Tafseer-e-Haqqani - Hud : 5
كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ١۪ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ
كَمَآ : جیسا کہ اَخْرَجَكَ : آپ کو نکالا رَبُّكَ : آپ کا رب مِنْ : سے بَيْتِكَ : آپ کا گھر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک فَرِيْقًا : ایک جماعت مِّنَ : سے (کا) الْمُؤْمِنِيْنَ : اہل ایمان لَكٰرِهُوْنَ : ناخوش
(یہ حکم بھی بظاہر ایسا ہی ناگوار ہے) جیسا کہ آپ کے رب نے ان کے گھر سے حکمت کے ساتھ باہر نکلنے کا آپ کو حکم دیا تھا اور مسلمانوں کی ایک جماعت تو اس سے ناخوش ہی تھی۔
ترکیب : کما صفت ہے مصدر محذوف کی اے ھذہ الحالۃ فی کراھتھم لھا مثل اخراجک فی حال کر اہتھم وقد کان خیرا پس یہ کما خبر ہوگی مبتداء محذوف کی جو ھذہ ہے وان فریقاً جملہ حال ہے کہ اخرجک سے یجادلونک الخ جملہ حال ثانی ہے کانما جملہ صفت ہے مصدر محذوف کی۔ اذ یعدکم کا عامل اذکر محذوف کم مفعول اول احدی الطائفتین مفعول ثانی یعد کا انہالکم بدل ہے مفعول ثانی سے بدل الاشتمال۔ تفسیر : کما اخرجک اس تشبیہ میں علمائِ مفسرین کے چند اقوال ہیں۔ ازانجملہ سب سے راجح یہ ہے کہ تقسیم بھی مسلمانوں کو بظاہر ایسی ہی ناگوا رہے جیسا کہ اے پیغمبر اس جنگ کے لئے آپ کا بحکم الٰہی گھر سے نکلنا ناگوار تھا لیکن جس طرح وہاں ان کی ناخوشی کا لحاظ نہیں کیا گیا ایسا ہی یہاں بھی لحاظ نہیں کس لئے کہ حکمت الٰہی اور انجام کار کے عمدہ نتائج تک ان کی عقلیں نہیں پہنچتیں۔ بندے تو بالعقل کی آسانی کو اور موجودہ فائدہ کو دیکھتے ہیں۔ اس جنگ کے لئے گھر سے نکلنے میں بظاہر تکلیف اور مشقت اور دشمنوں کی کثرت تعداد اور اپنی قلت کے سبب مارے جانے کا خوف تھا مگر اس جنگ نے مشرکین مکہ کی جو اسلام میں سدِراہ تھے کمر ہی توڑ ڈالی۔ اسی طرح غنیمت میں شرعی تقسیم کا قائم کرنا ‘ آیندہ لشکر کشی اور فتوحات کے لئے بہت ہی مفید ہے۔ ان آیات میں جنگ بدر کی طرف اشارہ ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ ہجرت کے دوسرے سال رمضان کی پہلی تاریخوں میں آنحضرت ﷺ کو خبر دی گئی کہ ابو سفیان شام سے ایک کاروان تجارت کے ساتھ آرہا ہے جس میں صرف چالیس آدمی ہیں اور بہت کچھ اسباب ہے۔ اس کے تعاقب میں آنحضرت ﷺ تخمیناً تین سو انصار و مہاجرین لے کر نکلے۔ اس کو بھی خبر لگ گئی۔ تو وہ سمندر کے کنارے کنارے دوسرے رستہ ہو لیا اور اس نے ضمضم بن عمرو غفاری کو مکہ کی طرف دوڑایا کہ جلد میری مدد کو پہنچو ورنہ مسلمانوں نے گرفتار کرلیا۔ جب آنحضرت ﷺ ذفران کی وادی میں پہنچے تو قریش مکہ کے آنے کی خبر ملی جو ابو سفیان کی مدد کو آتے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جبرئیل کی معرفت اللہ تعالیٰ نے مجھ سے دو باتوں میں سے ایک کا وعدہ کرلیا ہے خواہ قافلہ کو گرفتار کرلو خواہ کفار مکہ پر فتح حاصل کرلو تمہاری کیا مرضی ہے ؟ ابوبکر و عمر ؓ نے عرض کیا جو بہتر ہو کیجئے۔ اسی طرح انصار کے سردار سعد بن معاذ ؓ نے کہا کہ ہم ہر حال میں آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ نے فرمایا کفار سے مقابلہ کرو۔ ان سے پہلے چل کر میدان بدر میں پانی پر ڈیرہ ڈال دو مگر بعض لوگوں نے عذر کیا کہ ہم لڑائی کا سامان لے کر نہیں آئے۔ ہم تخمیناً تین سو وہ تقریباً ایک ہزار آخر اکثر مسلمان آمادہ جنگ ہوئے اور بدر میں لڑائی ہوئی جس میں کفار کو نمایاں شکست ہوئی۔ یہ تھا آنحضرت ﷺ سے حق بات پر جھگڑنا جو جبرئیل کی معرفت ظاہر بھی ہوچکی تھی اور یہ تھا ان کا موت کی طرف کھینچ کرلے جانا کیونکہ کثرت و شوکت قریش ادھر اپنی قلت و ضعف موت کا ظاہری سبب تھا جو آنکھوں کے روبرو تھا۔ اس لئے ان باتوں میں سے قافلہ کا لوٹنا جس میں کھٹکا نہ تھا ‘ پسند تھا اور اللہ کو تو کافروں کی جڑ کاٹنی اور اسلام کا بالا کرنا منظور تھا۔ چناچہ ایسا ہی ہوا بہت سے کفار مارے گئے بہت سے گرفتار ہو کر آئے۔ ان آیات میں ان باتوں کا ذکر اور مسلمانوں کا گلہ ہے۔
Top