Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Hajj : 39
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُۙ
اُذِنَ
: اذن دیا گیا
لِلَّذِيْنَ
: ان لوگوں کو
يُقٰتَلُوْنَ
: جن سے لڑتے ہیں
بِاَنَّهُمْ
: کیونکہ وہ
ظُلِمُوْا
: ان پر ظلم کیا گیا
وَاِنَّ
: اور بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
عَلٰي نَصْرِهِمْ
: ان کی مدد پر
لَقَدِيْرُ
: ضرور قدرت رکھتا ہے
جن مسلمانوں سے (خواہ مخواہ) لڑائی کی جاتی ہے ان کو اجازت ہے (کہ وہ بھی لڑیں) کیونکہ ان پر ظلم ہو رہا ہے اور خدا (انکی مدد کرے گا وہ) یقینا انکی مدد پر قادر ہے
اجازت جہادو وعدہ نصرت وتمکین براعدائے دین قال اللہ تعالیٰ اذن للذین یقتلون بانھم ظلموا .... الیٰ .... وللہ عاقبۃ الامو ر (ربط) گزشتہ آیات میں اس بات کا ذکر تھا کہ کفار مسلمانوں کو ایک اللہ کی عبادت پر مارتے تھے اور طرح طرح کی ایذائیں دیتے تھے یہاں تک کہ کفار نے مکہ سے مسلمانوں کو نکال دیا۔ مسلمان کافروں کی ایذاؤں سے تنگ آکر کافروں سے لڑنے کی اجازت مانگتے تھے کہ ہم بھی انکا مقابلہ کریں اور ان سے لڑیں اللہ تعالیٰ نے اجازت نہ دی۔ اور صبر اور توکل کا حکم دیتے تھے، یہاں تک کہ باطنی جہاد کی منزلیں طے ہوگئیں اور نفوس ایسے پاک اور مقدس ہوگئے کہ ہمرنگ ملائکہ ہوگئے اور ادھر کفار ناہنجار کی ستم رانی انتہاء کو پہنچ گئی تب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دی۔ ان اللہ یدفع عن الذین امنوا، ان اللہ لا یحب کل خوان کفور۔ کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے کفار کی مضرت کو دور کرے گا اور کافروں کے شر کو مسلمانوں سے دفع کریگا اور یہ بات جہاد سے حاصل ہوتی ہے اس لیے اجازت دی جاتی ہے کہ خدا کے شکر گزار بندے خدا کے کفر کرنے والوں اور خیانت اور دغا بازی کرنے والوں کی سرکوبی کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ سب سے پہلی آیت جو جہاد فی سبیل اللہ کی اجازت کے بارے میں نازل ہوئی وہ یہ آیت ہے۔ اجازت دی گئی مسلمانوں کو جن کے ساتھ مشرکین قتال کرتے ہیں کہ کافروں سے جہاد و قتال کریں اور یہ جہاد و قتال کی اجازت اس لیے دی گئی کہ وہ مظلوم ہیں کافروں نے ان پر ظلم کیا ہے اور تحقیق اللہ تعالیٰ ان بےسرو سامان مظلومین کی مدد کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ صحابہ کو جہاد کی اجازت اس لیے دی گئی کہ یہ لوگ مظلوم ہیں اور مظلوم کا ظالم کے ظلم کا مقابلہ تمام مذاہب میں نہ صرف جائز ہے بلکہ واجب اور لازم ہے اور حق کو باطل کی سرکوبی کا ہر وقت حق حاصل ہے حتیٰ کہ اگر حق مصلحت سمجھے قبل اس کے کہ باطل سر اٹھائے۔ سر اٹھانے سے پہلے ہی اس کا سر کچل دیا جائے تو یہ بھی عین حق ہے اور کمال تدبر و دانائی ہے اور انتظار میں رہنا کہ جب باطل مجھ پر حملہ آور ہو تو اس کی مدافعت کرونگا تو یہ کم عقلی ہے اور مسلمان چونکہ بےسروسامان تھے اور تعداد میں بھی بہت قلیل تھے۔ اس لیے ان کی تسلی کے لیے فرمایا کہ اے مسلمانو ! تم جہاد و قتال کی اجازت سے گھبرانا نہیں وان اللہ علی نصرھم لقدیر۔ بیشک اللہ تعالیٰ تمہاری مدد پر قادر ہے اگرچہ تمہاری تعداد قلیل ہے مگر تم اپنی قلت اور دشمن کی قوت اور کثرت پر نظر نہ کرو۔ ہماری قدرت پر نظر رکھو یہ کلام مسلمانوں کے لیے عجیب عنوان سے فتح کی بشارت ہے اور کافروں کے لیے تہدید ہے یہ ایسا ہے جیسا کہ بادشاہ کمال مہربانی کی حالت میں اپنے وفاداروں سے یہ کہے کہ کیا ہم تمہارے سرفراز کرنے پر قدرت نہیں رکھتے اور غصہ کی حالت میں باغیوں سے یہ کہے کہ کیا ہم تمہارے قباہ اور برباد کرنے پر قادر نہیں۔ یہ مختصر سا کلام صریح وعدہ اور وعیدہ سے بدرجہ زیادہ بلیغ ہے۔ والکنایۃ ابلغ من التصریح۔ اب آگے یہ بتلاتے ہیں کہ کون لوگ تھے جن کو کافروں سے جہاد و قتال کی اجازت دی گئی اور ان کی فتح و نصرت کا وعدہ کیا گیا سو یہ لوگ وہ مومنین صادقین تھے کہ جو بدون کسی وجہ کے ناحق اور بلا قصور اپنے گھروں سے نکالے گئے۔ کوئی کام ان سے ایسا سرزد نہیں ہوا تھا کہ جو ان کے نکالنے کا سبب بنتا۔ مگر محض اس کہنے کی وجہ سے کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے ان کو ان کے گھروں سے نکالا گیا اس عنوان میں کافروں کے ساتھ عجیب تہکم اور استہزاء ہے کہ یہ لوگ عجیب نادان ہیں کہ اول تو مسلمانوں کو اس کے گھروں سے بغیر کسی قصور کے اور دوسرا یہ کہ توحید کو کہ جو تعظیم و توقیر کا سبب تھی اس کو جرم اور گناہ قرار دیکر موحدین کے ساتھ مجرمین کا سا معاملہ کیا اور ان کے اخراج کے درپے ہوئے مسلمانوں کا اگر کوئی کوئی جرم اور گناہ تھا تو صرف یہ تھا کہ وہ یہ کہتے تھے کہ ہمارا پروردگار ایک اللہ ہے مطلب یہ ہے کہ مشرکین کے نزدیک توحید ایسا بڑا گناہ تھا جس کی بناء پر مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا۔ کما قال اللہ تعالیٰ یخرجون الرسول وایاکم ان تؤمنوا باللہ ربکم۔ وما لقموا منھم الا ان یؤمنوا باللہ العزیز الحمید۔ ہل ینقمون منا الا ان امنا باللہ۔ وما تنقم منا الا ان امنا بایت ربنا۔ حالانکہ توحید خداوندی عقلاً اخراج کا سبب نہیں ہوسکتی۔ خدا پرستی جرم نہیں البتہ بت پرستی اور صلیب پرستی عقلاً جرم ہے پس یہ پہلی آیت ہے کہ جو جہاد کی اجازت کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور اللہ نے جو نصرت کا وعدہ فرمایا تھا وہ پورا کردیا کہ مہاجرین اور انصار کو قیصر و کسریٰ کے تخت کا مالک بنا دیا اور الذین اخرجوا من دیارھم۔ میں مہاجرین کے محب صادق ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ ان لوگوں نے ہماری محبت میں اپنے گھروں سے نکلنا اور اپنے خویش و اقارب سے جدا ہونا گوارا کیا مگر ہمارے دین کو چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ جاننا چاہئے کہ اس وعدہ میں اگرچہ تمام صحابہ کرام شریک ہیں مگر آیت کا سیاق وسباق بتلا رہا ہے کہ اس آیت میں نصرت اور تمکین فی الارض کا جو وعدہ ہے وہ اولاً مہاجرین اولین سے ہے اس لیے کہ الذین اخرجوا من دیارھم کا مصداق مہاجرین اولین ہیں۔ اور اسی وجہ سے حدیث میں ہے۔ الایمۃ بعدی من قریش یعنی میرے بعد میرے خلیفہ مہاجرین میں سے ہونگے۔ اس لیے کہ الذین ان مکناھم کی ضمیر الذین اخرجوا من دیارھم۔ کی طرف راجع ہے جس کا مصداق بلا کسی شبہ کے مہاجرین ہیں۔ اب آئندہ آیت میں اجازت جہاد کا دوسرا سبب بیان فرماتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ شریر اور بدکاروں کو ایمانداروں اور نیک کاروں کے ذریعہ دفع نہ کرتا اور ان کے شر اور فساد کو نہ دور کرتا تو زمین میں فساد برپا ہوجاتا اور راہبوں کے بہت سے کلوت خانے اور نصاریٰ کے کلیسے اور یہود کے کینے اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں کثرت سے اللہ کا نام لیا جاتا ہے سب مفہوم اور مسمار کر دئیے جاتے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اجازت جہاد کا دوسرا سبب بیان فرمایا۔ یعنی جس طرح مظلوم کے لیے ظالم کے ظلم کی مدافعت اجازت جہاد کا سبب بنی۔ اسی طرح اجازت جہاد کا ایک سبب ایک دینی مصلحت بھی ہے وہ یہ کہ اللہ کی حکمت اس امر کی مقتضی ہے کہ ہر زمانہ میں دین حق انبیاء کرام اور ان کے نائبوں کے ہاتھ غالب ہوتا رہے۔ اگر جہاز کی اجازت نہ ہوتی تو تمام کارخانہ ملت و مذہب درہم برہم ہوجاتا حتیٰ کہ ہر مذہب کے عبادت خانے اور درویشوں کے خلوت خانے ویران ہوجاتے جیسا کہ دوسری آیت میں ہے۔ وقتل داود جالوت واتاہ اللہ الملک والحکمۃ وعلمہ مما یشاء ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الارض۔ یہاں تک اللہ تعالیٰ نے جہاد کی اجازت اور مشروعیت کا سبب بیان فرمایا اور مجاہدین سے نصرت کا وعدہ فرمایا اب آئندہ آیات میں شرائط نصرت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ضرور بالضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کے دین کی مدد کریگا یعنی خدا کی طرف سے مدد جب آتی ہے کہ جب وہ شخص بھی دیں کی مدد کا ارادہ کرے اور دل وجان سے کمر ہمت کلمہ الٰہی کے بلند کرنے کے لیے باندھ لے۔ بغیر اس کے وعدہ نصرت کا مستحق نہیں ہوتا۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا یایھا الذین امنوا ان تنصروا اللہ نصرکم ویثبت اقدامکم۔ اے ایمان والواگرتم اللہ کے دین کی مدد کروگے تو اللہ تم کو فتح ونصرت دیگا اور تمہارے قدم جمادیگا اور فرمایا ان ینصرکم اللہ فلا غالب لکم اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا۔ بیشک اللہ تعالیٰ قوت اور عزت والا ہے دم کے دم میں جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلیل و خوار کرے۔ خدا جس کی مدد کرے وہ مظفر ومنصور ہے اور خدا جس کی مدد نہ کرے وہ ذلیل و خوار ہے۔ قال اللہ تعالیٰ و ان یخذلکم فمن ذا الذی ینصرکم من بعدہ یعنی اگر خدا تمہاری مددنہ کرے تو پھر اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولقد سبلقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انھم لھم المنصورون وان جندنا لھم الغالبون۔ یعنی بارگاہ خداوندی میں یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ مر سلین مظفر ومنصور ہوں گے اور خدا کا لشکر غالب ہوگا حق جل شانہ نے اس آیت میں قسم کھا کر آنخضرت ﷺ کے صحابہ کے لیے جس فتح ونصرت کا وعدہ فرمایا تھا وہ پورا ہوا اور دنیا نے اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ مہاجرین وانصارجو بےسروسامان اور فقیر اور دردیش تھے ٹوٹے پھوٹے ہتھیاروں سے بڑی شان و شوکت والی سلطنتوں پر حملہ آور ہوئے اور ان پر فتحیاب ہوئے۔ صحابہ کرام حسب ارشاد خداوندی وان جندنا لہم الغالبون۔ خدا تعالیٰ کا لشکر تھے، باوجود بےسروسامانی سازوسامان والوں کے لشکر پر غالب آئے اب آگے یہ بتلاتے ہیں کہ یہ بےسروسامان درویش فتح اور غلبہ کے بعد جب برسرحکومت اور بر سراقتدار آجائیں گے تو ان کا کیا حال ہوگا تو فرماتے ہیں کہ یہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر ہم ان بےسروسامانوں کو جو چند روز پہلے اپنے گھروں سے نکالے گئے تھے۔ زمین میں تمکین یعنی حکومت اور اقتدار عطا کریں تو یہ وہ لوگ ہیں کہ قوت اور غلبہ اور حکومت اور اقتدار ملنے کے بعد بھی اس راہ پر ڈالنے کی کوشش کریں گے کہ دوسروں کو ہر بھلے کام کا حکم دیں گے اور ہر بری بات سے ان کو منع کریں گے اور اللہ ہی کے لیے ہے یعنی اسی کے ہاتھ میں ہے ہر کام کا انجام وہ سوائے اس کے کسی کو معلوم نہیں کہ امت محمدیہ کے حکمران کب تک ان صفات مذکورہ کے ساتھ متصف رہیں گے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ فائدہ : اس آیت کو آیت تمکین کہتے ہیں جس میں صحابہ کرام ؓ اور درویشان اسلام سے تمکین فی الارض کا وعدہ فرمایا۔ اس آیت میں خلافت راشدہ کی طرف ارشاد ہے جس کی حقیقت اسیسی تمکین فی الارض ہے جس کے ساتھ اقامت صلوٰۃ اور ایتاء الزکوٰۃ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی ہو یعنی حکومت کے ساتھ ولایت بھی ہو حق دی گئی عنقریب ان کو روئے زمین کی حکومت اور سلطنت عطا ہوگی اور یہ لوگ سلطنت ملنے کے بعد دین کے قائم کرنے والے ہونگے پس یہ آیت خلفائے اربعہ کی خلافت کی صحت اور حقانیت کی دلیل ہے کہ چاروں مہاجرین اولین میں سے تھے اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ کے بموجب ان کو زمین کی تمکین عطاء فرمائی اور چاروں ان صفات مذکورہ کے ساتھ علی وجہ الکمال موصوف تھے یہ آیت چاروں خلیفہ کی خلافت کے حق ہونے کی دلیل ہے اس سے بڑھ کر انسان کی کیا خوبی ہے کہ فرمانروا ہو اور ان چاروں صفتوں کا جامع ہو بادشاہ بھی ہو اور ولی بھی ہو۔ امیر سلطنت بھی ہو اور شیخ طریقت بھی ہو۔ امیری اور فقیری ایک کمبل میں جمع ہوں۔ جاننا چاہیے کہ خلافت راشدہ کے دو جز ہیں ایک تمکین فی الارض یعنی حکومت اور سلطنت اور دوسرا اقامت دین یعنی قانون شریعت کا اجرار اور نفاذ جو انبیاء کرام (علیہ السلام) کی بعثت اور اسلامی حکومت کا اولین مقصد ہے۔ اصل مقصود دین ہے اور حکومت اس کی خادم ہے اس لیے حق تعالیٰ نے تمکین فی الارض کے بعد جو اصحاب تمکین کے اوصاف بیان کیے ان میں پہلا وصف یہ بیان فرمایا۔ و اقاموا الصلوٰۃ واتوا الزکوۃ۔ اس جملہ میں تمام شعائر السلامیہ کے قائم کرنے کی طرف اشارہ ہے اور اس کے بعد امروا بالمعروف میں تمام علوم دینیہ کے احیاء کی طرف اشارہ ہے اور بہوا عن المنکر میں کافروں سے جہاد اور جزیہ لینے کی طرف اشارہ ہے اس لیے کہ کفر سے بڑھ کر کوئی منکر اور کوئی بدتر شئے نہیں اور مسلمانوں پر حدود اور تعزیرات قائم کرنے کو بھی یہ لفظ شامل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ سلطنت ملنے کے بعد خود بھی احکام شریعت کے پابند ہونگے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعہ دوسروں کو بھی شریعت کا پابند بنائیں گے اور اخیر میں واللہ عاقبۃ الامور۔ فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ انجام کی خبر اللہ ہی کو ہے تم کو خبر نہیں کہ اس جہاد کا کیا اثر ہوگا اور کیسے عجیب و غریب ثمرات و برکات اس پر مرتب ہوں گے نیز اشارہ اس طرف بھی ہے کہ درمیانی احوال اور وقتی شکست پر نظر نہ کرنا۔ انجام پر نظر رکھنا۔ والعاقبۃ للمتقین وکذلک تکون العاقبۃ للرسل۔ جیسے مریض کی حالتیں بدلتی رہتی ہیں مگر انجام اس کا صحت ہے۔ بہرحال یہ تمکین فی الارض اللہ کا وعدہ ہے جو عرش سے نازل ہوا ہے لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ یہ وعدہ پورا نہ ہو اور یہ بھی ناممکن ہے کہ اس خدائی وعدہ کو کوئی غضب کرے اللہ تعالیٰ نے اس کے ایفاء کو اپنے ذمہ لیا ہے جو خلفائے راشدین کے ہاتھ پر پورا ہوا۔ وعدہ خداوندی میں نہ مخالفت کا امکان ہے اور نہ مخاصمت کا اور نہ تسلط اور تغلب کا اور نہ غضب کا اور نہ خیانت کا۔ نکتہ : سورة حج کی اس آیت کو آیت تمکین کہتے ہیں اور سورة نور کی آیت یعنی وعد اللہ الذین امنوا منکم و عملوا الصلحت لیستخلفنکم فی الارض۔ اس کو آیت استخلاف کہتے ہیں مقصود دونوں کا ایک ہے اگرچہ عبارت مختلف ہے۔ یستخلفنھم فی الارض اور الذین ان مکنھم اور یمکنن لہم دینھم الذی ارتضی لہم اوراقاموا الصلاۃ واتوا الزکوۃ وامروا بالمعروف ونھوا عن المنکر سب کا مفہوم ایک ہے اور ولیبدلنھم من بعد خوفہم امنا اور ان اللہ یدفع عن الذین امنوا۔ ولولا دفع اللہ الناس۔ کا مفہوم ایک ہے۔ ایک مضمون کو مختلف عبارتوں سے اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ ایک عبارت سے دوسری عبارت کا مضمون نص اور محکم ہوجائے۔ غرض یہ کہ دونوں آیتیں حقیقت میں ایک ہیں اور عبارت میں مختلف ہیں اور دونوں خلفائے راشدین کی خلافت پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے جس کا پورا ہونا ضروری ہے یہ ناممکن ہے کہ اللہ وعدہ کرے اور پورا نہ کرے۔ فلا تحسبن اللہ مخلف وعدہ رسلہ۔ ان اللہ لا یخلف۔ الخ اور نہ کسی جبارد قہار میں یہ طاقت ہے کہ خدا کے وعدہ کو پورا نہ ہونے دے یا اسے اپنے لیے غضب کرے۔ اس آیت میں حق تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ مہاجرین اولین کو تمکین دین عطا فرمائیں گے اور ان کے ہاتھوں پر دین حق قائم ہوگا۔ آیت میں اگرچہ ان اشخاص کے ناموں کی تصریح نہ تھی لیکن جب خلفائے راشدین کے ہاتھوں سے تمکین دین اور اعلاء کلمۃ اللہ اور امر بالعروف اور نہی عن المنکر کا ظہور ہوگیا تو حقیقت سے پردہ اٹھ گیا اور سب نے جان لیا بلکہ دیکھ لیا کہ وہ شخص کون کون ہیں کہ جن کے ہاتھ پر اللہ نے ان وعدوں کے ظہور کو مقدر فرمایا تھا جب استخلاف فی الارض اور تمکین فی الارض کا قرعہ خلفائے راشدین کے نام پر نکلا تو متعین ہوگیا کہ آیت میں یہی اشخاص مراد ہیں۔ جیسے واقعہ خیبر میں جب آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا کہ کل میں جھنڈا ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہوگا اور اللہ اور رسول اس کو دوست رکھتے ہوں گے، لوگوں کو معلوم نہ تھا کہ کون اس دولت اور عزت سے سرفراز ہوگا۔ جب دوسرے دن حضرت علی ؓ کو جھنڈا عنایت ہوا تو سب کو معلوم ہوگیا کہ وہ مرد موصوف حضرت علی مرتضی ؓ ہیں اسی طرح ان آیات کے نزول کے وقت لوگوں کو معلوم نہ تھا کہ کن اشخاص کے سروں پر استخلاف اور تمکین فی الارض کا تاج رکھا جائیگا اور کار پرداز ان قضاء و قدر اس تمکین دین میں کسی کے معین اور مددگار ہونگے۔ پس جب تمکین دین کا ظہور خلفاء کے ہاتھ پر ہوا تو متعین ہوگیا کہ اللہ کے علم میں یہی اشخاص مراد تھے۔ (ازالۃ الخفاء)
Top