اسی طرح امت محمدیہ سے بھی وعدہ فرمایا ہے جو سورة نور میں مذکور ہے، وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ ، اور جس طرح بنی اسرائیل نے وعدہ خداوندی کا مشاہدہ کرلیا تھا، امت محمدیہ نے ان سے زیادہ واضح طور پر اللہ تعالیٰ کی مدد کا مشاہدہ کیا کہ پوری زمین پر ان کی حکومت و سلطنت عام ہوگئی (روح البیان)
یہاں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ بنی اسرائیل نے تو صبر سے کام نہیں لیا، بلکہ جب موسیٰ ؑ نے صبر کی تلقین فرمائی تو خفا ہو کر کہنے لگے اوذینَا، وجہ یہ ہے کہ اول تو ان کا صبر بمقابلہ فرعونی ایذاؤں کے اور ایمان پر ثابت قدم رہنا مسلسل ثابت ہے اگر ایک دفعہ لفظ شکایت نکل بھی گیا تو اس پر نظر نہیں کی گئی، دوسرے یہ بھی ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ قول بطور شکایت نہ ہو بلکہ بطور اظہار رنج وغم کے ہو۔
آیت متذکرہ میں اس کے بعد فرمایا وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهٗ وَمَا كَانُوْا يَعْرِشُوْنَ ، یعنی ہم نے تباہ و برباد کردیا ان سب چیزوں کو جو فرعون اور اس کی قوم بنایا کرتی تھی اور ان عمارتوں یا درختوں کو جن کو وہ بلند کیا کرتی تھی۔
فرعون اور قوم فرعون کی بنائی ہوئی چیزوں میں ان کے مکانات وعمارات اور گھریلو ضرورت کے سامان، نیز وہ مختلف قسم کی تدبیریں جو وہ موسیٰ ؑ کے مقابلہ کے لئے کرتے تھے سب داخل ہیں، اور وَمَا كَانُوْا يَعْرِشُوْنَ ، یعنی جس کو وہ بلند کرتے تھے، اس میں بلند محلات ومکانات بھی داخل ہیں اور بلند درخت اور وہ انگور کی بیلیں بھی جن کو چھتوں پر چڑھایا جاتا ہے۔
یہاں تک قوم فرعون کی تباہی کا ذکر تھا، آگے بنی اسرائیل کی فتح و کامرانی کے بعد ان کی سرکشی اور جہالت اور کجروی کا بیان شروع ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی بیشمار نعمتوں کے مشاہدہ کے باوجود ان لوگوں سے سرزد سوئی، جس کا مقصد رسول اللہ ﷺ کو تسلی دینا ہے کہ پچھلے انبیاء نے اپنی امت کے ہاتھوں کیسی کیسی تکلیفیں اٹھائی ہیں، ان کو سامنے رکھنے سے موجود سرکشوں کی ایذاء ہلکی ہوجائے گی۔
Top