Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 137
وَ اَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ كَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَهَا الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا١ؕ وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ١ۙ۬ بِمَا صَبَرُوْا١ؕ وَ دَمَّرْنَا مَا كَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَ قَوْمُهٗ وَ مَا كَانُوْا یَعْرِشُوْنَ
وَاَوْرَثْنَا : اور ہم نے وارث کیا الْقَوْمَ : قوم الَّذِيْنَ : وہ جو كَانُوْا : تھے يُسْتَضْعَفُوْنَ : کمزور سمجھے جاتے مَشَارِقَ : مشرق (جمع) الْاَرْضِ : زمین وَمَغَارِبَهَا : اور اس کے مغرب (جمع) الَّتِيْ : وہ جس بٰرَكْنَا : ہم نے برکت رکھی فِيْهَا : اس میں وَتَمَّتْ : اور پورا ہوگیا كَلِمَتُ : وعدہ رَبِّكَ : تیرا رب الْحُسْنٰى : اچھا عَلٰي : پر بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل بِمَا : بدلے میں صَبَرُوْا : انہوں نے صبر کیا وَدَمَّرْنَا : اور ہم نے برباد کردیا مَا : جو كَانَ يَصْنَعُ : بناتے تھے (بنایا تھا) فِرْعَوْنُ : فرعون وَقَوْمُهٗ : اور اس کی قوم وَمَا : اور جو كَانُوْا يَعْرِشُوْنَ : وہ اونچا پھیلاتے تھے
اور ہم نے وارث بنادیا ان لوگوں کو جنہیں دبا کر رکھا گیا تھا، اس زمین کے مشرق ومغرب کا جس کو ہم نے مالا مال کر رکھا تھا طرح طرح کی برکتوں سے، اور (اس طرح) پورا ہو کر رہا تمہارے رب کا وہ عمدہ وعدہ جو بنی اسرائیل کے حق میں تھا،3 اس بناء پر کہ انہوں نے صبر (واستقامت) سے کام لیا تھا،4 اور تہس نہس کر کے رکھ دیا، ہم نے اس سب کو جو بناتا تھا فرعون اور اس کی قوم، اور ملیامیٹ کردیا ہم نے ان اونچی عمارتوں کو جو تعمیر کرتے رہے تھے وہ لوگ،5
171 مظلوموں کی مدد اللہ ہی کرتا ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے ان کمزوروں اور مظلوموں کو اس مبارک سرزمین کا وارث بنادیا جن کو دبا کر رکھا گیا تھا۔ یعنی بنی اسرائیل کو جو کہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی اور فرعونی مظالم کی چکی میں پسی ہوئی ایک مظلوم اور دبی ہوئی قوم تھی۔ سو اس کو ہم نے آزادی کی نعمت سے نواز کر زمین کا وارث بنایا۔ سو زمین و آسمان کی اس کائنات کی زمام اقتدار اللہ وحدہ لاشریک ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جس کو چاہے اور جیسا اور جب چاہے عطاء فرمائے۔ سب کا حاجت روا و مشکل کشا وہی اور سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ سو وہی قوم جو غلامی اور محکومی کی زنجیروں میں بری طرح سے جکڑی ہوئی تھی، اللہ تعالیٰ نے اس کو حریت و آزادی کی نعمت سے نواز کر فلسطین کی ارض مبارکہ کی مشرقوں اور مغربوں کا وارث بنادیا۔ سو اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے اور اس کا کوئی بھی حکم وارشاد حکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔ سبحانہ وتعالیٰ - 172 ارض مبارکہ سے مقصود و مراد ؟ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے ان لوگوں کو اس مبارک و مقدس سرزمین کا وارث بنادیا اور اس کے مشارق و مغارب کو ان کے کنٹرول میں دے دیا جس کو ہم نے طرح طرح کی برکتوں سے مالا مال کر رکھا تھا اور مراد اس سے شام و فلسطین کی سرزمین ہے جو کہ ہر طرح کی برکتوں سے مالا مال ہے۔ ظاہری اور مادی برکتوں سے بھی کہ یہ سرزمین بڑی خوب صورت اور زرخیر ہے۔ اور اتنی کہ یہ دودھ و شہد کی سرزمین کہلاتی ہے۔ اور معنوی و روحانی برکتوں سے بھی کہ انبیائے کرام کی اکثریت کی بعثت و تشریف آوری بھی اسی سرزمین میں ہوئی۔ سو مراد اس ارض مبارک سے ارض شام و فلسطین ہے جس میں یہ دونوں قسم کی برکتیں ہمیشہ رہی ہیں۔ اور قرآن حکیم میں ارض مبارکہ اور ارض مقدسہ کا مصداق بالعموم یہی سرزمین ہوتی ہے۔ 173 صبر و استقامت ذریعہ ظفر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس طرح پورا ہو کر رہا تمہارے رب کا وہ وعدہ جو اس نے بنی اسرائیل کے حق میں فرما رکھا تھا اس بنا پر کہ انہوں نے صبر و استقامت سے کام لیا۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ صبر و برداشت اور استقلال و استقامت کو کامیابی اور فائزالمرامی کے حصول میں بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ فَاِیَّاکَ نَسْاَلُ اللّٰہُمَّ الثَّبَاتَ وَالاِسْتَقَامَۃَ عَلٰی صِرَاطِکَ الْمُسْتَقِیْمَ فِیْ کُلِّ مَوْطنٍ مِّنَ الْمَوَاطِنِ وَ بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الأحْوَالِ ۔ سو صبر و استقامت وسیلہ ظفر ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ تمہارے رب کا وہ عمدہ وعدہ بالآخر پورا ہو کر رہا جو اس نے بنی اسرائیل سے فرما رکھا تھا۔ اور اس سے اشارہ اس وعدے کی طرف ہے جس کا ذکر اس سے پہلے آیت نمبر 128 اور آیت نمبر 129 میں ہوچکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے آباؤ اَجداد سے کیا تھا اور جس کی تجدید آخر میں اس نے اپنے جلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ کے ذریعے فرمائی، سو آخر کار وہ وعدہ پورا ہو کر رہا اور بنی اسرائیل کی اس گھسی پٹی، مظلوم و مقہور اور غلامی و محکومی کی زنجیروں میں بندھی جکڑی قوم کو اس ارض مبارکہ کا وارث بنادیا گیا۔ اور یہ سب اس بناء پر ہوا کہ بنی اسرائیل نے صبر و استقلال سے کام لیا۔ سو صبر و استقامت ذریعہ ظفر ہے ۔ والحمد للہ - 174 مادی ترقی ہی کو اصل چیز سمجھ لینا تباہی کی راہ ہے ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے تباہ کر کے رکھ دیا ان کی بلند وبالا عمارتوں کو جو وہ بنایا کرتے تھے اپنی دنیاوی عیش و عشرت کیلئے اور اپنی مادی ترقی کے زعم و گھمنڈ میں۔ وہ سمجھتے کہ یہی سب کچھ ہے۔ مگر وہ ان کے کچھ بھی کام نہ آسکا۔ سو وہ بلند وبالا عمارتیں اور بڑے بڑے محل اور کارخانے جو وہ لوگ بنایا کرتے تھے اور وہ عظیم الشان باغات جو وہ ٹٹیوں پر چڑھایا کرتے تھے، ان سب کو یکسر تہس نہس اور درہم برہم کرکے رکھ دیا گیا۔ سو تمہارے رب کی پکڑ ایسے ہی ہوتی ہے جبکہ وہ ظالم بستیوں کو پکڑنے پر آتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے { وَکَذَالِکَ اَخْذُ رَبّکَ اِذَا اَخَذَ الْقُرٰی وَھِیَ ظَالِمَۃٌ، اِنَّ اَخْذۃٗ اَلِیْمٌ شدِیدٌ } (ھود : 103) ۔ سو مادی ترقی ہی کو اصل چیز سمجھ لینا ہلاکت و تباہی اور خرابی کی جڑ بنیاد ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو جس مادی ترقی اور دنیاوی مال و متاع پر فرعون اور اس کی قوم کو بڑا فخر و ناز تھا۔ اور جس کی بناء پر اس نے تکبر و غرور میں مبتلا ہو کر راہ حق و ہدایت سے انحراف برتا اور { اَنَا رَبُّکُمْ الْاَعْلٰی } کا نعرہ لگا دیا۔ اس کے نتیجے میں آخرکار وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے فی النار والسقر ہوگیا۔ اور یہ سب کچھ یہیں چھوڑ کر اس کو یکہ و تنہا دنیا سے کوچ کرنا پڑا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا { کَمْ تَرَکُوْا مِنْ جَنَّاتٍ وَّعُیُوْنٍ وَّ زُرُوْعٍ وَّمَقَامٍ کَرِیْمٍ وَنِعْمَۃٍ کَانُوْا فِیْہَا فٰکِھِیْنَ } (الدخان : 25-27) ۔ سو اس میں بڑا سامان عبرت و بصیرت ہے ہر اس شخص کے لئے جو نصیحت پکڑنا چاہے۔ اور یہ درس ہے کہ اصل چیز مادی ترقی نہیں بلکہ روحانی اور باطنی ترقی ہے ۔ وباللہ التوفیق -
Top