Maarif-ul-Quran - Al-Ankaboot : 121
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
وَاِذْ : اور جب غَدَوْتَ : آپ صبح سویرے مِنْ : سے اَھْلِكَ : اپنے گھر تُبَوِّئُ : بٹھانے لگے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مَقَاعِدَ : ٹھکانے لِلْقِتَالِ : جنگ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور (اس وقت کو یاد کرو) جب تم صبح کو اپنے گھر سے روانہ ہو کر ایمان والوں کو لڑائی کے لیے مورچوں پر (موقع بہ موقع) متعین کرنے لگے اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
قصہ احد۔ قال اللہ تعالی۔ واذ غدوت من اھلک۔۔۔ الی۔۔۔ المومنون۔ آیت۔ ربط) گزشتہ آیات میں یہ ارشاد فرمایا تھا وان تصبرو وتتقوا لایضرکم کیدھم شیئا۔ آیت۔ کہ اگر تم صبر کرو اور تقوی پر قائم رہو تو دشمنوں کا مکر تم کو ضرر نہ پہنچائے گا اب آئندہ میں قصہ احد کو یاد دلاتے ہیں کہ اس میں تم نے صبر اور تقوی سے کام نہ کیا اس لیے تم کو شکست ہوئی بخلاف بدر کے کہ اس میں تم نے صبر اور تقوی سے کام نہ لیا اس لیے تم کو شکست ہوئی بخلاف بدر کے کہ اس میں تم نے صبر اور تقوی کو اکتیار کیا اس لیے باوجود بےسروسامانی کے تم کو فتح ہوئی یا یوں کہو کہ گزشتہ آیات میں کافروں اور منافقوں کو راز دار بنانے کی ممانعت تھی اب ان آیات میں جنگ احد کے واقعہ کو ذکر کرکے کافروں اور منافقوں کو راز دار بنانے کے مضر نتیجہ سے آگاہ فرماتے ہیں اس لیے کہ اس لڑائی کے مشورہ میں عبداللہ بن ابی سلول بھی شامل تھا جس کے ہمراہ تین سو آدی تھے اولا آپ کے ہمراہ نکلا اور پھر بعد میں اپنی جمعیت کو لے کر راستہ سے یہ کہہ کر واپس ہوگیا کہ یہ لڑائی نہیں بلکہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے اگر ہم اس کو واقعی جنگ سمجھتے تو آپ کے ساتھ شرکت کرتے ان کو دیکھا داکھی انصار کے قبیلہ خزرج کے بنوسلمہ اور قبیلہ اوس میں کے بنی حارثہ نے بھی بھاگنے کا ارادہ کیا مگر اللہ نے ان کے دل مضبوط کردیے اور وہ میدان جنگ میں قائم رہے ان کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئیں چناچہ فرماتے ہیں اور یاد کرو اسوقت کو کہ جب آپ جہاد و قتال کے لیے اپنے اہل خانہ یعنی عائشہ صدیقہ کے حجرہ سے برآمد ہوئے اور زرہ پہن کر باہر تشریف لائے اور مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو لڑائی کے تھکانوں پر بٹھلا دیں چناچہ آپ اسی ارادہ سے مسلمانوں کی جمعیت کو لے کر روانہ ہوئے راستہ میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی، تقریبا تین سو آدمیوں کی جمیعت ساتھ لے کر راستہ سے یہ کہتا ہوا واپس ہوگیا کہ جب میرا مشورہ نہ مانا اور دوسروں کی رائے پر عمل کیا تو ہمیں لڑنے کی کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ اپنے کو کیوں ہلاکت میں ڈالیں اور یہ اس کی ایک چالاکی تھی کہ سن کر اور مسلمان بھی متزلزل ہوجائیں اور اللہ سن رہے تھے اس کے قول کو اور خوب جانتے تھے اس کے کید اور مکر کو جس سے قریب تھا کہ بعض اہل ایمان بھی ہلاکت میں پڑجائیں جس وقت کہ تم میں کی یعنی مسلمانوں کی دو جماعتوں نے یعنی بنو سلمہ اور بنو حارچہ نے یہ قصد کیا کہ ہمت ہاردیں اور ان کے دل میں یہ خطرہ گزرا کہ عبداللہ بن ابی کی طرح وہ بھی راستہ سے واپس ہوجائیں مگر اللہ نے انکو اس جین اور نامردی سے محفوظ رکھا اور اللہ نے ان کا کارساز اور مددگار تھا اسی کی عنایت اور کارسازی نے بنوسلمہ اور بنوحارثہ کو اس قصد سے محفوظ رکھا اور اللہ ہی پر تمام اہل ایمان کو بھروسہ کرنا چاہیے نہ تو اپنی قوت پر اعتماد کرو اور نہ دشمن کی قوت اور کثرت سے خوف زدہ ہوجاؤ۔ غزوہ بدر تم دیکھ چکے ہو کہ قریش کی قوت اور کثرت تین سو متوکلین کے مقابلہ میں کچھ بھی کارآمد نہ ہوئی۔ فائدہ جلیلہ۔ آیت مذکورہ، واذ غدوت من اھلک۔ آیت۔ میں اہل سے باجماع مفسرین ومحدثین وعلماء سیرت حضرت عائشہ کے حجرہ سے نکلنا مراد ہے جس سے حضرت عائشہ کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ حضرت عائشہ طاہرہ اور مطہرہ اور سرتاپا عمل صالح تھیں اس لیے کہ خداوند کریم نے حضرت عائشہ کو نبی اکرم کا اہل فرمایا اور اللہ کے رسول کا اہل وہی ہوسکتا ہے جو سرتاپا عمل صالح ہو اور نوح (علیہ السلام) کے بیٹے کو نوح (علیہ السلام) کیا ہل سے اسی لیے خارج کیا گیا کہ اس کے اعمال صالح نہ تھے۔ کمال قال تعالی۔ انہ لیس من اھلک انہ عمل غیر صالح۔ آیت۔
Top