Maarif-ul-Quran - Hud : 84
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ
وَ : اور اِلٰي مَدْيَنَ : مدین کی طرف اَخَاهُمْ : ان کا بھائی شُعَيْبًا : شعیب قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا وَ : اور لَا تَنْقُصُوا : نہ کمی کرو الْمِكْيَالَ : ماپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول اِنِّىْٓ : بیشک میں اَرٰىكُمْ : تمہیں دیکھتا ہوں بِخَيْرٍ : آسودہ حال وَّاِنِّىْٓ : اور بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ مُّحِيْطٍ : ایک گھیر لینے والا دن
اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (بھیجا) تو انہوں نے کہا اے قوم ! خدا ہی کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ اور ناپ اور تول میں کمی نہ کیا کرو۔ میں تو تم کو آسودہ حال دیکھتا ہوں اور (اگر تم ایمان نہ لاؤ گے تو) مجھے تمہارے بارے میں ایک ایسے دن کے عذاب کا خوف ہے جو تم کو گھیر کر رہے گا۔
قصہ شعیب (علیہ السلام) قال اللہ تعالیٰ والی مدین اخاھم شعیبا .... الیٰ .... الا بعدا لمدین کما بعدت ثمود۔ (ربط) یہ چھٹا قصہ شعیب (علیہ السلام) کا ہے جو خطیب الانبیاء کے لقب سے معروف ہیں اور مدین کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ یہ لوگ بڑے سرمایہ دار تھے انکا مذہب یہ تھا کہ ہم اپنے مالوں کے تصرف میں آزاد اور مختار ہیں ( جیسا کہ آج کل کے سرمایہ دار کہتے ہیں) جس طرح چاہیں ان میں تصرف کریں حضرت شعیب (علیہ السلام) یہ فرماتے تھے کہ یہ اموال اگرچہ تمہارے مملوک ہیں مگر تمہاری ملکیت مالک حقیقی کی ملکیت اور اس کے حکم کے ماتحت ہے۔ امانت اور دیانت کے ساتھ اور صحیح کمیل اور وزن کے ساتھ تم اس میں تصرف کرسکتے ہو یہ قوم بت پرستی اور بدکاری کے علاوہ معاملات دنیاوی میں خیانت اور کم تولنے میں مبتلا تھی۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اصحاب مدین کو توحید کی دعوت دی اور شرک اور کم تولنے کی عادت سے توبہ اور استغفار کی نصیحت کی اور کہا کہ مجھ کو ڈر ہے کہ اگر تم نے میرا کہنا نہ مانا تو تم پر اللہ کا عذاب آئیگا اور قوم نوح اور قوم عاد اور قوم ثمود کی طرح ہلاک کر دئیے جاؤ گے۔ جب ان لوگوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کا کہنا نہ مانا تو آخری درجہ میں یہ فرمایا اعملوا علیٰ مکانتکم الخ کو خیر ہو تمہارا جی چاہے کرو۔ عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا کہ تم کو کیا رسوائی پہنچنے والی ہے آخر وہی ہوا کہ تھوڑے دنوں میں عذاب آیا آگ برسی اور سب ہلاک ہوگئے۔ چناچہ فرماتے ہیں ہم نے مدین والوں کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو پیغمبر بنا کر بھیجا تاکہ یہ اندھے اور بہرے شاید اپنے بھائی کی کچھ سنیں اور دیکھیں۔ مدین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ایک بیٹے کا نام تھا پھر اس کی اولاد کا بھی یہی نام ہوگیا اور ان لوگوں نے ایک شہر آباد کیا اس کا نام بھی مدین رکھا۔ یہ شہر بحر قلزم کے کنارے پر تبوک کے محاذی اس سے چھ مرحلہ دور واقع ہے اور تبوک سے بڑا ہے اور مدین وہی شہر ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اول مرتبہ مصر سے تنہا نکلے تو اس شہر کے کنوئیں پر ٹھہر کر شعیب (علیہ السلام) کی بکریوں کو پانی پلایا تھا۔ اب آگے شعیب (علیہ السلام) کی تعلیم و تلقین کا حال بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے قوم کو وہ بات بتائی جو سب سے اول اور مقدم فرض ہے۔ شعیب (علیہ السلام) نے ان سے یہ کہا اے میری قوم ! تم صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ توحید اور عبادت یہ تو اللہ تعالیٰ کا حق ہوا۔ اب آگے مخلوق کا حق بتایا جو باہمی معاملات سے متعلق تھا اور نہ کمی کرو تم پیمانے سے ناپنے کی چیزوں میں اور ترازو سے تولنے کی چیزوں میں۔ تحقیق میں تم کو اچھی حالت یعنی نعمت اور تونگری میں دیکھتا ہوں یعنی تم مفلس اور محتاج نہیں کہ اس کی وجہ سے خیانت کرو بلکہ مالدار اور نعمت والے ہو اس کا حق تو یہ ہے کہ لوگ تم سے بہرہ مند ہوں نہ یہ کہ تم دوسروں کے حق میں سے کمی کرو۔ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر کرو۔ اگر زیادہ نہیں تولتے تو کم بھی نہ تولو اور تحقیق میں اس خیانت کی وجہ سے تمہاری نسبت ایسے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں جو تم سب کو گھیرے میں لیے ہوئے ہوگا۔ اس سے قیامت کا عذاب مراد ہے یا دنیوی عذاب ہلاکت مراد ہے۔ یہ تو ناپ تول میں کمی کی ممانعت ہوئی اب آئندہ آیت میں ناپ تول کو پورا کرنے کا حکم اور اس میں تاکید اور مبالغہ ہے اور اے میری قوم انصاف کے ساتھ ماپ اور تول کو پورا کیا کرو۔ ماپ میں پیمانہ کا اوچھا نہ بھرو اور تولنے میں ڈنڈی نہ مارو اور لوگوں کی چیزوں میں ذرہ برابر کمی نہ کرو۔ یعنی کیل اور وزن کی خصوصیت نہیں تمام چیزوں میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھو خواہ کسی قسم کی کوئی چیز ہو اس میں کمی نہ کرو۔ مطلب یہ ہے کہ کسی کے حق میں خیانت نہ کرو۔ ایک ہی بات کو تین مرتبہ دھرانے سے مقصود تاکید ہے مگر ہر مرتبہ نئی عبارت سے ادا کیا گیا ہے جس میں خاص بلاغت ہے اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو یعنی رہزنی نہ کرو۔ یہ لوگ رہزنی بھی کیا کرتے تھے۔ ناپ تول میں ہر حق دار کا حق ادا کرنے کے بعد اللہ کا دیا ہوا حلال مال جو تمہارے پاس باقی رہ جائے اس زیادہ مال سے کہیں زیادہ بہتر ہے جو خیانت کرکے تم حاصل کرو۔ کیونکہ حلال مال میں گو وہ قلیل ہو اس میں خیروبرکت ہے۔ اگر ہو تم یقین رکھنے والے تو سمجھ لو کہ برکت حلال میں ہے۔ حرام میں نہیں۔ میں تمہارا نگہبان نہیں کہ زبردستی تم کو منوا دوں اور نیک راہ پر چلا دوں من آنچہ شرط بلاغت نا قوی گویم تو خواہ از سخنم پند گیر و خواہ ملال حکایت کیا جاتا ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) دو قسم پر تھے ایک وہ کہ جن کو جہاد کا حکم ہوا جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ھجرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور بعضے وہ ہیں جن کو جہاد کا حکم نہیں ہوا۔ صرف تبلیغ رسالت ان کے ذمہ تھا۔ شعیب (علیہ السلام) ان ہی میں تھے جن کو جہاد کا حکم نہیں تھا وہ دن بھر قوم کو نصیحت فرماتے اور رات بھر نماز پڑھتے (روح البیان ص 174 ج 4) قوم مردود کا جواب قوم کے سردار بو کے اے شعیب (علیہ السلام) ہم نے تمہارا وعظ سن لیا۔ کیا تیری نماز اور عبادت تجھ کو یہ حکم دیتی ہے ہے کہ ہم ان بتوں کو چھوڑ دیں جن کو ہمارے بڑے پوجتے تھے اور سب بتوں کو چھوڑ کر تیرے کہنے سے خالی ایک معبود کے ہو رہیں۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) چونکہ کثیر الصلوٰۃ تھے۔ ان کی قوم ان کو نماز پڑھتا دیکھتی تو بطور تمسخر ان سے یہ کہتی۔ یا ہم اپنے مالوں میں سے حسب منشاء تصرف کو نا چھوڑ دیں۔ ہم اپنے مالوں کے مالک اور مختار ہیں جس طرح چاہیں ان میں تصرف کریں۔ تحقیق تو تو بڑا بردبار اور راہ یاب ہے تو ایسی باتیں کیوں کہتا ہے۔ یہ کہنا ان کا بطور استہزاء اور تمسخر تھا۔ جیسا کہ آج کل کے سرمایہ دارانہ نظام والے بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم اپنے سرمایہ کے مالک اور مختار ہیں اور اس کے کمانے اور خرچ کرنے میں آزاد ہیں۔ یہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی تقسیم کیسی۔ مطلب یہ تھا کہ اب ہم کو ہمارے حال پر چھوڑ دیجئے اور دغا بازی سے بچنے کا وعظ نہ کہئے۔ شریعت یہ کہتی ہے کہ بیشک تم اپنے مالوں کے مالک ہو مگر ہم تمہارے وجود کے اور تمہارے مالوں کے مالک مطلق اور مالک حقیقی ہیں تم سب ہمارے بندے اور غلام ہو تم اپنی تجارت اور زراعت میں ہمارے نازل کردہ قانون کے پابند ہو جس طرح تمہارا وجود ہمارا عطیہ ہے اسی طرح تمہارے اموال ہمارے عطا کردہ ہیں ہمارے عطاء کردہ اعضاء اور جوارح سے اور ہمارے حکم کے سامنے دم مارنے کی مجال نہیں ہم نے اپنی رحمت اور مہربانی سے یہ کہہ دیا ہے کہ تم ان اموال کے مالک ہو مگر ہماری اس عنایت اور مرحمت کا یہ مطلب نہیں کہ تم ہمارے نازل کردہ قانون شریعت کی حدودو قیود اور اوامرو نواہی سے آزاد ہو کہ خلاف قانون جو چاہو تصرف کرو شریعت شخصی اور انفرادی ملکیت کو برقرار رکھتی ہے۔ اشتراکیت کی طرح شریعت شخصی اور انفرادی ملکیت کی منکر نہیں البتہ اس کی آزادی اور مطلق العنانی کی منکر ہے جس طرح ایک مجازی غلام اور خادم کی تصرف اور تجارتی کاروبار مجازی آقا کے ماتحت ہے۔ اسی طرح سمجھو کہ بندوں کے تمام مالی تصرفات مالک حقیقی اور خداوند حکم الحاکمین کے حکم اور قانون کے ماتحت ہیں۔ ملک کی رعایا، حکومت اور صدر مملکت اور وزرائے سلطنت کی مخلوق نہیں اور اپنی ذاتی قدرت اور اختیار میں اور تجارتی کاروبار میں حکومت کے محتاج نہیں مگر بایں ہمہ ملک کی رعایا۔ قانون حکومت کے ماتحت تصرف کرسکتی ہے۔ اس کے خلاف تصرف نہیں کرسکتی۔ پس جبکہ مجازی اور قانونی حکومت میں رعایا کا تصرف قانون حکومت کے ماتحت ہونا تہذیب اور تمدن کے خلاف نہیں۔ تو خدا کی مخلوق کے تصرف کو خدا کے نازل کردہ قانون شریعت کے ماتحت قرار دینا کیسے خلاف تمدن ہوسکتا ہے۔ آج کل کے سرمایہ داروں کی طرح قوم شعیب (علیہ السلام) بھی یہی کہتی تھی کہ کیا آپ کی نماز ہم کو یہ حکم دیتی ہے۔ کہ ناپ تول میں کمی کرنا چھوڑ دیں اور اپنے مالوں میں حسب منشاء تصرف کرنا چھوڑ دیں۔ ان معزورین اور متکبرین کا جواب یہ ہے کہ ہاں نماز ایسی ہی باتوں کا حکم دیتی ہے۔ ان الصلاۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر۔ (تحقیق نماز فحشاء اور منکرات سے روکتی ہے) اس لیے شعیب (علیہ السلام) کی نماز ان کو آمادہ کرتی تھی کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں۔ شعیب (علیہ السلام) کا قوم کو جواب باصواب شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا اے میری قوم ! مجھے یہ بتاؤ کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے بصیرت اور روشن دلیل اور حجت پر ہوں۔ یعنی علم اور ہدایت پر ہوں جن کی بنا پر ہم کو نیکی کا حکم دیتا ہوں اور برائی سے منع کرتا ہوں اور مزید برآں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے پاس سے اچھا رزق یعنی حلال و طیب اور فراخ دیا ہو تو کیا ایسی صورت میں تمہاری جاہلانہ اور احمقانہ باتوں کی وجہ سے حق کی دعوت اور تبلیغ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑ دوں اور تم کو بت پرستی اور کیل اور وزن میں کمی کرنے سے منع نہ کروں جبکہ خدا تعالیٰ نے نبوت و رسالت اور حجت واضحہ اور علم و حکمت کی دولت عطا کی جس سے مجھ کو بصیرت اور نور یقین حاصل ہے اور مال حلال و طیب بھی مجھ کو اتنا دیا کہ جس کے بعد مجھ کو مخلوق کی ضرورت نہیں۔ تو مجھ پر تم بیوقوفوں کی طعن آمیز باتوں کا کیا اثر ہوسکتا ہے اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ رزق حسن سے نبوت کی نعمت مراد ہے اور میرا یہ ارادہ نہیں کہ جس بات سے تم کو منع کروں اسکے خلاف میں خود کروں۔ مطلب یہ کہ میں ایسا نہیں کہ جن باتوں اور خواہشوں سے تم کو منع کروں خود اس میں داخل ہوجاؤں۔ بلکہ تمہارے لیے وہی بات پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں۔ جہاں تک مجھ سے ممکن ہے میں سوائے تمہاری اصلاح کے کچھ نہیں چاہتا۔ صرف یہ چاہتا ہوں کہ تمہارے عقائد اور معاملات درست ہوجائیں اور تمہارے اعتقادات اور معاملات سے فسادات دور ہوجائیں۔ اور یہی کمال رشد اور کمال حلم ہے اور نہیں ہے میری توفیق مگر اللہ کی قوت اور طاقت سے یعنی میں اپنی طاقت کے مطابق اصلاح کرنا چاہتا ہوں مگر میری طاقت اللہ کی قوت اور اعانت سے ہے۔ اور اس کی مدد سے ہے۔ اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور اسی کی طرف میں رجوع ہوتا ہوں۔ حتیٰ کہ توکل اور اصلاح میں بھی اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ ہر کام میں نیت اسی کی کرتا ہوں۔ ترہیب قوم از مخالفت و معاندت اس مواعظت سراپا حکمت کے بعد شعیب (علیہ السلام) اپنی قوم کو اپنی مخالفت پر عذاب سے ڈراتے ہیں اور اے میری قوم ! تم کو میری دشمنی اور عداوت اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم میری نافرمانی کرو۔ اور پھر تم کو ویسا ہی عذاب پہنچے جیسا کہ قوم نوح کو طوفان پہنچا۔ یا قوم ہود کو ہوا کا طوفان پہنچا جس سے وہ پارہ پارہ ہوئے یا قوم صالح کو زلزلے نے تباہ اور برباد کیا تم ان قوموں کے تاریخی حالات سے بخوبی واقف ہو اگرچہ ان کو کچھ زمانہ گزر گیا ہے۔ تم کو چاہئے کہ ان سے عبرت پکڑو ! اور قوم لوط تو تم سے دور نہیں۔ ان کو تباہ ہوئے کچھ زیادہ نہیں گزرا۔ دیکھ لو کہ پیغمبر کی مخالفت سے تمہارے روبرو کیسے ہلاک ہوئے مطلب یہ ہے کہ اگر گزشتہ امتوں کے حال سے عبرت نہیں پکڑتے تو قوم لوط سے عبرت پکڑو اس قوم کی بستیاں تم سے دور نہیں اور اپنے پروردگار سے اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگو اور آئندہ کے لیے اس کی طرف رجوع کرو یعنی اس کے حکم پر چلو اور کفر و شرک سے توبہ کرو اور ناپ تول میں کمی کو چھوڑو بیشک میرا پروردگار بڑا مہربان ہے۔ استغفار کرنے والوں پر۔ اور بڑا محبت کرنے والا ہے۔ توبہ کرنے والوں سے استغفار سے اللہ کی رحمت اور عنایت نازل ہوتی ہے اور توبہ سے اللہ کی محبت اس پر نازل ہوتی ہے جس کا ثمرہ یہ ہے کہ وہ دنیا اور آخرت میں خدا کا محبوب بن جاتا ہے۔ کما قال تعالیٰ ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطھرین۔ قوم کا جواب قوم کے لوگ جب شعیب (علیہ السلام) کی اس موعظت سراپا حکمت اور تقریر دل پذیر کے جواب سے لاجواب ہوئے تو ازراہ جہالت و عداوت یہ کہنے لگے اے شعیب تیری بہت سی باتیں جو تو کہتا ہے ہماری سمجھ میں نہیں آتیں۔ یعنی تو جو کہتا ہے کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور شرک اور بت پرستی کو چھوڑو۔ اور ناپ تول میں کمی کرنا چھوڑو۔ تیری یہ باتیں سب تیرے خیالات فاسدہ ہیں قابل توجہ نہیں اور ہم تو تجھے اپنے درمیان کمزور اور ناتواں دیکھتے ہیں تجھ میں کوئی قوت نہیں اور ہم اگر تجھ کو کوئی برائی پہنچانا چاہیں تو کوئی روک نہیں یا یہ مطلب ہے کہ تو ہم میں ایک ذلیل آدمی ہے تیری کچھ عزت نہیں اور اگر تیرا کنبہ نہ ہوتا تو ہم تجھ کو سنگسار کردیتے ہم کو تیرے خاندان اور قبیلہ کی عزت اور حرمت کا پاس ہے جو تجھ کو چھوڑ دیا اور تو ہماری نظروں میں کوئی عزت والا نہیں کہ تیری عزت سنگساری سے مانع بنے۔ شعیب (علیہ السلام) کی طرف سے قوم کی دھمکیوں کا جواب یہ تو قوم کی دھمکیوں کا ذکر ہوا اور بیوقوفوں کا یہی دستور ہے کہ آیات بینات اور روشن دلائل کے مقابلہ میں دھمکیاں دیا کرتے ہیں۔ اب آگے ان دھمکیوں کے مقابلہ میں شعیب (علیہ السلام) کا جواب ذکر کرتے ہیں۔ جو ان نادانوں کی شفقت سے لبریز ہے۔ اور شعیب (علیہ السلام) کی قلبی سکون اور اطمینان کا آئینہ دار ہے کہ وہ قوم کی دھمکیوں سے ذرہ برابر مرعوب نہ تھے بلکہ وعدہ خداوندی پر مطمئن تھے۔ چناچہ شعیب (علیہ السلام) نے ان کی دھمکیوں کے جواب میں کہا ! اے میری قوم افسوس اور تعجب ہے کہ میری نبوت و رسالت تو میرے رجم سے مانع نہ ہوئی۔ بلکہ میرے قبیلہ اور خاندان کی قوت و شوکت میرے رجم سے تمہارے لئے مانع بنی کیا میری برادری اور میرا کینہ تمہارے نزدیک اللہ تعالیٰ سے زیادہ عزت والا ہے کہ خاندان کا تو پاس کیا اور جس خدا نے مجھ کو رسول بنا کر بھیجا اور سچائی کے نشان مجھے دئیے اس کا پاس نہیں کیا اور اللہ کو یعنی اس کے حکم کو تم نے پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا۔ مگر یاد رکھو کہ عنقریب تم کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ کیونکہ تحقیق میرا پروردگار تمہارے اعمال کو احاطہ کیے ہوئے ہے۔ تمہارا کوئی عمل اس سے پوشیدہ نہیں تمہارے اعمال کے موافق تم کو جزا دے گا۔ بعد ازاں جب شعیب (علیہ السلام) قوم کی ہدایت سے ناامید ہوئے اور سمجھ گئے کہ ان لوگوں کو عذاب سے ڈرانا بیکار ہے۔ کوئی نصیحت ان پر کارگر نہ ہوئی کیونکہ ان لوگوں کو یقین ہے کہ عذاب کا وعدہ محض دھمکی ہی دھمکی ہے تو اخیر میں یہ فرمایا کہ اچھا اگر تم کو عذاب کا یقین نہیں تو اچھا تم جانو عنقریب پتہ چل جائے گا اور بالآخر ناامید ہو کر یہ کہا اے میری قوم تم اپنی جگہ میں اپنے کام کیے جاؤ میں بھی اپنا کام کرتا ہوں۔ عنقریب تم جان لوگے کہ وہ کون ہے جس پر ایسا عذاب آئے گا۔ جو اس کو ذلیل و خوار کرے گا اور معلوم ہوجائے گا کہ کون ہے جو جھوٹا ہے اس وقت طرفین کی عزت اور ذلت کا فیصلہ ہوجائیگا اور معلوم ہوجائیگا کہ تم جھوٹے ہو یا میں جھوٹا ہوں اور آسمانی فیصلہ کا انتظار کرو۔ میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ جس عذاب سے میں تم کو ڈرا رہا ہوں وہ محض دھمکی نہیں بلکہ وہ اتنا قریب آگیا کہ اس کی طرف ٹکٹکی لگا کر انتظار میں بیٹھ جاؤ۔ پس حسب وعدہ چند روز کے بعد عذاب کا سامان شروع ہوا اور جب ہمارا حکم عذاب کے لیے آپہنچا تو ہم نے فریقین میں سے شعیب (علیہ السلام) کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی طرف سے ایک خاص رحمت کے ساتھ عذاب آسمانی سے نجات دی اور ان ظالموں کو جنہوں نے شرک اور معصیت سے اپنی جانوں پر ظلم کر رکھا تھا یکدم ایک سخت آواز نے آپکڑا جس سے یک لخت سب کے دل پھٹ گئے اور ایک دم سب مرگئے۔ جبریل امین (علیہ السلام) نے ایک چیخ ماری جس کی دہشت سے سب کافر مرگئے۔ پس یہ لوگ صبح کے وقت اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل مرے رہ گئے گویا کہ وہ کبھی ان گھروں میں بسے نہ تھے۔ آگاہ ہوجاؤ اور خوب سن لو کہ قوم مدین کو ہلاکت اور پھٹکار ایسی ہوئی جیسا کہ قوم ثمود کو ہوئی تھی۔ چونکہ قوم شعیب اور قوم صالح (یعنی قوم ثمود) ایک ہی عذاب سے ہلاک ہوئے اس لیے فرمایا کہ مدین کی ہلاکت ویسی ہی ہے جیسی ثمود کی ہلاکت ہے۔ تشبیہ اس بات میں ہے کہ دونوں قومیں عذاب صیحہ سے ہلاک ہوئیں۔ فرق صرف اس قدر تھا کہ قوم ثمود نے نیچے کی جانب سے صیحہ (چنگھاڑ) سنی اور ہلاک ہوئی۔ اور قوم مدین نے اوپر کی جانب سے صیحہ (چیخ) سنی اور ہلاک ہوئی۔ نیز مدین کو ثمود کے ساتھ اس لیے بھی ذکر کیا کہ دونوں قوموں کی بستیاں قریب تھیں اور کفر اور رہزنی میں ایک دوسرے کے مشابہ تھیں اور عذاب میں بھی ایک دوسرے کے مشابہ تھیں اور دونوں عرب میں تھے اس اعتبار سے تشبیہ معنوی ہوگئی۔ فائدہ : یہاں قوم شعیب کا صیحہ (چیخ) سے ہلاک ہونا مذکور ہوا اور سورة اعراف میں رجفہ کا لفظ آیا ہے یعنی زلزلہ سے ہلاک ہوئے عجب نہیں کہ ابتداء میں زلزلہ آیا ہو اور پھر چیخ آئی ہو۔
Top