Tafseer-e-Madani - Hud : 70
فَلَمَّا رَاٰۤ اَیْدِیَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَیْهِ نَكِرَهُمْ وَ اَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةً١ؕ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمِ لُوْطٍؕ
فَلَمَّا : پھر جب رَآٰ اَيْدِيَهُمْ : اس نے دیکھے ان کے ہاتھ لَا تَصِلُ : نہیں پہنچتے اِلَيْهِ : اس کی طرف نَكِرَهُمْ : وہ ان سے ڈرا وَاَوْجَسَ : اور محسوس کیا مِنْهُمْ : ان سے خِيْفَةً : خوف قَالُوْا : وہ بولے لَا تَخَفْ : تم ڈرو مت اِنَّآ اُرْسِلْنَآ : بیشک ہم بھیجے گئے ہیں اِلٰي : طرف قَوْمِ لُوْطٍ : قوم لوط
مگر جب آپ نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے، تو آپ نے ان کو اجنبی سمجھ کر اپنے دل میں ایک خوف سا محسوس کیا، تب انہوں نے کہا ڈرو نہیں، ہمیں تو دراصل (آپ کی طرف نہیں، بلکہ) قوم لوط کی طرف (ان کو عذاب دینے کے لئے) بھیجا گیا ہے2
151 ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے ایک عظیم الشان خوشخبری کا سامان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ آگئے ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس اس عظیم الشان خوشخبری کے ساتھ جو کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے ایک عظیم الشان خوشخبری تھی۔ اور جس کے لے جانے کی ذمہ داری ان فرشتوں کو سونپی گئی تھی۔ اور جو خاص اہمیت کی حامل خوشخبری تھی کہ ان کو بڑھاپے کی اس عمر میں ایک عظیم الشان اور ہونہار بچے سے نوازا جانے والا تھا جو عمر کے عام قاعدہ اور ضابطہ کے مطابق بچے کی نعمت کی سرفرازی کی عمر نہیں ہوتی۔ سو اس بشری " خوشخبری " سے مراد جیسا کہ آگے آیت نمبر 71 میں تصریح فرمائی گئی ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بطور خاص نوازا گیا تھا۔ بہرکیف اب آگے حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کی قوم کی سرگزشت سنائی جارہی ہے اور یہ آیت کریمہ اس سرگزشت کی تمہید کے طور پر یہاں وارد ہوئی ہے۔ اس لیے کہ جو فرشتے قوم لوط کے لیے عذاب لے کر آئے تھے وہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے بیٹے اور پوتے کی یہ خوشخبری لے کر آئے تھے۔ 152 ۔ پیغمبر نہ عالم غیب ہوتے ہیں نہ مختار کل : سو ارشاد فرمایا گیا کہ پھر کچھ دیر نہ گزری تھی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے ان معزز مہمانوں کے لیے ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔ جو پلا ہوا اور ایک موٹا تازہ بچھڑا تھا۔ کماجآء فی مقام اخر (بِعِجلٍ سَمِین) ۔ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی کمال مہمان نوازی کا ثبوت ہے کہ کسی کے یہاں اچانک اجنبی اور اوپرے چوپرے مہمان آجائیں اور وہ فورا موٹا تازہ بچھڑا ذبح کرکے وہ بھون کرکے ان کے سامنے لاکر رکھ دے۔ کیا اس مہمان نوازی کی کوئی اور مثال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سوا اور کہیں بھی مل سکتی ہے ؟۔ علیہ وعلی نبینا افضل الصلوات واتم التسلیمات۔ مگر جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان حضرات کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے تو آپ کو ان سے خوف محسوس ہوا۔ تب انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو تسلی دیتے ہوئے ان سے کہا کہ آپ ڈریں نہیں (ہم تو دراصل فرشتے ہیں اور) ہمیں قوم لوط کی طرف (ان کو عذاب دینے کے لیے) بھیجا گیا ہے سو اس قصہ سے یہ امر واضح ہوگیا کہ پیغمبر عالم غیب اور مختار کل نہیں ہوتے۔ جیسا کہ آج کل کے بدعتی ملاؤں نے سمجھ رکھا ہے۔ ورنہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نہ ان فرشتوں کے لیے اس طرح بچھڑا بھون کر لاتے اور نہ ہی ان کے نہ کھانے سے وہ اس طرح پریشان اور خوف زدہ ہوتے۔ سو اس قصہ سے اہل بدعت کے علم غیب کلی اور اختیار کلی جیسے خود ساختہ شرکیہ عقائد کی جڑ نکل جاتی ہے۔ والحمد للہ رب العالمین۔
Top