Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 110
قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠   ۧ
قُلْ : فرما دیں اِنَّمَآ اَنَا : اس کے سوا نہیں میں بَشَرٌ : بشر مِّثْلُكُمْ : تم جیسا يُوْحٰٓى : وحی کی جاتی ہے اِلَيَّ : میری طرف اَنَّمَآ : فقط اِلٰهُكُمْ : تمہارا معبود اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : واحد فَمَنْ : سو جو كَانَ : ہو يَرْجُوْا : امید رکھتا ہے لِقَآءَ : ملاقات رَبِّهٖ : اپنا رب فَلْيَعْمَلْ : تو اسے چاہیے کہ وہ عمل کرے عَمَلًا : عمل صَالِحًا : اچھے وَّ : اور لَا يُشْرِكْ : وہ شریک نہ کرے بِعِبَادَةِ : عبادت میں رَبِّهٖٓ : اپنا رب اَحَدًا : کسی کو
اور کج فہموں سے یہ بھی کہو کہ سوائے اس کے نہیں کہ میں ایک بشر اور انسان ہوں تم ہی جیسا فرق صرف یہ ہے کہ میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے اس مرکزی مضمون کی کہ معبود تم سب لوگوں کا بہرحال ایک ہی معبود ہے پس جو کوئی امید و آرزو رکھتا ہو اپنے رب سے ملنے کی تو اس کو چاہیے کہ وہ نیک کام کرتا رہے اور کسی بھی طور پر وہ شریک نہ ٹھہرائے اپنے رب کی عبادت و بنددگی میں کسی کو۔2
155 پیغمبر کو اپنی بشریت کے اعلان و اظہار کا حکم و ارشاد : سو آنجناب کو حکم وارشاد فرمایا گیا کہ " ان لوگوں سے کہو (اے پیغمبر ! ) کہ بلاشبہ میں تم ہی جیسا ایک بشر (اور انسان) ہوں "۔ اپنی اصل فطرت اور حقیقت نفس الامری کے اعتبار سے کہ میں عبد اللہ کا بیٹا، آمنہ کی آنکھ کا تارا، خدیجہ ؓ اور عائشہ ؓ کا شوہر، زینب ؓ ، رقیہ ؓ ، ام کلثوم ؓ اور فاطمہ ؓ کا باپ، عربی، قریشی اور ہاشمی ہوں۔ کھانے پینے، خوشی غمی اور شادی بیاہ وغیرہ کے تمام لوازم بشریہ رکھتا ہوں۔ البتہ وحی کے جس شرف سے میرے رب نے اپنے کرم سے مجھے نوازا ہے اس کے باعث اس نے میرا درجہ و مقام اپنی مخلوق میں سب سے بڑا کردیا ہے۔ ورنہ اپنی اصل کے اعتبار سے میں تم ہی جیسا ایک بشر اور انسان ہوں۔ کسی خدائی صفت کے مجھ میں پائے جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پس نہ تو میں عالم غیب ہوں نہ مختار کل اور نہ ہر جگہ موجود رہنا میری شان ہوسکتی ہے اور نہ ہی میں نے کبھی اس طرح کا کوئی دعویٰ ہی کیا ہے کہ یہ سب باتیں بشریت کے منافی ہیں۔ تو پھر تم لوگ مجھ سے ایسی نشانیوں کا مطالبہ کس طرح کرتے ہو جن کا تعلق خدائی صفات سے ہے ؟ سو دیکھئے کہ کس صراحت و وضاحت کے ساتھ اور ادوات حصر و تاکید کے ساتھ پیغمبر کی بشریت طاہرہ کا اعلان فرمایا جا رہا ہے۔ مگر اہل بدعت ہیں کہ اس سب کے باوجود اپنے شرکیہ عقائد پر اڑے ہوئے ہیں اور پیغمبر کی بشریت صادقہ اور عبدیت کاملہ کے انکار پر گویا ادہار کھائے بیٹھے ہیں۔ اور اس کے لئے وہ اس طرح کی صاف وصریح نصوص کریمہ میں طرح طرح کی تاویلات و تحریفات سے کام لیتے ہیں۔ مثلاً ان کے بعض بڑوں نے یہاں پر لکھتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ میں محض ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے تم ہی جیسا بشر ہوں مگر ان سے کوئی پوچھے کہ اول تو ۔ { اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ } ۔ کے ترجمہ میں ظاہری شکل و صورت کی قید آخر ہے کہاں ؟ اور یہ آخر کس لفظ کا ترجمہ ہے ؟ اور جب ایسا کوئی لفظ یہاں پر موجود نہیں اور یقینا موجود نہیں تو پھر یہ ایک بالکل بےجا بات ہے جو خواہ مخواہ قرآن پاک کے ترجمہ میں گھسیڑی جارہی ہے۔ سو اس طرح ان لوگوں کی یہ بات تحریف کے زمرے میں آتی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور دوسرے یہ کہ کیا تمہارے نزدیک آنحضرت ﷺ اپنی ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے کفار و مشرکین کی طرح تھے ؟ ۔ والعیاذ باللہ ۔ جس حسن بےمثال کے سامنے چاند کا حسن وجمال بھی شرمائے اس کو تم لوگ کفار و مشرکین کی ظاہری شکل و صورت کے برابر قرار دیتے ہو ؟ اور اس کے باوجود دعویٰ یہ رکھتے ہو کہ ہم عاشق رسول ﷺ ہیں ؟ ۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔ بہرکیف یہ سب لچر باتیں ہیں جو اس طرح کے لوگ کرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم من کل زیغ و ضلال وسوء و انحراف۔ اللہ ہمیشہ راہ حق وصواب پر مستقیم و ثابت قدم رکھے ۔ آمین۔ 156 شرک کی ممانعت اور ایک عظیم الشان وظیفہ کی تعلیم و تلقین : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " جو کوئی اپنے رب کی ملاقات اور اس کے حضور پیشی کی امید رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ وہ نیک عمل کرے اور شریک نہ ٹھہرائے وہ اپنے رب کی عبادت (و بندگی) میں کسی کو "۔ کہ معبود برحق وہی اور صرف وہی ہے۔ پس ہر قسم کی عبادت اسی وحدہ لاشریک کا حق ہے۔ اس میں کسی کو بھی شریک کرنا جائز نہیں۔ نہ اس کی ذات وصفات میں اور نہ اس کے حقوق اختیارات میں۔ پس اس کے سوا نہ کسی کو عالم غیب جانے اور نہ مختار کل اور نہ ہر جگہ حاضر و موجود مانے۔ اور نہ ہی اس کے سوا کسی کو حاجت روا و مشکل کشا جانے۔ نہ کسی کے لئے سجدہ کرے نہ قیام و رکوع اور نہ ہی کسی اور کے نام کی نذر و نیاز دے وغیرہ وغیرہ۔ کہ یہ سب کچھ اسی وحدہ لاشریک کا حق اور اسی کا اختصاص ہے۔ کیونکہ یہ سب عبادت کی مختلف قسمیں اور شکلیں ہیں۔ اور عبادت کی ہر قسم اور ہر شکل اسی وحدہ لاشریک کا حق ہے کہ معبود برحق بہرطور وہی اور صرف وہی ہے۔ بہرکیف اس ارشاد ربانی سے واضح فرما دیا گیا کہ اپنے رب کی عبادت و بندگی میں کسی کو بھی کسی بھی درجے میں شریک نہ ٹھہرائے کہ شرک توحید کی ضد اور تمام اعمال کو برباد کردینے والی آفت ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ حق تعالیٰ کی رضا و خوشنودی سے سرفرازی اور آخرت کی فوز و فلاح کا دار و مدار تین چیزوں پر ہے۔ نمبر ایک ایمان و یقین کہ اس کے بغیر کسی بھی عمل کا اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی وزن نہیں۔ نمبر دو صدق و اخلاص کہ جو عمل کرے وہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لیے کرے اور شرک جلی اور شرک خفی یعنی ریاکاری سے بچ کر رہے۔ اور نمبر تین یہ کہ عمل عمل صالح ہو۔ یعنی قرآن و سنت کی تعلیمات مقدسہ کے مطابق ہو ۔ وباللہ التوفیق ۔ یہاں پر حدیث میں ایک عظیم الشان وظیفہ بھی تعلیم فرمایا گیا ہے۔ چناچہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے سورة کہف کی تلاوت کی وہ آٹھ دنوں تک فتنوں سے محفوظ رہے گا۔ اور اگر اس دوران دجال کا خروج ہوگیا تو اللہ تعالیٰ اس کی دجال کے فتنے سے حفاظت فرمائے گا۔ اور جس نے سوتے وقت اس کی آخری آیت ۔ { قل انما انا بشر } ۔ الخ پڑھی تو اسے ایک ایسا عظیم الشان نور نصیب ہوگا جو اس کے بستر سے لے کر مکہ مکرمہ تک روشن ہوگا اور اس میں ایسے فرشتے ہوں گے جو اس کے لیے اس کے اٹھنے تک دعائیں کرتے رہیں گے۔ اور اگر وہ اس آیت کریمہ کی تلاوت مکہ مکرمہ میں کرے گا تو اس کے بستر سے ایک ایسا نور بلند ہوگا جو بیت المعمور تک جائے گا اور اس میں ایسے فرشتے ہوں گے جو اس کے بیدار ہونے تک اس کے لیے دعا و استغفار کرتے رہیں گے۔ (مدارک التنزیل للامام النسفی ) ۔ وبا اللہ التوفیق لمایحب ویرید وعلی مایحب ویرید
Top