Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 34
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ
وَلِكُلِّ اُمَّةٍ : اور ہر امت کے لیے اَجَلٌ : ایک مدت مقرر فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آئے گا اَجَلُهُمْ : ان کا مقررہ وقت لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ : نہ وہ پیچھے ہوسکیں گے سَاعَةً : ایک گھڑی وَّلَا : اور نہ يَسْتَقْدِمُوْنَ : آگے بڑھ سکیں گے
اور ہر فرقہ کے واسطے ایک وعدہ ہے پھر جب آپہنچے گا ان کا وعدہ نہ پیچھے سرک سکیں گے ایک گھڑی اور نہ آگے سرک سکیں گے۔
پہلی اور دوسری دونوں آیتوں میں مشرکین و مجرمین کے دو غلط کاموں کا ذکر تھا، ایک حلال کو حرام ٹھہرانا دوسرے حرام کو حلال قرار دینا، تیسری آیت میں ان کے انجام بد اور آخرت کی سزا و عذاب کا بیان ہے، ارشاد فرمایا (آیت) وَلِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ یعنی یہ مجرمین جو ہر طرح کی سرکشی کے باوجود اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں پل رہے ہیں، اور دنیا میں بظاہر ان پر کوئی عذاب آتا نظر نہیں آتا اس عادة اللہ سے غافل نہ رہیں کہ اللہ تعالیٰ مجرموں کو اپنی رحمت سے ڈھیل دیتے رہتے ہیں، کہ کسی طرح یہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے علم میں اس ڈھیل اور مہلت کی ایک میعاد معین ہوتی ہے، جب وہ میعاد آپہنچتی ہے تو ایک گھڑی بھی آگے پیچھے نہیں ہوتی، اور یہ عذاب میں پکڑ لئے جاتے ہیں، کبھی دنیا ہی میں کوئی عذاب آجاتا ہے اور اگر دنیا میں عذاب نہ آیا تو مرتے ہی عذاب میں داخل ہوجاتے ہیں۔
اس آیت میں میعاد معیّن سے آگے پیچھے نہ ہونے کا جو ذکر ہے یہ ایسا ہی محاورہ ہے جیسے ہمارے عرف میں خریدار ودکاندار سے کہتا ہے کہ قیمت میں کچھ کمی زیادتی ہو سکتی ہے ؟ ظاہر ہے کہ قیمت کی زیادتی اس کو مطلوب نہیں صرف کمی کو پوچھتا ہے، مگر تبعاً اس کے ساتھ زیادتی کا ذکر کیا جاتا ہے، اسی طرح یہاں اصل مقصد تو یہ ہے کہ میعاد معیّن کے بعد تاخیر نہیں ہوگی، اور تقدیم کا ذکر تاخیر کے ساتھ بطور محاورہ عوام کے کردیا گیا۔
Top