Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 5
كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ١۪ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ
كَمَآ : جیسا کہ اَخْرَجَكَ : آپ کو نکالا رَبُّكَ : آپ کا رب مِنْ : سے بَيْتِكَ : آپ کا گھر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک فَرِيْقًا : ایک جماعت مِّنَ : سے (کا) الْمُؤْمِنِيْنَ : اہل ایمان لَكٰرِهُوْنَ : ناخوش
(ان لوگوں کو اپنے گھروں سے اس طرح نکلنا چاہئے تھا) جس طرح تمہارے پروردگار نے تم کو تدبیر کے ساتھ اپنے گھر سے نکالا اور (اس وقت) مومنوں کی ایک جماعت ناخوش تھی۔
ذکر انعامات خداوندی در واقعہ بدر بہ برکت ایمان وتقوی وتوکل قال اللہ تعالیٰ ٰ کما اخرجک ربک من بیتک بالحق۔۔۔ الی۔۔۔ وھم ینظرون (ربط): اس سورت میں عموما غزوہ بدر کی کامیابی کے واقعات کا ذکر ہے اور اس ضمن میں جو انعامات خداوندی مبذول ہوئے ان کی تذکیر اور یاد دہانی مقصود ہے اور یہ بتلانا ہے کہ دیکھو تو سہی کہ باوجود بےسروسامانی کے جنگ بدر میں کس طرح از اول تا آخر تائید غیبی تمہاری معین اور مددگار رہی یہ سب ایمان اور تقوی اور توکل اور اطاعت خدا اور رسول کی برکت تھی۔ شروع سورت میں اجمالی طور پر غزوہ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی کا ذکر تھا۔ اب آئندہ آیات میں اس غیبی کامیابی کے کچھ واقعات ذکر کرتے ہیں تاکہ ان غیبی انعامات اور آسمانی نشانات کو یاد کر کے دل میں منعم حقیقی کی محبت اور عظمت کا جذبہ جوش میں آجائے اور اسباب ظاہری سے بالکلیہ نظر اٹھ جائے۔ شان نزول : چناچہ پہلا واقعہ جو پیش آیا وہ یہ تھا کہ کفار قریش کا تجارتی قافلہ جس کا سردار ابو سفیان تھا شام سے مال تجارت لے کر مکہ واپس آرہا تھا آپ کو اس قافلہ کی آمد کی خبر ملی تو آپ نے صحابہ سے اس کا ذکر کی اور حال بیان کیا کہ اس قافلہ میں مال تو بہت ہے اور آدمی تھوڑے ہیں اے مسلمانو ! تم اس قافلہ کی طرف خروج کرو شاید اللہ تعالیٰ تم کو یہ اموال عطاء کرے آپ نے اسی قافلہ کے ارادے سے صحابہ کی ایک جمعیت کے ساتھ مدینہ سے خروج فرمایا۔ ابوسفیان جب حجاز کے قریب پہنچا تو اس نے جاسوس چھوڑے کیونکہ غزوہ بدر سے پہلے ہی آنحضرت ﷺ کی طرف سے سرایا کا سلسلہ جاری ہوچکا تھا کہ وہ قریش کے تجارتی قافلوں پر حملہ آور ہوتے تھے اسی خدشہ کی بناء پر ابو سفیان نے مختلف طرف جاسوس روانہ کیے اور راستہ میں جو قافلہ ملتا اس سے حال پوچھتا کہ مبادا مسلمان اس کے قافلہ پر حملہ کردیں۔ یہاں تک کہ اس کو کسی قافلہ کے ذریعہ یہ خبر ملی کہ آنحضرت ﷺ تیرے قافلہ پر حملہ کرنے کے لیے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوگئے ہیں ابو سفیان نے اسی وقت ضمضم بن عمرو غفاری کو اجرت دیکر مکہ کی طرف دوڑایا۔ اور یہ پیغام دیا کہ مکہ میں جا کر یہ اعلان کردے کہ اے قریش جلد از جلد تم اپنے قافلہ کے بچانے کے لیے نکلو جب اہل مکہ کو یہ خبر پہنچی تو ابوجہل ایک بڑا لشکر اپنے ساتھ لے کر قافلہ والوں کی مدد کے لیے روانہ ہوا مگر ابو سفیان دوسرا راستہ اختیار کر کے قافلہ کو مسلمانوں کی زد سے بچا کر نکل گیا۔ لیکن ابوجہل لڑائی کے ارادہ سے مقام بدر پر آپہنچا ادھر آنحضرت ﷺ اس وقت وادی ذفران میں تشریف فرما تھے یہ جبریل امین وحی لیکر آئے اور آپ کو ابوجہل کے لشکر کے آنے کی ساری اطلاع دی۔ آں حضرت ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ حال یہ ہے کہ ادھر سے تو قافلہ آتا ہے اور ادھر سے لشکر۔ تم قافلہ سے مقابلہ پسند کرتے۔ یا لشکر کفار سے مقاتلہ اور محاربہ پسند کرتے ہو یہ سن کر مسلمانوں میں کچھ اختلاف رائے ہوا۔ بعض نے آنحضرت ﷺ کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ اور بعض نے یہ کہا کہ ہم لڑائی کے ارادے نہیں نکلے تھے اور نہ اس کے لیے ہم نے کوئی تیاری کی بلکہ ہم تو قافلہ کے لوٹنے کے لیے نکلے تھے تو ہم کو قافلہ ہی کا تعاقب کرنا چاہئے آپ اس بات سے رنجیدہ ہوئے تو اس وقت حضرت ابوبکر اور عمر ؓ اور حضرت مقداد اور سعد بن معاذ ؓ نے اطاعت آمیز اور جاں نثارانہ تقریریں کیں اور دل و جان سے لڑائی پر آمادگی ظاہر کی اور سعد بن معاذ ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ہم آپ کے مطیع اور فرمانبردار ہیں اللہ نے آپ کو جو حکم دیا ہے ویسا ہی کیجئے خدا کی قسم اگر آپ ہم کو دریا میں گھس جانے کا حکم دیں گے تو ہم دریا میں گھس پڑیں گے اور ایک آدمی بھی ہم میں سے پیچھے نہ رہے گا اور ہم دشمن کے مقابلہ سے ذرہ برابر ناخوش نہیں۔ ہم لڑائی کے وقت بڑے صابر اور ثابت قدم ہیں اور دشمن کے مقابلہ میں ہم صادق اور سچے ہیں کیا عجب ہے کہ الہ تعالیٰ آپ کو ہم سے وہ بات دکھلائے جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ آپ اللہ کے نام اور اس کی برکت پر چلیے آپ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا۔ چلو اللہ کی برکت پر اور بشارت ہو تم کو۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ دو گروہوں میں سے ایک گروہ کا وعدہ کیا ہے ایک ابو سفیان کے قافلہ کا گروہ اور دوسرا ابو جہل کے لشکر کا گروہ مجھ سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ ان دو گروہوں میں سے ایک گروہ تمہارے لیے مسخر ہوجائیگا اور تم اس پر غالب ہوگے مفصل قصہ کتب سیر میں مذکور ہے۔ غرض یہ کہ بعض مسلمانوں کو بوجہ بےسروسامانی کے اور بوجہ آسانی کے یہ خیال تھا کہ لڑائی نہ ہو اور قافلہ کا مال کثیر ان کے ہاتھ آجائے اور اللہ اور اس کے رسول کو یہ منظور تھا کہ کفر کا زور ٹوٹ جائے اور مسلمانوں کی دھاک کافروں کے دل میں بیٹھ جائے کیونکہ اگر قافلہ پر حملہ کیا گیا تو صرف مال تو ہاتھ آجائے گا مگر کفر کی کمر نہیں ٹوٹے گی۔ اس لیے آپ نے ابوجہل کے مقابلہ کو ترجیح دی۔ آئندہ آیات میں اسی بات کا ذکر ہے۔ گزشتہ آیات میں تقسیم غنائم کے بارے میں اختلاف اور نزاع پر تنبیہ فرمائی تھی اب ان آیات میں دوسرے اختلاف پر ملامت اور تنبیہ فرماتے ہیں جو ابتداء سفر میں پیش آیا اور چونکہ اس اختلاف کا منشا محض اسباب ظاہری پر نظر تھی اس لیے گزشتہ آیت وعلی ربھم یتوکلون۔ میں اس پر ایک لطیف تعریض بھی ہے کہ اے اصحاب رسول تمہارا اسباب ظاہری پر نظر کر کے جہاد و قتال سے گریز کرنا اور قافلہ تجارت کے مال و دولت کی طرف نظر اٹھانا شان توکل کے شایان شان نہیں چناچہ اس غزوہ میں جو من جانب اللہ مسلمانوں پر انعامات مبذول ہوئے ان کو ذکر فرماتے ہیں۔ انعام اول اے نبی جس طرح لوگوں نے اس تقسیم انفال میں اختلاف کی اور بعضوں کو یہ تقسیم طبعاً گراں گزری اور بع اس سے ناخوش تھے مگر بوجہ مصالح کثیر خیر اسی میں تھی کہ اللہ کے رسول نے اللہ کے حکم سے تم میں یہ مال برابر تقسیم کردیا اور تمہاری ناگواری کا لحاظ نہیں کیا۔ عسی ان تکرھوا شیئا وھو خیر لکم وعسی ان تحبو شیئا وھو شر لکم۔ اسی طرح جب تیرے پروردگار نے تجھ کو تیرے گھر سے عینی تیری بستی سے حکمت اور مصلحت کے ساتھ بدر کی طرف نکالا تو مسلمانوں نے خروج کے بارے میں اختلاف کیا اور تحقیق اہل ایمان کی ایک جماعت بوجہ سروسامانی اور پہلے سے تیاری نہ ہونے کی وجہ سے آپ کے اس خروج کو طبعاً ناپسند کرتی تھی یعنی یہ کراہت اور ناگواری بوجہ مخالفت حکم نہ تھی۔ بلکہ بےسروسامانی کے سبب سے وہ طبیعت کی کراہت تھی جو طبیعت بشریہ کے لوازم میں سے ہے اور یہ لوگ آپ سے امر حق کے بارے میں جھگڑتے ہیں بعد اس کے کہ حق ظاہر ہوگیا کہ کافروں سے جہاد اور قتال اور ان کی سرکوبی اور گردن کشی ہی بہتر ہے اور جب آپ کی بشارت سے ان کو یہ معلوم ہوگیا کہ ہر حال میں دشمن پر فتح پائیں گے تو پھر اس علم کے جنگ سے گریز اور پہلو تہی کیسی اور ظاہری اسباب کی بناء پر خوف وہراس کیسا۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں نے باوجود علم اور یقین کے آپ سے مجادلہ اور اصرار میں اس قدر مبالغہ کیا کہ گویا کہ یہ لوگ موت کی طرف ہنکائے جارہے ہیں اور گویا وہ موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ مگر بالآخر انجام اسی کا بہتر ہوا جس کو وہ ناپسند کرتے تھے اور اسی میں خیر ہوئی لشکر کفار سے مقابلہ کا انجام یہ ہوا کہ اسلام غالب ہوا اور کفر مغلوب ہوا اور یہ بات قافلہ تجارت کے مقابلہ سے حاصل نہ ہوتی مال تو مل جاتا مگر کفر ذلیل اور خوار نہ ہوتا پس جس چیز کو تم ناپسند کرتے تھے اسی میں تمہاری خیر اور بھلائی ہوئی کہ بلا قصد اور بلا ارادہ اور بلا تیاری کے تم کو تمہارے دشمن سے بھڑا دیا اور پھر تم کو فتحیاب بھی کردیا اسی طرح تمہارے خلاف منشاء اور خلاف طبع۔ انفال کی تقسیم میں حکمتیں اور مصلحتیں ہیں خلاصہ مطلب آیت کا یہ ہوا کہ اے نبی بدر کی غنیمتوں میں مسلمانوں کا اختلاف کرنا ایسا ہی خطاء ہے جیسا کہ جنگ بدر کے لیے خروج کرنے میں مسلمانوں کا اختلاف خطاء تھا جو لوگ اولئک ھم المومنون حقا کے مصداق ہوں ان کے لیے یہ مناسب نہیں کہ اپنی قلت تعداد اور قلت اسلحہ اور دشمنوں کی کثرت تعداد اور کثرت اسلحہ سے ڈر جائیں اور ان کا یہ اختلاف اگرچہ بطور مشورہ تھا مگر اس پر اصرار مناسب نہ تھا۔ اور ایسے پاکبازوں کے شایان شان نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دونوں غلطیاں معاف کیں۔ پہلی غلطی کا منشاء یہ تھا کہ یہ لوگ اپنی قلت تعداد اور قلت اسلحہ اور دشمنوں کی کثرت تعداد اور کثرت اسلحہ کی بناء پر خائف تھے مگر چونکہ یہ خوف طبعی تھا اور ظاہر اسباب کی بناء پر تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے معاف کیا اور دوسری غلطی کا منشاء یہ تھا کہ وہ غنیمت کا مستحق اسی کو سمجھتے تھے کہ جو دشمن کو قتل کرے اللہ تعالیٰ نے ان کی اس غلطی کا ازالہ فرمادیا کہ تم اس مال کے مستحق نہیں۔ فتح ونصرت محض اللہ کی غیبی مدد سے ہوئی ہے تمہاری طاقت اور زور سے یہ فتح نہیں ہوئی سو یہ مال اللہ تعالیٰ کا ہے اور پیغمبر اس کے نائب ہیں۔ اس کے حکم کے مطابق تقسیم کردیں گے بہرحال تمہارا یہ سمجھنا کہ مال غنیمت کے ہم مستحق ہیں یہ تمہاری غلطی تھی جو اللہ تعالیٰ نے معاف کردی سچے اور پکے مومنین کی شان کے مناسب نہیں کہ ان کے دل مال حلال (مال غنیمت) کی طرف مائل ہوں اور ظاہری اسباب پر نظر کر کے اپنی قلت سے اور کافروں کی کثرت سے ڈرنے لگیں یہ توکل کے منافی ہے۔ نکتہ : آیت مذکورہ بالا۔ یجادلونک فی الحق میں جن بعض صحابہ کے مجادلہ اور اصرار کی طرف اشارہ ہے۔ سو وہ مجادلہ محبانہ اور خادمانہ اور نیاز مندانہ تھا بطور ناز تھا۔ جو محبت سے پیدا ہوا تھا۔ معاذ اللہ مخالفانہ اور عاصیانہ نہ تھا۔ جیسے حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا قوم لوط کے بارے میں اللہ سے مجادلہ ازراہ خلت و انبساط تھا کما قال تعالیٰ یجادلنا فی قوم لوط اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس فریق کو فریقا من ال مومنین فرمایا کہ یہ مجادلہ ایمان کے منافی نہ تھا۔
Top