Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 190
فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَآءَ فِیْمَاۤ اٰتٰىهُمَا١ۚ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اٰتٰىهُمَا : اس نے دیا انہیں صَالِحًا : صالح بچہ جَعَلَا : ان دونوں نے ٹھہرائے لَهٗ : اس کے شُرَكَآءَ : شریک فِيْمَآ : اس میں جو اٰتٰىهُمَا : انہیں دیا فَتَعٰلَى : سو برتر اللّٰهُ : اللہ عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
پھر جب ان کو دیا چنگا بھلا تو بنانے لگے اس کے لئے شریک اس کی بخشی ہوئی چیز میں، سو اللہ برتر ہے ان کے شریک بنانے سے
تیسری آیت کے آخر میں ان لوگوں کی بےراہی اور کجروی کو واضح کرنے کیلئے فرمایا (آیت) فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ، یعنی پاک ہے اللہ تعالیٰ اس شرک سے جس کو ان لوگوں نے اختیار کیا۔
آیات مذکورہ کی اس تفسیر سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس آیت کے پہلے جملہ میں حضرت آدم و حواء کا ذکر کرکے اولاد آدم کو ان کے اتباع اور شکر گزری کی تعلیم دی گئی ہے، اور آخری جملوں میں بعد کی آنے والی اولاد آدم کی گمراہی اور کجروی کا بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے بجائے شکر گزاری کے شرک کو اختیار کرلیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ شرک اختیار کرنے والوں کے معاملہ کا تعلق حضرت آدم و حواء سے مطلق نہیں جس کے سبب حضرت آدم ؑ کی عصمت پر کوئی شبہ ہو، بلکہ اس کا تعلق بعد کی آنے والی نسلوں کے عمل سے ہے، اور یہ تفسیر جو ہم نے اخیتار کی ہے تفسیر درمنثور میں بروایت ابن المنذر و ابن ابی حاتم مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے۔
ترمذی اور حاکم کی روایات میں جو ایک قصہ حضرت آدم و حواء (علیہما السلام) کا اور شیطان کے فریب دینے کا مذکور ہے اس کو بعض نے اسرائیلی روایات قرار دے کر ناقابل اعتماد بتلایا ہے لیکن بہت سے محدثین نے اس کی توثیق بھی کی ہے، متذکرہ تفسیر پر اگر اس قصہ کی روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی آیت کی تفسیر میں کوئی اشکال و شبہ باقی نہیں رہتا۔
اس آیت سے چند احکام و فوائد حاصل ہوئے
اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے عورت و مرد کے جوڑے کو ہم جنس بنایا تاکہ طبعی موافقت اور پورا انس ایک دوسرے کے ساتھ حاصل ہوسکے اور ازدواجی زندگی سے جو تعمیر عالم کے فوائد وابستہ ہیں وہ پوری طرح انجام پاسکیں۔
دوسرے یہ کہ ازدواجی زندگی کے جتنے حقوق و فرائض زوجین پر عائد ہوتے ہیں ان سب کا خلاصہ اور اصل مقصد سکون ہے، دنیا کی نئی معاشرت اور نئی رسموں میں جو چیزیں سکون کو برباد کرنے والی ہیں وہ ازدواجی تعلق کی بنیادی دشمن ہیں، اور آج کی مہذب دنیا میں جو گھریلو زندگی عموما تلخ نظر آتی ہے اور چار طرف طلاقوں کی بھرمار ہے، اس کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ معاشرت میں ایسی چیزوں کو مستحسن سمجھ لیا گیا ہے جو گھریلو زندگی کے سکون کو سراسر برباد کرنے والی ہیں، عورت کی آزادی کے نام پر اس کی بےپردگی اور بےحیائی جو طوفان کی طرح عالمگیر ہوتی جاتی ہے اس کو ازدواجی سکون کے برباد کرنے میں بڑا دخل ہے اور تجربہ شاہد ہے کہ جوں جوں یہ بےپردگی اور بےحیائی عورت میں بڑھتی جاتی ہے اسی رفتار سے گھریلو سکون و اطمینان ختم ہوتا جاتا ہے۔
تیسرے یہ کہ بچوں کے ایسے نام رکھنا جن سے مشرکانہ مفہوم لیا جاسکتا ہو، چاہے نام رکھنے والوں کی نیت یہ نہ ہو، وہ بھی ایک مشرکانہ رسم ہونے کے سبب گناہ عظیم ہے جیسے عبد الشمس عبد العزی وغیرہ نام رکھنا۔
چوتھے یہ کہ بچوں کے نام رکھنے میں بھی اداء شکر کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے نام اللہ و رسول کے ناموں پر رکھے جائیں، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے عبد الرحمن، عبداللہ وغیرہ کو زیادہ پسند فرمایا ہے۔
افسوس ہے کہ آج مسلمانوں میں سے یہ رہی سہی اسلامی رسم بھی ختم ہوتی جاتی ہے، اول تو نام ہی غیر اسلامی رکھے جاتے ہیں، اور کہیں اسلامی نام رکھ بھی دیئے تو ان کو بھی انگریزی کے مخفف حروف میں منتقل کرکے ختم کردیا جاتا ہے، سیرت و صورت سے تو کسی کا مسلمان سمجھنا پہلے ہی مشکل ہوچکا تھا، ناموں کے اس نئے طرز نے اسلام کی اس آخری علامت کو بھی رخصت کردیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کا فہم اور اسلام کی محبت عطا فرمائے۔ آمین
Top