Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 33
قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ اَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
قُلْ : فرما دیں اِنَّمَا : صرف (تو) حَرَّمَ : حرام کیا رَبِّيَ : میرا رب الْفَوَاحِشَ : بےحیائی مَا : جو ظَهَرَ : ظاہر ہیں مِنْهَا : ان سے وَمَا : اور جو بَطَنَ : پوشیدہ وَالْاِثْمَ : اور گناہ وَالْبَغْيَ : اور سرکشی بِغَيْرِ الْحَقِّ : ناحق کو وَاَنْ : اور یہ کہ تُشْرِكُوْا : تم شریک کرو بِاللّٰهِ : اللہ کے ساتھ مَا : جو۔ جس لَمْ يُنَزِّلْ : نہیں نازل کی بِهٖ : اس کی سُلْطٰنًا : کوئی سند وَّاَنْ : اور یہ کہ تَقُوْلُوْا : تم کہو (لگاؤ) عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
تو کہہ دے میرے رب نے حرام کیا ہے صرف بےحیائی کی باتوں کو جو ان میں کھلی ہوئی ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں اور گناہ کو اور ناحق کی زیادتی کو اور اس بات کو کہ شریک کرو اللہ کا ایسی چیز کو جس کی اس نے سند نہیں اتاری، اور اس بات کو کہ لگاؤ اللہ کے ذمہ وہ باتیں جو تم کو معلوم نہیں
اس کے بعد دوسری آیت میں کچھ ان چیزوں کا بیان ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ ان کو ترک کرنے ہی سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے، اور اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ یہ لوگ دوہری جہالت میں مبتلا ہیں، ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی عمدہ اور نفیس چیزوں کو اپنے اوپر بلاوجہ حرام کرکے ان نعمتوں سے محروم ہوگئے، اور دوسری طرف جو چیزیں حقیقةً حرام تھیں، اور جن کے استعمال سے اللہ تعالیٰ کا غضب اور آخرت کا عذاب نتیجہ میں آنے والا ہے، ان کے استعمال میں مبتلا ہو کر آخرت کا وبال خرید لیا، اور اس طرح دنیا و آخرت دونوں جگہ نعمتوں سے محروم ہو کر خسران دنیا و آخرت کا مورد بن گئے، ارشاد فرمایا
اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا باللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔
”یعنی جن چیزوں کو تم نے خواہ مخواہ حرام ٹھہرا لیا وہ تو حرام نہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے تمام بےحیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے خواہ وہ کھلے ہوئے ہوں یا چھپے ہوئے، اور ہر گناہ کے کام کو اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ بلا دلیل کسی کو شریک ٹھہرانے کو اور اس بات کو کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ایسی بات لگا دو جس کی تم سند نہ رکھو“۔
اس تفصیل میں لفظ اثم کے تحت وہ تمام گناہ آگئے جن کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہے، اور بَغُی میں وہ گناہ جن کا تعلق دوسروں کے معاملات اور حقوق سے ہو، اور شرک اور افتراء علی اللہ یہ عقیدہ کا گناہ عظیم ظاہری ہے۔
اس خاص تفصیل کا ذکر اس لئے بھی کیا گیا کہ اس میں تقریباً ہر طرح کے محرکات اور گناہ پورے آگئے، خواہ عقیدہ کے گناہ ہوں یا عمل کے، اور پھر ذاتی عمل کے گناہ ہوں یا لوگوں کے حقوق، اور اس لئے بھی کہ یہ اہل جاہلیت ان سے جرائم اور محرمات میں مبتلا تھے، اس طرح ان کی دوسری جہالت کو کھولا گیا کہ حلال چیزوں سے پرہیز کرتے اور حرام کے استعمال سے نہیں جھجکتے۔
اور دین میں غلو اور نو ایجاد بدعات کا یہ لازمی خاصہ ہے کہ جو شخص ان چیزوں میں مبتلا ہوتے ہیں وہ دین کی اصل اور اہم ضروریات سے عادة غافل ہوجاتے ہیں، اس لئے غلو فی الدین اور بدعت کا نقصان دوہرا ہوتا ہے، ایک خود غلو اور بدعت میں مبتلا ہونا گناہ ہے، دوسرے اس کے بالمقابل صحیح دین اور سنت کے طریقوں سے محروم ہونا۔ نعوذ باللہ منہ
Top