Tafseer-e-Madani - At-Takaathur : 7
ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَیْنَ الْیَقِیْۙنِ
ثُمَّ : پھر لَتَرَوُنَّهَا : ضرور اسے دیکھوگے عَيْنَ الْيَقِيْنِ : یقین کی آنکھ
پھر (سن لو ! ) تمہیں بہرحال دیکھنا ہے اس کو یقین کا دیکھنا
(5) منکرین و مکذبین کو جہنم کے دیکھنے کی تنبیہ و تذکری : سو منکرین کو تنبیہ مزید کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگوں کو یقینا دیکھنا ہے دوزخ کو، پس حیات دنیا کی اسی فرصت میں اس سے بچنے کی فکر کرلو، ورنہ ہمیشہ کے لیے پچھتانا پڑے گا، اور اس سے بچنے کی کوئی صورت تمہارے لیے اے منکرو ممکن نہ ہوگی، والعیاذ باللہ العظیم۔ اور تم لوگوں کو اسے دیکھنا ہوگا عین الیقین کے طور پر، اس کے اندر پڑ کر اور اس کے عذاب میں مبتلا ہوکر، اپنے کفر و عصیان اور اسراف و طغیان کی بناء پر، والعیاذ باللہ العزیز الرحمن۔ حضرت اہل علم کا کہنا ہے کہ یہاں پر رویت یعنی دیکھنے سے مراد اس کے عذاب کا چکھنا ہے ( تفسیر المراغی وغیرہ) سو اس انجام اور منظر کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھا تاکہ تم اس لہو اور غفلت سے بچ سکو، اور اس کے نتیجے میں تم دوزخ کے اس عذاب سے بچ سکو۔ سو اس سے ایک بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کو اس دنیا میں علم الیقین ہی حاصل ہوسکتا ہے، کہ اس کا تعلق آفاق وانفس کے ان دلائل سے ہے، جو قرآن حکیم میں بیان فرما دیے گئے ہیں اور جن سے کائنات کی یہ کھلی کتاب بھری پڑی ہے، رہ گیا عین الیقین تو وہ آخرت ہی میں حاصل ہوگا کہ اس کا تعلق معائنہ اور مشاہدہ سے ہے اور وہ وہیں حاصل ہوسکے گا، اسی لیے یہاں پر اس کا ذکر " ثم " کے کلمہ تراخی سے فرمایا گیا ہے، اور دوسری بات اس ارشاد سے یہ نکلتی ہے کہ ہر عاقل انسان اس بات کا مکلف ہے کہ وہ آفاق وانفس کے ان دلائل میں غور و فکر سے کام لے تاکہ اس طرح وہ علم الیقین کی دولت سے سرفراز ہوسکے، اور یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے کہ جب اس کا یہ غور و فکر قرآن وسنت کی روشنی میں ہو، ورنہ اس کے بغیر دیکھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ والعیاذ باللہ العظیم، من کل زیغ و ضلال۔
Top