Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 85
وَ لَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ اَوْلَادُهُمْ١ؕ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الدُّنْیَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ
وَلَا تُعْجِبْكَ : اور آپ کو تعجب میں نہ ڈالیں اَمْوَالُهُمْ : ان کے مال وَاَوْلَادُهُمْ : اور ان کی اولاد اِنَّمَا : صرف يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّعَذِّبَهُمْ : انہیں عذاب دے بِهَا : اس سے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَتَزْهَقَ : اور نکلیں اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں وَهُمْ : جبکہ وہ كٰفِرُوْنَ : کافر ہوں
اور تعجب نہ کر ان کے مال اور اولاد سے اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ عذاب میں رکھے ان کو ان چیزوں کے باعث دنیا میں اور نکلے ان کی جان اور وہ اس وقت تک کافر ہی رہیں،
خلاصہ تفسیر
اور ان کے اموال اور اولاد آپ کو (اس) تعجب میں نہ ڈالیں (کہ ایسے مبغوضین پر یہ نعمتیں کیسے ہوئیں، سو یہ واقع میں ان کے لئے نعمتیں نہیں بلکہ آلات عذاب ہیں کیونکہ) اللہ کو صرف یہ منظور ہے کہ ان (مذکورہ) چیزوں کی وجہ سے دنیا میں (بھی) ان کو گرفتار عذاب رکھے اور ان کا دم حالت کفر ہی میں نکل جائے (جس سے آخرت میں بھی مبتلائے عذاب رہیں) اور جب کبھی کوئی ٹکڑا قرآن کا اس مضمون میں نازل کیا جاتا ہے کہ تم (خلوص دل سے) اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ہمراہ ہو کر جہاد کرو تو ان میں کے مقدور والے آپ سے رخصت مانگتے ہیں اور (رخصت کا یہ مضمون ہوتا ہے کہ) کہتے ہیں کہ ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم بھی یہاں ٹھہرنے والوں کے ساتھ رہ جائیں (البتہ ایمان و اخلاص کے دعوے میں کچھ کرنا نہیں پڑتا اس کو کہہ دیا کہ ہم تو مخلص ہیں) وہ لوگ (غایت بےحمیتی سے) خانہ نشین عورتوں کے ساتھ رہنے پر راضی ہوگئے، اور انکے دلوں پر مہر لگ گئی جس سے وہ (حمیت و بےحمیتی کو) سمجہتے ہی نہیں ہاں لیکن رسول ﷺ اور آپ کی ہمراہی میں جو مسلمان ہیں انہوں نے (البتہ اس حکم کو مانا اور) اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے جہاد کیا اور انہی کے لئے ساری خوبیاں ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں، (اور وہ خوبی اور کامیابی یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں (اور) وہ ان میں ہمیشہ کو رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔

معارف و مسائل
آیات مذکورہ میں بھی انہی منافقین کا حال بیان کیا گیا جو غزوہ تبوک میں شریک ہونے سے حیلے بہانے کرکے رک گئے تھے، ان منافقین میں بعض مال دار خوش حال لوگ بھی تھے، ان کے حال سے مسلمانوں کو یہ خیال ہوسکتا تھا کہ جب یہ لوگ اللہ کے نزدیک مردود و نامقبول ہیں تو ان کو دنیا میں ایسی نعمتیں کیوں ملیں۔
اس کے جواب میں پہلی آیت میں فرمایا کہ اگر غور کرو گے تو ان کے اموال و اولاد ان کے لئے رحمت و نعمت نہیں بلکہ دنیا میں بھی عذاب ہی ہیں، آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے، دنیا میں عذاب ہونا اس طرح ہے کہ مال کی محبت، اس کی حفاظت کی اور پھر اس کے بڑھانے کی فکریں ان کو ایسی لگی رہتی ہیں کہ کسی وقت کسی حال چین نہیں لینے دیتیں، ساز و سامان راحت کا ان کے پاس کتنا ہی ہو مگر راحت نہیں ہوتی، جو قلب کے سکون و اطمینان کا نام ہے، اس کے علاوہ یہ دنیا کا مال و متاع چونکہ ان کو آخرت سے غافل کرکے کفر و معاصی میں انہماک کا سبب بھی بن رہا ہے اس لئے سبب عذاب ہونے کی وجہ سے بھی اس کو عذاب کہا سکتا ہے، اسی لئے الفاظ قرآن میں لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان اموال ہی کے ذریعہ ان کو سزا دینا چاہتا ہے۔
Top