Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 102
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اتَّقُوا : تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ حَقَّ : حق تُقٰتِھٖ : اس سے ڈرنا وَلَا تَمُوْتُنَّ : اور تم ہرگز نہ مرنا اِلَّا : مگر وَاَنْتُمْ : اور تم مُّسْلِمُوْنَ : مسلمان (جمع)
مومنو ! خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا
قال تعالی۔ یا ایھا الذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تا۔۔۔۔ ترجع الامور۔ آیت۔ ربط) گزشتہ آیات میں اللہ نے باہمی قتال وشقاق کو تکفرون یعنی کفر سے تعبیر فرمایا اب آئندہ آیت میں تقوی اور اعتصام بحبل اللہ یعنی اتفاق اور اتحاد اور اسلامی مواخات کا حکم دیتے ہیں اور اتفاق اور اتحاد کا ایک دستور العمل بتلاتے ہیں وہ یہ کہ اول تقوی اور اسلام پر مداومت اور استقامت کا حکم دیا اور پھر اعتصام بحبل اللہ کا حکم فرمایا کہ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑو پھر یہ ارشاد فرمایا، واذکر نعمتہ اللہ علیکم۔ الخ۔ آیت۔ جس میں حکم دیا کہ اتفاق اور اتحاد کی نعمت کو یاد کرو، اور اس نعمت کو اور اس کی برکات کو یاد کرکے موازنہ کرو کہ پہلے تمہاری کیا حالت تھی اور اب کیا حالت ہے اور باہمی شقاق اور قتال میں کیا کیا مصیبتیں اور ذلتیں اٹھائیں اور اسلام کی بدولت جو تم کو اتفاق کی نعمت ملی اس میں تم کیا کیا راحتیں اور عزتیں ملیں چناچہ فرماتے ہیں اے ایمان والو ڈرتے رہو اللہ سے جیسے چاہیے اس سے ڈرنا جتنا تم سے ممکن ہو اس میں کوتاہی نہ کرو اور دشمنوں کے ورغلانے سے حسد اور فخر میں مت پڑو اور حاسدوں کے یاد دلانے سے گزشتہ عداوتوں کا خیال کرکے اسلامی اخوت اور مودت اور ایمانی محبت والفت کو مکدر نہ کرو اور سوائے اسلام کے اور کسی حالت پر ہرگز جان نہ دینا یعنی مرتے دم تک اسلام پر قائم رہنا۔ اور اسلام دین اور دنیا کی نعمتوں کا سرچشمہ ہے اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو، یعنی قرآن کریم اوردین اسلام اور شریعت کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو جس طرح رسی کو پکڑ لینا اوپر سے گرنے سے بچاتا ہے اور نیچے سے اوپر تک پہنچنے کا ذریعہ بن جاتا ہے اسی طرح قرآن کریم اوردین اسلام کو مضبوط پکڑنا بندہ کو خدا تک پہنچاتا ہے اور آگ میں گرنے سے بچاتا ہے اور خدا کی رسی اس قدر مضبوط ہے کہ ٹوٹ تو نہیں سکتی لاانفصام لہا۔ البتہ غفلت کی بنا پر ہاتھ سے چھوٹ سکتی ہے غرضیہ کہ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑو اور متفرق اور پراگندہ مت ہوؤ یعنی خدا کی رسی پکڑنے والوں سے کبھی جدا اور علیحدہ نہ ہونا بلکہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہنا تاکہ تم بھی ان کے ساتھ مل کر خدا تک پہنچ جاؤ جو شخص خدا کی رسی کو چھوڑ دے گا وہ اوپر سینیچے گرے گا اور خدا کی رسی پکڑنے والے اوپر پہنچ جائیں گے اور چھوڑنے والے ہلاکت اور ذلت اور حسرت کے گڑھے میں ہوگا اور یاد کرو تم اللہ کے اس انعام اور اھسان کو جو تم پر مبذول ہوا کہ جب تم اسلام سے پہلے ایک دوسرے کے دشمن تھے اور باہم برسرپیکار تھے پھر خدا نے تم کو اسلام کی توفیق دے کر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پس ہوگئے تم اللہ کے فضل سے بھائی بھائی اور برسوں کی عداوت مبدل بالفت ہوگئی یہ تو دنیوی نعمت ہوئی اب آئندہ آیت میں اخروی نعمت کا ذکر فرماتے ہیں اور تم جہنم کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے کہ جہنم میں جانے کے لیے صرف مرنے کی دیر تھی کہ اللہ نے تم کو محمد ﷺ کی ذریعہ بچا لیا یہ دینی اور اخروی نعمت ہوئی کہ تم شرک اور بت پرستی اور گندے عقائد اور اعمال کی وجہ سے دوزخ کے کنارے پر آلگے تھے اس میں گرنے کے لیے صرف مرنے کی دیر تھی اگر تم اس وقت مرجاتے تو سوائے دوزخ کے کوئی ٹھکانہ نہ تھا ایسے وقت اللہ نے تمہاری مدد کی کہ تمہیں اسلام کی توفیق دے کر دوزخ کے گڑھے سے بچالیا پس تم اللہ کی نعمتوں کو یاد کرکے ان کی قدر کرو اور شکر کرو اور شکر وہی ہے کہ حبل اللہ کو مضبوط پکڑے رہو اور یہود کے اغواء سے اسلام کو نہ چھوڑو جس کی برکت سے تم کو یہ نعمتیں ملی ہیں اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم سیدھے راستہ پر چلتے رہو اور گمراہی کے گڑھے میں نہ گرو۔ اور جس طرح تم خدا کی رحمت سے گمراہی کے گڑھے سے نکل گئے ہو اسی طرح تم میں سے ایک جماعت ہونی چاہیے کہ کہ جو اپنے بھائیوں کو آگ کے گڑھے سے نکالنے کی کوشش کرے جس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کو نیکی کی طرف بلائیں اور اچھے کاموں کی ہدایت کریں اور برے کاموں سے منع کریں اور ایسے ہی لوگ جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں مراد کو پہنچنے والے ہیں اور جو ایسا نہ کرے وہ سراسر نقصان اور خسارہ میں ہیں معروف وہ ہے جس کو شریعت اور کتاب سنت پہچانتی ہو اور منکر وہ ہے جس کو شریعت کا علم نہ ہو کہ یہ کیا بلا ہے۔ فائدہ۔ گزشتہ آیتوں میں اللہ نے اہل کتاب کے دو عیب بیان فرمائے، یا اھل الکتاب لم تکفرون۔ آیت۔ اے اہل کتاب تم خو کیوں کفر کرتے ہو، دوم یہ کہ تم دوسروں کو کافر بنانے کی کوششیں کیوں کرتے ہو، کما قال تعالی، یا اھل الکتاب لم تصدوں عن اللہ۔ الخ۔ آیت۔ اہل کتاب کے ان دونوں عیبوں کے بیان کرنے کے بعد اس کے بالمقابل حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو دو باتوں کا حکم دیتے ہیں اول یہ کہ تم خود تقوی اور اسلام پر قائم رہو دوم یہ کہ دوسروں کو خیر اور نیکی کی دعوت دو اور لوگوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرو اور ان لوگوں کے مشابہ اور مانند نہ بنو جو حق سے جدا ہوگئے اور اللہ کی رسی کو چھوڑ کر بہتر فرقے بن گئے اور اختلاف کرنے لگے بعد اس کے کہ ان کے پاس اللہ کی طرف سے صریح اور واضح احکام آچکے تھے یعنی خدا کی صریح آیتیں اور واضح ہدایت آجانے کے بعد اپنی نفسانی خواہشوں سے دین میں اختلاف ڈالا اور مختلف فرقے بن گئے جاننا چاہیے کہ تفرق اور اختلاف وہ ممنوع اور منہی عنہ ہے جو شریعت کے ایسے سریح احکام میں جن میں کسی قسم کا اشتباہ نہ ہو ان میں اختلاف کرنے لگو اور اس اختلاف کا منشا محض نفسانیت ہو ایسا اختلاف بلاشبہ ممنوع ہے البتہ جو امور اجتہادی ہوں اور شریعت میں ان کا حکم اختلاف کرنا ممنوع اور منہی عنہ نہیں بلکہ عین رحمت ہے صحابہ کرام اور پھر تابعین اور ائمہ مجتہدین کا کوئی اختلاف شریعت کے کسی صریح اور واضح احکام میں نہیں بلکہ وہ اجتہادی مسائل میں ہے جو ان میں سے صوات کو پہنچا اس کے لیے دو اجر ہیں اور جس سے کوئی اجتہادی خطا ہوئی اس کے لیے ایک اجر ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے اختلاف صحابہ وتابعین پر مستقل کتاب لکھی ہے اس کو دیکھ لیاجائے اور ایسے لوگوں کے لیے جو آیات بینات اور احکام واضحات کے آجانے کے بعد تفریق اور اختلاف کریں بڑا عذاب ہے اس لیے کہ آیات بینات کے بعد اختلاف کی گنجائش باقی نہیں رہتی صریح اور واضح حکم پر اتفاق واجب اور لازم ہے جو آیات محکمات ہیں یعنی واضح الدلالت ہیں اور ان کی مراد واضح ہے ان میں تاویل نہیں چلتی اس روز یعنی قیامت کے دن بعضے چہرے سفید اور روشن ہوں گے جنہوں نے دنیا میں نور حق کی اتباع اور دلائل اور براہین کی روشنی میں چلے ہوں گے اور بعضے چہرے سیاہ ہوں گے جنہوں نے دنیا میں باطل ظلمتوں اور نفسانی خواہشوں کا اتباع کیا ہوگا ہر ایک کو اس کے حال کے مناسب جزاء ملے گی پس جن لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے ان سے بطور ملامت یہ کہا جائے گا کہ کیا تم لوگوں نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا یعنی آیات محکمات اور آیات بینات میں طرح طرح کی تا ویلیں کیں اور دین میں تفرقہ برپا کیا بدعت چونکہ مظلم اور تاریک ہے اور اس کا رنگ سیاہ ہے اس لیے اس ظلمت کے اتباع کرنے والے چہرے سیاہ ہوں گے بدعت کی باطنی ظلمت اور سیاہی آنکھوں سے دکھلا دی جائے گی۔ ایک شبہ اور اس کا ازالہ۔ شبہ یہ ہے کہ ایمانکے بعد کفر کرنے کا کیا مطلب ہے حالانکہ ان میں بعضے اصلی کافر بھی ہیں جو ایمان لانے کے بعد کافر نہیں ہوئے۔ جواب۔ علماء تفسیر نے اس شبہ کے مختلف جواب ذکر فرمائے ہیں بعض مفسرین یہ فرماتے ہیں کہ یہ آیات منافقین کے بارے میں نازل ہوئی اور معنی یہ ہیں کہ منہ سے کلمہ اسلام کا پڑھتے ہیں اور عقیدہ اسلام کے خلاف رکھتے ہیں اور بعض یہ کہتے ہیں کہ دعوی تو ایمان کا ہے اور عمل اس کے خلاف ہے دعوی تو اتباع سنت کا ہے مگر مبتلا بدعتوں میں ہیں اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ ایمان سے وہ ایمان مراد ہے جو عہد الست کے وقت لوگوں سے ربوبیت کا اقرار لیا گیا بعد میں بعض اس پر قائم ہیں اور بعض منحرف ہوگئے لہذا جو شخص بھی دنیا میں کفر کرتا ہے وہ اس ایمان کے بعد ہی کرتا ہے اور عکرمہ اور زجاج یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں ہے کہ قبل از بعثت نبی ﷺ کی نبوت و رسالت کا اقرار کرتے تھے مگر بعثت کے بعد آپ کی رسالت کے منکر ہوگئے اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت مرتدین کے حق میں ہے کہ ایمان لانے کے بعد کافر ہوئے اور حق یہ کہ یہ آیت عام ہے اور علی حسب المراتب سب کو کفر کرنے والوں کو شامل ہے قیامت کی دن تمام کافروں کے چہرے سیاہ ہوں گے کسی خاص کافر کی تخصیص نہیں۔ کمال قال تعالی۔ وجوہ یومئذ علیھا غبرہ۔۔ تا مسودۃ۔ آیت۔ اس آیت میں معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن ان تمام لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے جنہوں نے اللہ پر جھوٹ بولا ہے سو جاننا چاہیے کہ سب کافر اللہ پر جھوٹ بولنے والے ہیں کوئی کافر ایسا نہیں جو اللہ پر جھوٹ نہ بولتا ہو اس لیے کہ ہر کافر اپنے دین باطل کو دین الہی جانتا ہے اور جو شخص سرے سے ہی اللہ کے وجود کا منکر ہے وہ بھی اللہ پر جھوٹ بولتا ہے کہ اس کے بارے میں ایک غلط اور جھوٹا اعتقاد رکھتا ہے۔ اورا گر آیت میں کفر سے عام معنی مراد لیے جائیں کہ کفر اعتقادی ہو یاعملی تو پھر اس آیت کے عموم میں اہل بدعت اور اہل ہوی مثل خوارج اور روافض وغیرہ بھی داخل ہوجائیں گے جیسا کہ امام رازی نے اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ نقل کیا ہے کہ، کفرتم بعد ایمانکم۔ آیت۔ سے اس امت کے اہل بدعت اور اہل اہواء مردا ہیں۔ تفسیر کبیر ص 23 جلد 3) اور رافضی اور خارجی سب اس کے عموم میں داخل ہیں اور جو راہ سنت کو چھوڑ کر راہ بدعت پر ہوئے پس چکھو تم عذاب کو بسبب اس کے کہ تم کفر میں اعتقادا یا عملا مبتلا ہو اور وہ لوگ جن کے چہرے قیامت کے سفید ہوں گے یعنی اہل سنت والجماعت جنہوں نے اللہ کی رسی کو اس طرح مضبوطی کے ساتھ پکڑا جس طرح اللہ کے نبی نے بتلایا اور جس طرح صحابہ کرام کی جماعت نے اس رسی کو پکڑا تھا کیونکہ یہی راہ نومبین اور مشعل ہدایت ہے اس لیے کہ اس کے پیروں کے چہرے قیامت کے دن سفید اور روشن ہوں گے ایسے لوگ اللہ کی رحمت میں ہوں گے اور ہمیشہ اس میں رہیں گے رحمت یعنی جنت میں داخل ہونا یہ بھی نعمت ہے اور اس رحمت میں خلود اور دوام یہ دوسری نعمت ہے اس لیے دونوں نعمتوں کو الگ الگ ذکر کیا ابن اعباس سے منقول ہے کہ قیامت کے دن جن کے چہرے روشن اور سفید ہوں گیوہ اہل سنت سے والجماعت کے چہرے ہوں گے۔ حافظ ابن کثیر، یوم تبیض وجوہ۔ آیت۔ کی تفسیر میں فرماتے ہیں، یوم القیامۃ حین تبیض وجوہ اہل السنۃ والجماعۃ وتسود وجوہ اھل البدعۃ والفرقۃ قالہ ابن عباس ؓ عنھما۔ (تفسیر ابن کثیر۔ ص 390۔ ج 1) ۔ جس درجہ شریعت کے متبع ہوں گے اسی درجہ کا چہرہ پر نور ہوگا یہ اللہ کی نشانیاں ہیں یعنی قرا ان اور اسلام اور آپ کی نبوت کی حقانیت کی دلائل ہیں جن کو ہم آپ کے سامنے پڑھ کر سناتے ہیں حق کے ساتھ یعنی ان کا مضمون بالکل حق ہے جس میں کسی قسم کا شبہ نہیں اور اب جو ان دلائل کو نہ مانے اور آپ کی نبوت کا قائل نہ ہو تو یہ اس کے فہم کا قصور ہے اور اللہ جہان والوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا یعنی ہم نے کافروں اور حق سے تفرق اور اختلاف کرنے والوں کے لیے جو عذاب تیار کیا ہے وہ ظلم نہیں بلکہ وہ ان کے اعمال قبیحہ کی سزا ہے ہم تو ان پر رحمت ہی کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ہماری رحمت میں داخل نہیں ہونا چاہتے اور اللہ ہی کی ملک ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے یہ اللہ نے اپنے ظلم کے ارادہ نہ کرنے کی وجہ بیان فرمائی ہے مطلب یہ ہے کہ ظلم تو غیر کی ملک میں تصرف کرنے کا نام ہے اور عالم وجود میں کوئی شے ایسی نہیں جو اس کی مخلوق اور مملوک نہ ہو پھر اللہ ظلم کا ارادہ کیسے کرسکتا، ہاں تمام چیزوں کا اس کی ملک ہونا اس امر کو مقتضی ہے کہ وہ اپنی مملوک چیز میں جو چاہے تصرف کرے وہ ظلم نہیں بلکہ عین عدل ہے اور بالآخر تمام امور اللہ ہی کی طرف رجوع ہوں گے یعنی مخلوق کی ابتداء بھی اسی سے ہوئی کہ ہر چیز اس کی پیدا کی ہوئی ہے اور اسی کی ملک ہے اور اسی پر سب کی انتہاء ہے کہ سب اس کی طرف لوٹائے جائیں گے اور بمقتضائے حکم تو رحمت ہر کام کی جزاء اور اجر اس کے مناسب دے گا معاذ اللہ۔ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں، حکیم مطلق ہے اس کا کوئی کام ظلم نہیں بلکہ عین حکمت اور عین عدل اور عین رحمت ہے۔ لطائف ومعارف۔ اسلام سے مقصود یہ ہے کہ اللہ کی خوشنودی حاصل ہوجائے اور اس کی ناراضی اور عذاب سے نجات مل جائے مگر آج کل کے عقل مند اسلام کی طرف محض قومیت کے خیال سے توجہ کرتے ہیں غرض صرف اس قدر ہے کہ ہماری ایک قوم بن جائے اور ہماے اندر اس سیایک اتفاق کی شان پیدا ہوجائے دین مقصود نہیں جس کی دلیل یہ ہے کہ ان میں دینی اور مذہبی رنگ نہیں ورجہ اگر یہ جذبہ مذہب کے لحاظ سے ہو تو مذہبی اور دینی رنگ بھی ان میں ضرور پیدا ہوتا۔ کذا فی تسہیل المواعظ ص 5 ج 2) ۔ 2۔ جاننا چاہیے کہ واعتصموا بحبل اللہ۔ آیت۔ میں جس اتفاق کا حکم دیا گیا ہے اس سے حق پر متفق ہونا مراد ہے اور لا تفرقوا میں جس تفریق کی ممانعت کی گئی ہے اس سے تفرق عن الحق مراد ہے یعنی حق سے جدا مت ہونا چوروں اور اوباشوں میں بھی اتفاق ہوتا ہے مگر وہ مطلوب نہیں۔ حضرت انبیاء کرام اللہ کی طرف سے حقلے کر آئے باطل پرست ان کی جان کے دشمن ہوگئے اور ہر جگہ دو دو مذہب اور دو دو فریق بن گئے کیا کوئی متنفس یہ کہہ سکتا ہے کہ معاذ اللہ حضرات انبیاء کرام نے نااتفاقی پھیلائی حضرت انبیاء تو اتفاق ہی کی دعوت دینے کے لیے تشریف لائے مگر مقصود یہ تھا کہ باطل کو چھوڑ کر حق کے ساتھ متفق ہوجائیں مگر لوگوں نے معاملہ برعکس کیا ہر حکومت اتفاق کو فرض اور لازم سمجھتی ہے لیکن اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ قانون حکومت کے ساتھ اتفاق کرو قانون کے خلاف نہ کرو عدالتوں کا قیام اسی لیے ہے کہ اہل حق کا حق دلایاجائے اور ظالموں کو سزا دی جائے تفرقہ کا مجرم وہ شخص ہے جو قانون حکومت کے خلاف کرے اور جو شخص قانون حکومت کے مطابق چل رہا ہو اس کو نااتفاقی کا مرتکب نہیں کہا جاسکتا۔ عدالت میں اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ فلاں شخص نے میرے مال یا ابرو پر یہ زیادتی کی ہے تو جج کو یہ حق نہیں کہ ظالم اور مظلوم دونوں کو یہ کہہ کر عدالت سے باہر نکال دے کہ تم دونوں ملک میں تفرقہ پھیلاتے ہو یا دونوں کی زبان بندی کا حکم دے دے عدالت اگر ایسا حکم دیدے تو یہ عدل نہ ہوگا خیر سے اگر عدالت کا جج کوئی مصلح قوم اور لیڈر بھی ہو تو بحثییت جج ہونے کے یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں تمہارا دعوی نہیں سنتا جاؤ اختلاف نہ کرو متفق ہو کر رہو تم لوگ میرا دماغ پریشان کرنے آئے ہو اس لیے میں تمہارا مقدمہ نہیں سنتا۔ اسی طرح علماء کو سمجھو کہ وہ وکلاء کی طرح قانون شریعت کی صحیح تشریح کرتے ہیں اور ملحدین اور بےدین قانون شریعت میں ایسی تاویلیں کرتے ہیں جس سے قانون شریعت ان کی خواہشوں اور غرضوں کے مطابق بن جائے علماء دین جب ان ملحدین کے رد اور جواب کیلیے کھڑے ہوتے ہیں تو بہت سے بےعقل یہ کہتے ہیں کہ علماء تفرقہ اور نااتفاقی پھیلاتے ہیں یہ نہیں دیکھتی کہ جو شخص قانون حکومت کے ایسے عجیب و غریب معنی بیان کرے جواب تک وزراء اور حکام اور وکلاء نے نہ سمجھے ہوں ایسا شخص حکومت کی نظر میں چالاک اور عیار ہے اور مجرم ہے اور جو شخص قانون کا وہ مطلب بیان کرے جس معنی کی بناء پر عدالتوں کے ججوں نے فیصلے کیے ہیں وہ شخص نااتفاقی اور تفرقہ کا مجرم نہیں بلکہ وہ حق کے ساتھ متفق ہے۔ 3۔ آیت میں جو تفرق اور اختلاف کی مذمت اور ممانعت ہے اس سے وہ اختلاف مراد ہے جو دین کے صریح اور واضح احکام میں محض نفسانیت کی بناء پر ہو اور اگر غیر منصوص اور ظنی مسائل میں محض تحقیق حق یعنی حق کی تلاش کرنے لیے ہو تو ایسا اختلاف مسلمانوں کے لیے رحمت ہے حدیث میں ہے کہ بنی اسرائیل میں بہتر فرقے ہوئے اور میری امت میں تہتر فرقے ہوں گے جو سوائے ایک فرقہ کے سب کے سب جہنمی ہوں گے صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ وہ کون سافرقہ ہوگا جو دوزخ سے محفوظ ہوگا۔ آپ نے فرمایا ما انا علیہ و اصحابی۔ وہ فرقہ ناجیہ وہ فرقہ ہے جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہوگا۔ اہل سنت والجماعت اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ فرقہ نبی کریم کی سنت اور طریقہ پر ہے اور جماعت صحابہ کے طریقہ پر بھی ہے۔ جس طرح نبی کا راستہ اور طریقہ الہ کے راستہ اور طریقہ سے جدا نہیں اس طرح صحابہ کا راستہ بھی نبی کے راستے اور طریقے سے جدا نہیں۔ صراط مستقیم وہ راستہ ہے جو اللہ نے قائم کیا اور اللہ کی ہدایت کے مطابق نبیوں اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اس پر چلے۔ 4۔ فرقہ ناجیہ کے علاوہ مخالف فرقوں کی بڑی قسمیں یہ ہیں۔ خارج۔ روافض۔ قدریہ۔ جہیمیہ۔ مرحبہ۔ جبریہ پھر ان میں سے ہر ایک فرقہ کی شاخیں ہیں جو سب مل کر بہتر ہوتی ہیں اور یہ تمام فرقے اور ان کی شاخیں سب فرق باطلہ میں داخل ہیں امام قرطبی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ قال ابوالفرج الجوزی فان قیل ھذہ الفرق معروفۃ (فالجواب) انا نعرف الافتراق و اصول الفرق وان کل طائفۃ من الفرق انقسمت الی فرق وان لم نحط باسماء تلک الفرق ومذاھبا فقد ظہر لنا من اصول الفرق، الحروریۃ القدریہ والجہمیۃ والمرحبۃ والرافضۃ والجبریہ وقال بعض اہل العلم اصل الفرق الضالۃ ھذہ الفرق الست وقد انقسمت کل فرقۃ منھا اثنی عشرۃ فرقۃ فصارت اثنتین وسبعین فرقۃ۔ (تفسیر قرطبی ص 160 ج 4) اس کے بعد امام قرطبی نے تمام بہتر فرقوں کی تفصیل فرمائی حضرات اہل علم تفسیر قرطبی کی مراجعت فرمائیں مسلمانوں میں فرض ہے کہ ایک جماعت قائم رہے جہاد کرنے کو اور دین کی باتوں کا تقید رکھنے کو تاکہ دین کے خلاف کوئی نہ کرے اور جو اس کام پر قائم رہے وہی کامیاب ہیں اور یہ طریقہ کہ کوئی کسی سے تعرض نہ کرے، موسیٰ بدین خود عیسیٰ بدین خود یہ راہ مسلمانی کی نہیں (منہ (رح) تعالی) کسی جمہوری اور متمدن حکومت میں یہ آزادی نہیں کہ لوگ قانون حکومت کے پابند اور مقید نہ رہیں اور جس کو جو چاہے وہ کرلیا کرے اسی طرح اللہ کے قانون میں یہ آزادی نہیں کہ جس حکم پر چاہے عمل کرو اور چاہے نہ کرو عجیب بات ہے کہ مجازی حکومت کے احکام کی پابندی تو لازم ہو اور بندہ پر اپنے خدا کے احکام کی پابندی اور ان کی تبلیغ ضروری نہ ہو۔
Top