Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hajj : 65
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ
اِنَّآ : بیشک اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے آپ کو بھیجا شَاهِدًا : گواہی دینے والا وَّمُبَشِّرًا : اور خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈرانے والا
” کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اس نے وہ سب کچھ تمہارے لئے مسخر کر رکھا ہے جو زمین میں ہے ، اور اسی نے کشتی کو قاعدے کا پابند بنایا ہے۔ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلتی ہے اور وہی آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے کہ اس کے اذن کے بغیر وہ زمین پر نہیں گر سکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ لوگوں کے حق میں بڑا شفیق اور رحیم ہے۔ “
الم تر ……رحیم (56) اس زمین میں کس قدر قوت ہے ، کس قدر ثروت ہے ، اور ان قوتوں اور ذخا ئرکو اللہ نے انسانوں کے لئے مسخر کردیا ہے لیکن انسان اللہ کے ان انعامات سے غافل ہے۔ یہ ان انعامات میں رات اور دن ڈوبا ہوا ہے ، لیکن غافل پڑا ہے۔ اللہ نے زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو انسان کے لئے مفید بنایا ہے اور مسخر کردیا ہے۔ اس کائنات کے طبیعی قوانین کو انسانی فطرت کے مطابق اور موافق بنایا ہے۔ اگر اللہ نے اس زمین کے طبیعی حالات کو انسان کے طبیعی حالات کے خلاف بنایا ہوتا تو انسان کے لئے یہاں زندہ رہنا مشکل ہوتا چہ جائیکہ وہ یہاں اس کائنات کے ذخیرہ سے کوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اگر انسان کی جسمانی تربیت اس سے مختلف ہوتی اور اس کرہ ارض پر وہ چل نہ سکتی ہوا نہ کھینچ سکتی غذا نہ لے سکتی ، پانی نہ پی سکتی تو انسان یہاں ایک لمحے کے لئے بھی زندہ نہ رہ سکتا ۔ اگر انسان کا وزن اس طرح موزوں نہ ہوتا جس طرح کہ ہے تو اس کے قدم زمین پر نہ ٹکتے یا ہوا میں اڑ جاتا یا زمین میں دھنس جاتا۔ اگر زمین پر ہوا نہ ہوتی یا اس موجودہ حالت سے ذرا بھی کثیف ہوتی تو اس کا گلا گھٹ جاتا ، اور فوراً مر جاتا۔ لہٰذا یہ امر الٰہی ہی ہے اور اس لطیف وخبیر کا کارنامہ ہی ہے کہ اس نے ان فطری قوتوں کو انسان کے موافق بنایا اور انسان کو ان کے موافق۔ اللہ نے ایک طرف تو ان کو ایسی طاقت دی کہ وہ اس کرہ ارض کو مسخر کرسکے اور دوسری طرف کرہ ارض اور اس کے اندر پوشیدہ قوتوں کو ایسا بنایا کہ وہ انسان کے کنٹرول کرتا چلا گیا۔ جب بھی اسے کسی جدید قوت کی ضرورت پیش آئی ہے اس نے وہ جدید قوت ڈھنڈ نکالی ہے۔ جب اس کو خطرہ ہوا کہ زمین کی قوتوں میں سے کوئی ذخیرہ ختم ہونے والا ہے ، اس نے جدید ذخیرہ تلاش کرلیا۔ ابھی پٹرول کے ذخائر ختم نہ ہوئے تھے کہ اس نے ایٹمی قوت دریافت کرلیا اور ابھی اس پر پورا کنٹرول نہ ہوا تھا کہ ہائیڈروجن قوت دریافت کرلی۔ اگرچہ انسان کی مثال ابھی تک بچے کی سی ہے کہ جس کے ہاتھ میں آگ آجائے تو وہ خود بھی جلتا ہے اور دوسروں کو بھی جلاتا ہے۔ انسان اس وقت معتدل رہ سکتا ہے جب وہ اسلامی نظام زندگی کے سایہ میں زندگی بسر کرے۔ صرف اس صورت میں وہ اپنیقوتوں اور صلاحیتوں کو تعمیری کاموں میں صرف کرسکتا ہے اور منصب خلافت فی الارض کا فریضہ اچھی طرح ادا کرسکتا ہے۔ والفلک تجری فی البحر (22 : 56) ” اور اس نے کشتی کو قاعدے کا پابند بنایا ہے وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلتی ہے۔ “ کیونکہ یہ قوانین قدرت اسی نے بنائے ہیں جن کے مطابق کشتی سمندر میں چلتی ہے اور انسان کو معلوم ہوا کہ اللہ نے یہ قوانین اس کائنات میں جاری کردیئے ہیں۔ چناچہ انسان نے کشتی کو اپنے مفادات کے مطابق چلانا شروع کردیا۔ اگر سمندر کا کوئی ضابطہ یا کشتی کا مزاج اس کے خلاف ہوتا تو ہم کشتی نہ چلا سکتے یا اگر انسان کی قوائے مدر کہ ایسی نہ ہوتیں جیسی ہیں تو ہمیں پتہ بھی نہ ہوتا کہ سمندروں میں اسط رح بڑے بڑے جہاز چلائے جاسکتے ہیں۔ ویمسک السمآء ان تفع علی الارض الا باذنہ (22 : 56) ” اور وہی آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے ہے کہ اس کے اذن کے بغیر وہ زمین پر نہیں کرسکتا۔ “ کیونکہ اس نے اس کائنات کو بنایا اس طرح ہے کہ آسمان جس طرح کہ وہ ہے ، قائم رہے اور تمام کر ات سماوی ایک دور سے سے دور اپنی اپنی جگہ قائم رہیں۔ نہ وہ گریں اور نہ ان کے درمیان ٹکرائو ہو۔ علم فلکیات میں جس قدر ترقی ہوئی ہے اس سے صرف اس بات میں اضافہ ہوا ہے کہ یہ پیچیدہ نظام کائنات جس کے مطابق یہ پوری کائنات کھڑی ہے ، خلاق کائنات اللہ جل شانہ کا جاری کردہ ہے۔ اگرچہ بعض نادان انسان یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنی تحقیقات کے ذریعے نظام فلکی کی جو تفسیر اور تعبیر کرتے ہیں اس سے دست قدرت کی نفی ہوتی ہے ، یہ بہرحال ان کا وہم اور سوچ کی کمی اور غور و فکر کی کجی ہے۔ پہلے تو یہ بات ہے کہ جس قدر فلکیاتی نظریات آج تک پیش ہوئے ہیں یہ محض مفروضے ہیں لیکن اگر ہم ان کو حقیقت بھی مان لیں تو ان میں سے کوئی مفروضہ بھی یہ ثابت نہیں کرتا کہ اس قانون کو کسی نے وضع نہیں کیا ہے یا یہ کہ ان قوانین کے جاری وساری رہنی میں کسی مدبر کے دست قدرت کا دخل نہیں ہے۔ ویمسک السمآء ان تفع علی الارض (22 : 56) ” وہی آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے ہے کہ وہ زمین پر نہیں گرتا۔ “ یعنی اس قانون کے عمل میں سے جو اس کائنات میں جاری کردیا گیا ہے یہی اس کی صنعت کاری ہے۔ الا باذنہ ” مگر اس کے حکم کے سوا۔ “ یعنی جب اس کا حکم ہوا کہ جو قانون اللہ نے جاری کیا ہے وہ معطل ہوجائے تو پھر یہ قانون قدرت معطل ہوجائے گا اور یہ نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ …… اب قرآن مجید اس کائنات کے دلائل تکوینی بیان کرتے ہوئے ، اس کائنات سے نفس انسانی کی طرف آتا ہے جو اس کائنات کا حصہ ہے۔ اب عالم انسانی کے اندر موت وحیات کے عجیب قوانین قدرت بیان کئے جاتے ہیں۔
Top