Tafseer-e-Mazhari - At-Takaathur : 7
ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَیْنَ الْیَقِیْۙنِ
ثُمَّ : پھر لَتَرَوُنَّهَا : ضرور اسے دیکھوگے عَيْنَ الْيَقِيْنِ : یقین کی آنکھ
پھر اس کو (ایسا) دیکھو گے (کہ) عین الیقین (آ جائے گا)
ثم لترونھا . یعنی پھر قبروں سے اٹھنے کے بعد تم اس کو دیکھ لو گے۔ عین الیقین . رویت اور معاینہ ہم معنی ہیں (اسلئے یہاں علم سے مراد ہے مشاہدہ) عین الیقین لترون کا مفعول مطلق ہے۔ اگرچہ دونوں کا مادہ جدا جدا ہے مگر معنی ایک ہے۔ اس تقریر سے رویت کو اس جگہ بمعنی علم قرار دینے کا قول دفع ہوگیا۔ مطلب یہ ہے کہ تم آنکھوں سے ایسا معائنہ کرلو گے جو یقین کا موجب ہوگا۔ یہی سبب ہے کہ رویت اور مشاہدہ سے جو علم حاصل ہوتا ہے اس کو عین الیقین کہا جاتا ہے۔ رویت چشم حصول علم کا سب سے قوی ذریعہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شنیدہ دیدہ کی طرح نہیں ہوتا۔ خطیب ؓ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے اور طبرانی نے حسن سند کے ساتھ حضرت انس کی روایت سے اس حدیث کو لکھا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے حاکم نے اور طبرانی نے صحیح سند کے ساتھ اس حدیث میں اتنا زائد بھی نقل کیا ہے کہ اللہ نے موسیٰ کو ان کی قوم کی اس حرکت کی اطلاع دی جو گوسالہ کے سلسلہ میں انہوں نے کی تھی۔ موسیٰ نے (خبر پانے کے بعد بھی) توریت کی تختیاں (ہاتھ سے) نہ پھینکیں لیکن قوم کی حرکت کا جب خود مشاہدہ کرلیا تو (غصہ میں) تختیاں پھینک دیں اور وہ ٹوٹ گئیں۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ عین الیقین کا موصوف محذوف ہے یعنی ایسی رویت جو بعینہٖ یقین ہے رویت کو بعینہٖ یقین قرار دینا بطور مبالغہ ہے۔
Top