Maarif-ul-Quran - An-Najm : 33
اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ تَوَلّٰىۙ
اَفَرَءَيْتَ : کیا بھلا دیکھا تم نے الَّذِيْ تَوَلّٰى : اس شخص کو جو منہ موڑ گیا
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے منہ پھیرلیا
خصائص اوصاف سعادت وشقاوت و قانون جزاء اعمال : قال اللہ تعالیٰ : (آیت ) ” افرء یت الذی تولی ....... الی ...... فاسجدوا للہ وعبدوا “۔ (ربط) گذشتہ آیات میں حق تعالیٰ شانہ کے عظمت و جلال کا بیان تھا اور اس ضمن میں خدا کے نیک اور برگزیدہ بندوں کا ذکر تھا تو اب بعض ایسے شقی اور بدبخت انسانوں کا ذکر ہے کہ انکی شقاوت دینا کے واسطے سامان عبرت ہے اور اسی کے ساتھ اعمال کی جزاء وسزاکا معیار بیان فرمایا جارہا ہے اور یہ کہ انسانی کوشش بہرحال اپنے ثمرات ظاہر کرکے رہتی ہے تو ارشاد فرمایا۔ بھلا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے دین حق سے روگردانی کی اور تھوڑا سادیا اور پھر سخت دل ہوگیا۔ 1 حاشیہ (اکدی۔ کدیتہ۔ سے ماخوذ ہے پتھر کی سخت چٹان کو کہتے ہیں، محاورات میں ہے اکدی حافرالبئر، یعنی کنواں کھودنے والے نے زمین کی سختی یا پتھر آجانے کی وجہ سے کھدائی بند کردی۔ ) اور جو کچھ دے رہا تھا وہ بند کردیا جیسے کہ بعض مفسرین کے بیان کے مطابق ولید بن مغیرہ جو کچھ تھوڑا بہت اسلام کی طرف مائل ہونے لگا تھا مشرکین نے اس کو ملامت کی کہ تو یہ کیا کررہا ہے اس نے کہا کہ اگر قیامت آگئی جیسا کہ محمد ﷺ کہتے ہیں تو پھر وہاں کا عذاب کس طرح برداشت کروں گا اس سے ڈرلگتا ہے اس پر ایک متعصب قسم کے مشرک (جس کا نام عاتیہ تھا) نے کہا کہ اگر وہاں عذاب کی نوبت آئی تو میں اس کا ضامن ہوں اور وہ عذاب تیرے بجائے میں اٹھالوں گا بشرطیکہ تو مجھے اتنا اتنا مال دے دے ولید نے اس کی بات مان لی اور جو کچھ میلان ہوا تھا پھر اس سے روگردانی کرلی اور کچھ مال دیا مگر بعد میں مال دینا بند کردیا، یا سخت دل ہوگیا کہ مشرکین مکہ کے کہنے سننے سے دل میں اسلام لانے کے لئے جو نرمی پیدا ہوئی تھی وہ پھر بدستور کفر شقاوت اور قساوت میں تبدیل ہوگئی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی تھوڑا سا ایمان لانے لگا تھا پھر سخت ہوگیا اس کا دل، کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہ اسکو دیکھ رہا ہے کہ قیامت آنے پر جب عذاب ہوگا تو کوئی دوسرا شخص وہ عذاب میرے بجائے اٹھالے گا اور مجھ کو اس سے سبکدوش کردے گا کیا اس کو خبر نہیں پہنچی ان باتوں کی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے صحیفوں میں ہے اور نیز اس خلیل ابراہیم (علیہ السلام) کے صحیفوں میں جس نے اللہ کے ہر حکم کو پورا کیا تورات اور تورات کے علاوہ دیئے گئے موسیٰ (علیہ السلام) کو کچھ صحیفے اور ابراہیم (علیہ السلام) کے صحیفوں میں مضامین مذکور ہیں انکی خبر ولید کو نہیں پہنچی حالانکہ وہ قرآن اور نبی کریم ﷺ سے پہلے نازل ہوچکے ہیں اور انکی باتیں لوگوں میں معروف ہیں اور خدا کے سارے پیغمبر بنیادی باتوں توحید، آخرت، جنت و جہنم، جزاء وسزا جیسے امور میں متفق ہیں تو ان سب صحیفوں میں یہ بات کھول کر بیان کردی گئی ہے کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے گنہ گار کا بوجھ نہیں اٹھائے گا تو جب یہ بات ان اولوالعزم پیغمبروں کے صحیفوں میں موجود ہے پھر اس قسم کا معاملہ اس نے کیوں کرلیا اور ان صحیفوں میں تو یہ بھی ہے کہ ہر انسان کے واسطے وہی ہے جو اس نے سعی کی اور کمایا اور یہ کہ عنقریب اس کی سعی و کوشش دیکھی جائے گی اور کسی کو جدوجہد اور عملی کوشش ضائع نہیں ہوتی خواہ خیر ہو یا شر پھر اسکو اسکی کمائی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، بہر کیف انسان کوشش کا ثمرہ اور نتیجہ مل کر ہی رہتا ہے یہ نہیں کہ وہ نہ ملے اور تمرات اعمال اس پر مرتب نہ ہوں۔ فلاسفہ اور معتزلہ نے (آیت ) ” الاما سعی “۔ کا قصر انسان کے استحقاق کے لئے سمجھا حالانکہ مدلول آیت سعی کا حصول ملا نسان ہے یعنی سعی انسانی کا قصر فی الحصول ہے کہ سعی حاصل ہو کر ہی رہتی ہے یہ مراد نہیں کہ انسان کو بس اس کی سعی کا ہی صلہ ملتا ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ملتا جس کی تفصیل انشاء اللہ آئندہ آرہی ہے۔ اور ان صحیفوں میں یہ بھی ہے کہ آپ کے پروردگار ہی کی طرف ہر چیز کا پہنچنا ہے وہی ذات ہر شے کا منتہی ہے اسی تک ہر ایک آواز پہنچتی ہے، اسی کی طرف ہر ایک عمل پہنچتا ہے اور اسی کی طرف ہر مخلوق کو لوٹ کر جانا ہے وہی مبداء کا ئنات ہے اور وہی منتہی بھی ہے اور یہ کہ وہی ہنساتا ہے اور وہی رلاتا ہے کیونکہ ہر غم اور خوشی کا سامان اسی کے اختیار میں ہے اور اسی کے حکم سے انسان پر یہ احوال وواقعات پیش آتے ہیں لہذا در حقیقت ہنسانے اور رلانے والی ذات اللہ ہی کی ہے اس وجہ سے انسان کو چاہئے کہ ہر خوشی اور مسرت اللہ رب العزت سے مانگے اور ہر غم ورنج میں اپنے پروردگار ہی کو پکارے اور یہ کہ وہی موت دیتا ہے اور وہی حیات وزندگی دیتا ہے اور موت وحیات کا وہی خالق اور مالک ہے اور اسی نے جوڑا پیدا کیا دونوں قسموں نرومادہ کا نطفہ کے ایک قطرہ سے جب کہ وہ ڈالا جاتا ہے رحم میں جب حق تعالیٰ کی شان خالقیت کا یہ مشاہدہ تمام عالم میں ہے کہ اس نے جوڑے پیدا انسانوں اور حیوانوں میں مذکر ومؤنث اور نر و مادہ اور دنیا کی ہر چیز میں خیر وشر، نفع ونقصان، بلندی و پستی اور نور وظلمت تو جس ذات اعلی واجل کی خالقیت اور قدرت کے یہ سارے کرشمے عالم میں پھیلے ہوئے ہیں اس ذات کے لیے کیا مشکل ہے قیامت میں دوبارہ انسان کو پیدا کردے اس لئے ان صحیفوں میں یہ بھی ہے یہ اور اس پر ضروری ہے دوبارہ پیدا کرنا کیونکہ اس نے اس بات کا وعدہ کرلیا ہے اور جب اس کے حکم کے خلاف ایک پتا بھی حرکت نہیں کرسکتا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر اللہ کسی پر عذاب نازل فرمائے تو کوئی اس کو بچا کر وہ عذاب خود برداشت کرلے اور یہ کہ وہی ہے جس نے اپنے بندوں کی حاجتوں کو پورا کیا اور رزق دے کر کسی کا محتاج نہیں رکھا اور اسی نے کسی کو مالدار بنایا زمینیں جائداد، مویشی اور خزائن اموال دیکر الغرض کسی کو بقدر ضرورت دیا اور کسی کو اپنی نعمتوں سے زیادہ سے زیادہ نوازا۔ اور ان صحیفوں میں یہ بھی ہے کہ وہ پروردگار ہے شعری ستارہ کا بھی جس کی یہ اہل عرب اور مشرکین پرستش کرتے ہیں افسوس کہ ایک مخلوق کی تو پرستش کرنے لگے لیکن اس کے خالق کو نہ پہچانا۔ حاشیہ (حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں ” شعری “ ایک بہت بڑا تارا ہے اس کو بعضے عرب پوجا کرتے تھے، 12) اور یہ کہ اس نے عاد اولی یعنی عاد قدیم کو ہلاک کرڈالا اور ثمود کی قوم کو بھی سو ان میں سے کسی کو بھی باقی نہ چھوڑا اور قوم نوح کو بھی جو ان سے پہلی تھی بیشک یہ سب بڑے ہی ظالم اور سرکش تھے اور لوط کی الٹی ہوئی بستیاں بھی جن کو اسی پروردگار نے اکھاڑ پھینکا پھر ان بستیوں کو ڈھانک لیا جس کسی بھی ہیبت ناک چیز نے ڈھانک لیا تھا جس کی ہیبت و عظمت کا تصور نہیں کیا جاسکتا یہ سباقہ قومیں کیسی طاقت ور قومیں تھیں اسباب اور وسائل کی کوئی کمی نہ تھی مکانات اور محفوظ پتھروں کے تراشے ہوئے قلعے تھے لیکن ان قوموں کی مادی طاقت اور وسائل کی کثرت انکو عذاب الہی سے نہ بچا سکی، ظالموں اور سرکشوں کی تباہی خداوند عالم کا ایک عظیم انعام ہے تو اے مخاطب تو اپنے پروردگار کی نعمتوں میں سے کون کون سی نعمت میں شک کرتا رہے گا اور ان واقعات کو سن کر بھی ایمان نہیں لائے گا ان عبرت ناک واقعات کو سن کر تو چاہئے کہ ولید اور اس کے ساتھی اور قریش مکہ ایمان لے آئیں تو اہل مکہ سن لو یہ محمد ﷺ بھی ڈرانے والے ہیں، عذاب خداوندی سے پہلے ڈرانے والوں کی طرح امم سابقہ کو وہ انبیاء (علیہم السلام) ڈراتے رہے اسی طرح یہ پیغمبر آخر الزمان ﷺ بھی ہیں ان پر ایمان لانے میں کسی طرح تامل نہ کرنا چاہئے اب تاخیر کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ پاک کے آخری نبی ہیں اور قریب آچکی ہے قریب آنے والی چیز یعنی قیامت جس کو کوئی اٹھانے والا نہیں اللہ کے سوا یعنی قیامت کے آچکنے کے بعد کسی کی یہ طاقت نہیں کہ اس کو ٹلا سکے قیامت تو کیا درخت سے گرنے والے پتہ کو بھی کسی کی مجال نہیں کہ گرنے سے روک دے پھر بھی کیا تم اس بات اور قیامت کے آنے پر تعجب کررہے ہو اور اس کو اچنبھا سمجھ رہے ہو اور تم ہنستے ہو اور ان باتوں کو پیغمبر کی زبان سے جب سنتے ہو تو مذاق اڑانے لگتے ہو اور تم روتے نہیں حالانکہ خدا کے عذاب اور امم سابقہ کی ہلاکت وتباہی کے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے تو تمہیں اپنی حالت پر افسوس کرنا چاہئے اور اپنی بدنصیبی پر رونا چاہئے اور تم اسی طرح غافل ومتکبر بنے ہوئے ہو قرآن اور اللہ کے پیغامات نہ ہنسی کھیل کی چیز ہیں۔ نہ ہی ان سے غفلت واعراض بےرخی اور تکبر کرنا چاہئے یہ حرکات تباہی اور بربادی کا باعث ہیں بس اب تو اللہ کے سامنے سربسجود ہوجاؤ اور اسی کی عبادت کرو۔ آنحضرت ﷺ نے جب یہ سورت تلاوت فرمائی تو اس حکم خداوندی کی تعمیل میں فورا سربسجود ہوگئے اور اس مجلس میں جتنے مسلمان تھے وہ بھی سجدہ میں گر پڑے اور اس مجلس میں کچھ انوار و تجلیات کا نزول ہوا کہ جو یہاں موجود مشرکین تھے وہ بھی مبہوت ہو کر بدحواسی کے عالم میں سجدہ میں گرپڑے البتہ ایک بوڑھا امیہ بن خلف جو شرک وکفر میں ایک مضبوط چٹان کی طرح تھا اسکو بظاہر یہ غاشیہ غیبہ اور انواروتجلیات متاثر نہ کرسکے اور وہ اسی حالت میں بیٹھا رہا اور ایک مٹھی پر مٹی اٹھا کر پیشانی سے لگا لی اور کہنے لگا کہ بس مجھے تو یہ کافی ہے، جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا، یہی وہ واقعہ تھا سورة النجم کی تلاوت پر سجدہ کرنے کا جس کو صحیحین میں بیان کیا کہ۔ سجد النبی ﷺ وسجد من معہ من المسلمین والمشرکین الخ۔ یعنی آنحضرت ﷺ نے سجدہ کیا اور آپ ﷺ کے ساتھ اس وقت وہاں جو بھی مسلمان تھے اور مشرک سب سربسجود ہوگئے عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں قرآن کریم میں یہ سب سے پہلی سورت ہے جس میں آیت سجدہ نازل ہوئی۔ صحیحین کی روایات میں ہے کہ آنحضرت ﷺ کو صلوۃ الکسوف یعنی سورج گہن کی نما زمین جنت و جہنم کے مناظر پیش کیے گئے اور آپ ﷺ نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا اے لوگو ! خداوند عالم بڑا ہی غیور ہے اور اسی وجہ سے اس نے فواحش اور بےحیائیوں کو حرام فرمایا ہے مراد یہ تھی کہ بےحیائی کا ارتکاب کرنے والے شخص کو اس بات سے غافل نہ ہونا چاہئے کہ وہ خداوند عالم کی غیرت کو پامال کرکے خدا کے قہروغضب کو دعوت دے رہا ہے اور اس صورت میں اسے اپنے انجام سے بےفکر نہ ہونا چاہئے، اور ایک حدیث میں ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے لوگو ! اگر تم وہ بات جان لو جو مجھے معلوم ہے تو تم لوگ ہنسنا بھول جاؤ گے اور کثرت سے رویا کرو گے اور حتی کہ تمہیں اپنے بستروں پر چین نہ آئے گا اور تم جنگلوں میں نکل جاؤ گے دین اور دین کی باتوں پر مذاق و تمسخر انتہائی بدنصیبی ہے اگر حق تعالیٰ کی عظمت و جلالت کا ادنی درجہ میں بھی کسی کو اندازہ ہوجائے تو پھر اس کی تو یہ کیفیت ہوجائے گی کہ زندگی کے ہر عیش و راحت ہی کو بھول جائے گا ، ان آیات کی تفسیر اس شان نزول سے قطع نظر کرتے ہوئے عمومی طور سے یہ بھی کی جاسکتی ہے کہ اس موقعہ پر حق تعالیٰ شانہ نے ہر اس شخص کی مذمت فرمائی جو ابتداء میں دین کی طرف راغب ہوا مانوس ہوا اور کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے لگے مگر پھر دل سخت ہوگیا اس کو چھوڑ بیٹھے اور بخل کرنے لگے تو اس کے حق میں فرمایا گیا کہ بھلا ایسا شخص بھی آپ نے دیکھا ہے کہ جو پہلے بےرخی اور روگردانی کرتا ہو پھر وہ کچھ نرم دل ہو کر تھوڑا بہت اللہ کے لئے خرچ کرے مگر پھر سخت دل ہوجائے اور اس سلسلہ کو بند کردے تو کیا اس کو غیب کی خبر ہوگئی ہے کہ اگر زائد خرچ کروں گا تو میں مفلس ہوجاؤں گا اور میرے پاس کچھ باقی نہ بچے گا تو کیا وہ قضاء وقدر کے معاملات دیکھ رہا ہے اور اسے نظر آگیا ہے کہ بس اس کے بعد اس کو کچھ نہ ملے گا پھر اس تخیل کے بعد حقوق اللہ بھی ضائع کررہا ہے اور حقوق العباد میں بخل کرکے ظلم اور معصیت کا مرتکب ہو رہا ہے کیا اس کو کتب سماویہ اور ان اولوالعزم پیغمبروں کے صحیفوں سے یہ بات معلوم نہیں کہ ہر انسان کو اپنے گناہوں کا قیامت کے روز بوجھ اٹھانا ہے اس غلط خیال میں نہ رہنا چاہئے کہ وہاں کی پیش آنے والی مشقتیں اور مصیبتیں کوئی دوسرا برداشت کرے گا پھر اسی مناسبت کے ساتھ اخیر سورت تک سلسلہ تنبیہ وتہدید کا فرمایا گیا (واللہ اعلم بالصواب ) قرآنی فیصلہ کہ ہر جدوجہد بار آور ہوتی ہے اور مسئلہ ایصال ثواب : آیت مبارکہ ” ان لیس للانسان الا ما سعی “۔ کی مراد سیاق وسباق سے متعین ہے کہ انسان کی جو بھی سعی اور کوشش ہے اس کا ثمرہ اور نتیجہ اس پر ضرور مرتب ہوا کرتا ہے اللہ رب العزت نے جس طرح دنیوی نظام میں یہ چیز مقدر فرما دی ہے کہ انسان کی جدوجہد بہرکیف بارآور ہوتی ہے آخرت میں بھی یہی حال انسانوں کے اعمال وافعال کا ہے اس آیت کے ظاہر الفاظ کو پیش نظر رکھتے ہوئے فلاسفہ اور معتزلہ یہ کہتے ہیں جب یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ انسان کے لئے صرف اسی کی سعی ہے اور وہ اسی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے تو معلوم ہوا کہ مردوں کو زندوں کی طرف سے ایصال ثواب نہیں ہوسکتا زندوں کے اعمال عبادت اور تلاوت سے اموات کو کوئی نفع نہیں تو ایصال ثواب کے منکر ہوئے اہل سنت اور جمہور علماء اس پر متفق ہیں کہ زندہ کی طرف سے میت کے لئے ایصال ثواب صحیح اور درست ہے آیات اور احادیث سے یہ ثابت ہے انبیاء کرام (علیہم السلام) کے لیے درود وسلام اور مومنین سابقین کے حق میں دعائے مغفرت اپنے والدین اور اولاد کے لئے دعاء صلاح و فلاح یہ سب امور نصوص قطعیہ سے ثابت ہیں انبیاء وصالحین کی شفاعت بھی ثابت ہے اگر (آیت ) ” ان لیس للانسان الا ما سعی “۔ کا یہ مفہوم لیاجائے جس کے معتزلہ قائل ہیں تو یہ سب باتیں لغو اور بیکار ہونگی۔ حافظ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم رحمہما اللہ تعالیٰ نے بھی تصریح کی ہے کہ زندہ کی دعا و استغفار صدقہ و خیرات اور تلاوت قرآن مردوں کو نفع پہنچتا ہے اور حاملین عرش کا اہل ایمان کے لئے دعا کرنا خود قرآن کریم میں موجود ہے۔ شیخ ابن ہمام (رح) نے فتح القدیر باب الحج عن الغیر میں لکھا ہے کہ احادیث صحیحہ سے یہ امر صراحۃ ثابت ہے کہ مالی خیرات وصدقات اور بدنی خیرات مثل دعا، نماز روزہ، اور تلاوت قرآن سے اموات کو ثواب پہنچتا ہے اور ان چیزوں سے انکو خوشی ہوتی ہے اور دوسروں کی طرف سے قربانی تو خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ماں باپ کی طرف سے صدقہ اور وقف اور حج صحیحین کی روایات میں ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ کی رحلت کے بعد حضرت علی ؓ ہمیشہ ایک قربانی آنحضرت ﷺ کی طرف سے کیا کرتے تھے۔ علامہ زیبدی (رح) شرح احیاء میں فرماتے ہیں کہ علماء اہلسنت ایصال ثواب پر متفق ہیں اور معتزلہ کا یہ خیال غلط ہے کہ اموات کو زندوں کی طرف سے کسی عمل صالح اور خیر کا ثواب نہیں پہنچتا۔ حضرات مفسرین نے اس کے مختلف جوابات دیئے ہیں ایک تو وہی مراد جو پہلے ذکر کی گئی معتزلہ کے استدلال کا جواب ہے کسی نے جواب دیا لام تملیک کا ہے یعنی انسان اپنی ہی سعی کا مالک ہوتا ہے نہ کے دوسرے کی سعی کا ہاں اگر اپنی سعی اور عمل کسی اور کو ہدیہ اور ہبہ کردے تو بیشک دوسرا بھی اس سے منتفع ہوسکتا ہے جیسے کہ مال و دولت جس کا انسان مالک ہو تو دوسرے کو ہبہ کردینے سے دوسرا اس سے متفید ومنتفع ہوجاتا ہے۔ بعضوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنے آباؤ و اجداد کے عمل پر بھروسہ نہ کرنا چاہئے کہ ان کے صلاح وتقوی سے میری نجات ہوجائے گی بلکہ اس کو چاہئے کہ خود بھی عمل کرے، ورنہ اگر خود بھی عمل نہ کرے اور آباؤواجداد پر امید لگائے بیٹھا رہے گا تو قرآن کریم نے اس زعم فاسد کا رد کردیا ہے اور فرمادیا (آیت ) ” تلک امۃ قد خلت لھا ما کسبت ولکم ما کسبتم ولا تسئلون عما کانوا یعملون “۔ یا یہ مطلب ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے جرم میں ماخوذ نہیں ہوگا جیسے کہ ارشاد ہے (آیت ) ” فالیوم لا تظلم نفس شیئا ولا تجزون الا ماکنتم تعملون “۔ قرآن کریم سے مردوں کے لئے دعا و استغفار ثابت ہے جیسے کہ ارشاد ہے (آیت ) ” والذین جآء وا من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا ولا خواننا الذین سبقونا بالایمان۔ نماز جنازہ بھی دعا ہی ہے اور اس طرح ایصال ثواب ہے بعض کا قول ہے کہ یہ آیت ایمان کے بارے میں ہے کہ مومن کا ایمان اسی کے لیے نافع ہے یہ نہیں کہ کسی دوسرے کافر کو اس سے فائدہ پہنچ جائے۔ بعض حضرات کا حدیث (اذا مات الانسان انقطع عملہ “۔ کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے) سے استدلال کرنا درست نہیں اس لیے کہ حدیث کا مدلول تو اس کے مرنے کے بعد اس کے عمل کے انقطاع کو ظاہر کررہا ہے نہ یہ کہ کسی مردے کو زندہ کی طرف سے کوئی ثواب نہیں پہنچ سکتا اور ظاہر ہے کہ ہر دو میں زمین و آسمان کا فرق ہے بہرکیف ان دلائل سے مسئلہ ایصال ثواب ثابت ہے۔
Top