Maarif-ul-Quran - Al-Hajj : 70
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ فِیْ كِتٰبٍ١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ
اَلَمْ تَعْلَمْ : کیا تجھے معلوم نہیں اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا : جو فِي السَّمَآءِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین اِنَّ : بیشک ذٰلِكَ : یہ فِيْ كِتٰبٍ : کتاب میں اِنَّ : بیشک ذٰلِكَ : یہ عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر يَسِيْرٌ : آسان
کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ پر سب کچھ روشن ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے جو کچھ زمین میں ہے ؟ یہ ساری باتیں نوشتہ میں ضبط ہیں اور ایسا کرنا اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں
اللہ تعالیٰ ہر بات سے واقف ہے اور اس کے علم میں ہرچیز موجود ہے : 70۔ (الم تعلم) کا لفظ تیسری بار اس سورت میں آیا ہے اور ہم پیچھے اس کے متعلق عرض کرچکے ہیں کہ بظاہر خطاب نبی اعظم وآخر ﷺ سے ہے لیکن اس کا لفظ لفظ شہادت پیش کر رہا ہے کہ اس کا رخ تمام ترمخالفین کی طرف ہے جیسا کہ قرآن کریم کا اسلوب بیان شروع سے چلا آرہا ہے کہ وہ نبی اعظم وآخر ﷺ کا مخاطب کر کے آپ ﷺ کے مخالفین سے اکثر بات کرتا ہے اور یہ بات عام انسانوں کی بول چال میں داخل ہے کہ وہ بعض اوقات مخاطب ” ا “ کو کرتا ہے اور بات ” ب “ سے اور یہ صورت حال اکثر اس وقت پیش آتی ہے جب وہ اپنے مخالفین کو بات پہنچانا چاہتا ہے اس طرح گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ اللہ پر سب کچھ روشن ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ؟ پھر جب کوئی جاگنے کے باوجود سویا ہو اس کو کون جگائے ؟ یہ جو کچھ کر رہے ہیں جان بوجھ کر اور سمجھ سوچ کر کر رہے ہیں اندریں وجہ اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دو وہی ان سے نمٹے گا اور ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ کوئی آوارہ بات یا دھمکی نہیں ہے بلکہ عنقریب ہم ان کو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دکھائیں گے ۔ ان کی ایک ایک فرد کی الگ الگ فائل تیار کی جا رہی ہو ” ساری باتیں نوشتہ میں درج کرنا اللہ تعالیٰ پر کوئی مشکل نہیں ہے ۔ “ یہی وہ حقیقت ہے جس کو ” لوح محفوظ “ سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کا تعلق ایمان بالغیب سے ہے کیونکہ اس کی حقیقت اس دنیا انسان کے مشاہدہ میں نہیں آسکتی تاہم مثالوں سے اس کو سمجھنا ممکن ہے جیسے آج کل جب کہ ٹیلی ویژن ‘ ٹیلی فون اور وائرلیس جیسی چیزیں ہمارے مشاہدہ میں آچکی ہیں ۔
Top