Dure-Mansoor - Al-Kahf : 110
قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠   ۧ
قُلْ : فرما دیں اِنَّمَآ اَنَا : اس کے سوا نہیں میں بَشَرٌ : بشر مِّثْلُكُمْ : تم جیسا يُوْحٰٓى : وحی کی جاتی ہے اِلَيَّ : میری طرف اَنَّمَآ : فقط اِلٰهُكُمْ : تمہارا معبود اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : واحد فَمَنْ : سو جو كَانَ : ہو يَرْجُوْا : امید رکھتا ہے لِقَآءَ : ملاقات رَبِّهٖ : اپنا رب فَلْيَعْمَلْ : تو اسے چاہیے کہ وہ عمل کرے عَمَلًا : عمل صَالِحًا : اچھے وَّ : اور لَا يُشْرِكْ : وہ شریک نہ کرے بِعِبَادَةِ : عبادت میں رَبِّهٖٓ : اپنا رب اَحَدًا : کسی کو
آپ فرمایا دیجئے کہ میں تو بشر ہی ہوں تمہارے جیسا میری طرف یہ وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود، سو جو شخص اپنے رب کی ملاقات کی آرزو رکھتا ہو سو چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔
1:۔ ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب میں ابن عباس ؓ سے (آیت) ” فمن کان یرجوا لقآء ربہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسرے معبودوں کی بھی عبادت کرتے تھے اور یہ ایمان والوں کے بارے میں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اچھی امید رکھنا چاہئے : 2:۔ عبدالرزاق، ابن ابی دنیا نے اخلاص میں طبرانی اور حاکم نے طاوس (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے نبی میں موقف حج میں ٹھہرتا ہوں اور اللہ کی رضا مندی کو چاہتا ہوں اور میں یہ بھی پسند کرتا ہوں کہ میرے یہاں ٹھہرنے کو دیکھا جائے (یعنی لوگ مجھے دیکھ لیں) آپ نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” فمن کان یرجوا لقآء ربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا “۔ حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے اور بیہقی نے طاوس سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے موصولا روایت کیا ہے۔ 3:۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ مسلمانوں میں سے جو (کافروں سے) لڑتا تھا اور وہ یہ بات پسند کرتا تھا کہ اس کے جہاد کو دیکھا جائے (یعنی لوگ دیکھ کر خوش ہوں) تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (آیت) ” فمن کان یرجوا لقآء ربہ “۔ 4:۔ ابن مندہ، ابونعیم نے الصحابۃ میں اور ابن عساکر نے سدی صیغر کے طریق سے کلبی سے اور انہوں نے ابوصالح سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جندب بن زھیر جب نماز پڑھتا یا روزہ رکھتا یا صدقہ کرتا تو ارد گرد لوگوں میں اپنے عمل کا تذکرہ سنتا تو وہ اس سے خوش ہوتا اور وہ اس (نیک عمل) میں اور زیادتی کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کی ملامت فرمائی اور اس بارے میں یہ (آیت) ” فمن کان یرجوا لقآء ربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا “۔ 5:۔ ھناد نے زہد میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ! میں صدقہ کرتا ہوں اور اس سے میرا مقصد رضائے الہی بھی ہوتا ہے اور میں اس بات کو بھی محبوب رکھتا ہوں کہ میرے لئے خیر کی بات کہی جائے (یعنی میری تعریف کی جائے) تو یہ (آیت) ” فمن کان یرجوا لقآء ربہ “ (الآیۃ) 6:۔ ھناد، ابن منذر، ابن ابی حاتم نے اور بیہقی نے سعید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فمن کان یرجوا لقآء ربہ “۔ یعنی اپنے رب کے ثواب (کی امیدرکھتا ہے) (آیت) ” فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک “ یعنی (کسی نیک عمل میں) دکھاوا نہیں کرتا (آیت) ” بعبادۃ ربہ احدا “۔ (اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ 7:۔ ابن ابی حاتم نے دوسری سند سے سعید بن جبیر (رح) سے (آیت) ” فمن کان یرجوا لقآء ربہ “ کے بارے میں فرمایا کہ جو شخص آخرت میں اٹھنے سے ڈرتا ہو (آیت) ” فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا “۔ (تو پھر نیک عمل کرے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے) اس کی مخلوق میں سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا تمہارے رب فرماتے ہیں میں شریک سے بہتر ہوں جو شخص اپنے عمل میں میرے ساتھ کسی کو شریک کرے گا میری مخلوق میں سے تو میں اس کے سارے عمل کو اس شریک کے لئے چھوڑدیتا ہوں اور میں قبول نہیں کرتا مگر صرف اس عمل کو جو خالص میرے لئے ہو پھر نبی کریم ﷺ نے یہ (مذکورہ) آیت تلاوت فرمائی۔ 8:۔ ابن ابی حاتم نے کثیر بن زیادہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حسن ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” فمن کان یرجوا لقآء ربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا “۔ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا یہ مومن کے بارے میں نازل ہوئی میں نے کہا کیا وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے فرمایا نہیں لیکن عمل کے لئے شرک کرتا ہے کہ جس سے وہ اللہ تعالیٰ اور لوگوں (کی خوشنودی) کا ارادہ کرتا ہے تو (یہ عمل) اس پر رد کردیا جاتا ہے۔ 9:۔ ابن ابی حاتم نے عبدالواحد بن زید (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حسن ؓ سے کہا مجھے ریاکاری کے بارے میں بتائیے کیا وہ شرک ہے ؟ فرمایا اے میرے بیٹے ہاں (وہ شرک ہے) کیا تو نے نہیں پڑھا (آیت) ” فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا “۔ 10:۔ طبرانی نے شداد بن اوس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ پہلوں اور پچھلوں کو ایک میدان میں جمع فرمائیں گے اور ایک آنکھ ان کو دیکھے گی اور ایک بلانے والا ان کو (اپنی بات) سنائے گا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں شریک سے بہتر ہوں ہر وہ عمل جو اس دنیا میں میرے لئے کیا گیا اور اس میں غیر لوگوں کو بھی شریک کیا گیا تو میں آج اس کو چھوڑتا ہوں اور آج کے دن میں صرف اس عمل کو قبول کروں گا جو خالص میری رضا کے لئے ہوگا پھر یہ (آیت) ” الا عباد اللہ المخلصین “ الصافات آیت 20) پڑھی اور یہ بھی پڑھا (آیت) ” فمن کان یرجوا لقآء ربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا “۔ 11:۔ ابن سعد، احمد، ترمذی، ابن ماجہ اور بیہقی نے ابو سعد بن ابی فضالہ انصاری ؓ جو صحابہ میں سے تھے سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جب اللہ تعالیٰ پہلوں اور پچھلوں کو جمع فرمائیں گے اس دن میں جس میں کوئی شک نہیں ایک آواز دینے والا آواز دے گا جس شخص نے ایسے عمل میں کسی ایک کو شریک کیا جو اللہ کے لئے کیا تھا تو اس کو چاہئے کہ اس کا ثواب غیر اللہ سے طلب کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ شریکوں کے شرک سے مستغنی ہیں۔ 12:۔ حاکم اور بیہقی نے (حاکم نے تصحیح بھی کی ہے) ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ایک آدمی اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اور وہ دنیا کی عزت کو بھی چاہتا ہے آپ نے فرمایا اس کے لئے کوئی اجر نہیں لوگوں کو یہ جواب بڑا عجیب لگا اس آدمی نے پھر اپنے (سوال کو) دھرایا تو آپ نے پھر فرمایا اس کے لئے کوئی اجر نہیں۔ 13:۔ ابن ابی الدنیا نے اخلاص میں حاکم، ابن مردویہ اور بیہقی نے (حاکم نے تصحیح بھی کی) شداد بن اوس ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ریاکاری کو چھوٹے شرک میں شمار کرتے تھے۔ 14:۔ احمد، ابن ابی الدنیا، ابن مردویہ، حاکم اور بیہقی نے (حاکم نے تصحیح بھی کی ہے) شداد بن اوس ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے دکھاوے کے لئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا جس نے دکھاوے کے لئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا جس نے دکھاوے کے لئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا پھر یہ (آیت) ” فمن کان یرجوا لقآء ربہ “ پڑھی۔ 15:۔ طیالسی، احمد اور ابن مردویہ نے شداد بن اوس ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا میں بہترین تقسیم کرنے والا ہوں اس شخص کے لئے جو میرے ساتھ شرک کرتا ہے جس نے میرے ساتھ ذرا بھی شرک کیا اور اس کا عمل تھوڑا ہے یا زیادہ تو وہ اس کے شریک کے لئے جس کو اس نے شریک بنایا ہے تو میں اس (عمل) سے بےنیاز ہوں۔ 16:۔ بزار، ابن مندہ، بیہقی اور ابن عساکر نے عبدالرحمن بن غنم ؓ سے روایت کیا کہ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے دکھاوے کے لئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوے کے لئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا انہوں نے کہا ہاں (میں نے سنا ہے) لیکن رسول اللہ ﷺ نے یہ (آیت) ” فمن کان یرجوا لقآء ربہ “ تلاوت فرمائی صحابہ ؓ پر یہ بات بھاری ہوئی اور ان پر سخت گذری تو آپ نے فرمایا کیا میں تمہارے لئے اس کی وضاحت نہ کردو ؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا ضرور (وضاحت کیجئے) یا رسول اللہ ﷺ آپ نے فرمایا یہ آیت کی طرح ہے جو سورة روم میں ہے یعنی (آیت) ” وما اتیتم من ربالیربوا فی اموال الناس فلا یربوا عنداللہ “ الروم آیت 279) جس نے دکھاوے کا عمل کیا نہ وہ اس کے حق میں لکھا جائے گا اور نہ اس کے خلاف۔ 17:۔ احمد، حکیم، ترمذی، حاکم، اور بیہقی نے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چھپا ہوا شرک یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو دکھانے کے لئے نماز پڑھتا ہے۔ 18۔ احمد، ابن ابی حاتم، طبرانی، حاکم اور بیہقی نے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) شداد بن اوس ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں اپنی امت پر شرک اور چھپی ہوئی شہوت سے ڈرتا ہوں میں نے عرض کیا کیا آپ کی امت آپ کے بعد شرک کرے گی ؟ آپ نے فرمایا ہاں بلاشبہ وہ لوگ نہیں عبادت کریں گے سورج اور نہ چاند کی اور نہ پتھر کی اور نہ کسی بت کی لیکن وہ عمل کریں گے لوگوں کے دکھاوے کے لئے میں عرض کیا یا رسول اللہ چھپی ہوئی شہوت کیا ؟ آپ نے فرمایا ان میں کوئی آدمی روزہ کی حالت میں صبح کرے گا اس کی خواہش ابھرے گی تو وہ روزہ چھوڑ کر اپنی خواہش پوری کرے گا۔ 19:۔ احمد، مسلم، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، اور بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ اپنے رب کریم سے روایت کرتے ہیں کہ میں شرکاء سے بہتر ہوں جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا کہ اس میں میرے علاوہ کسی اور کو بھی شریک کیا تو میں اس سے وہ جس کو اس نے شریک ٹھہرایا دونوں سے بری ہوں۔ ریاکاری خوفناک ہے : 20:۔ احمد اور بیہقی نے محمود بن لبید (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا زیادہ خوف کرنے و الی چیز جس کا میں تم پر خوف کرتا ہوں وہ چھوٹا شرک ہے صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ چھوٹا شرک کیا ہے ؟ فرمایا وہ ریا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے جب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیں گے کہ تم ان لوگوں کے پاس جاؤ کہ جن کے لئے تم دنیا میں عمل کرتے تھے اور جا کر دیکھ لو کیا تم ان کے پاس اپنے اعمال کا بدلہ پاتے ہو ؟۔ 21:۔ بزار اور بیہقی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن بنی آدم کے اعمال اللہ عزوجل کے آگے پیش ہوں گے ایک مہر لگے ہوئے صحیفوں میں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ان صحیفوں کو پھینک دو اور ان کو قبول کرلو تو فرشتے کہیں گے اے میرے رب اللہ کی قسم ہم نے اس سے خیر کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیکھا تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اس کا عمل میری رضا مندی کے لئے نہ تھا اور میں آج کے دن ایسے عمل کو قبول کروں گا جو میری رضا مندی کے لئے کیا گیا ہو۔ 22:۔ بزار، ابن مردویہ اور بیہقی نے ایسی سند کے ساتھ جس میں حرج نہیں ضحاک بن قیس (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں بہترین شریک ہوں جس نے میرے ساتھ کسی کو شریک کیا تو (وہ عمل) میرے شریک کے لئے ہوگا اے لوگو ! خالص اللہ کی رضا کے لئے عمل کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اعمال کو قبول نہیں فرماتے مگر جو ان کے لئے کیا جائے اور تم یہ نہ کہو کہ یہ اللہ کے لئے ہے اور یہ رحم کے لئے ہوگا اور اس میں اللہ کے لئے کوئی چیز نہ ہوگی۔ 23:۔ حاکم نے (اور صحیح بھی کہا ہے) عبداللہ بن عمر و ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے جہاد اور غزوہ کے بارے میں بتائیے فرمایا اے عبداللہ اگر تو نے (دشمن سے) قتال کیا صبر کرتے ہوئے اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے تو اللہ تعالیٰ تجھ کو صبر کرنے و الا اور ثواب کی امید رکھنے والا بنا کر اٹھائیں گے اگر تو دکھاوے اور مال بڑھانے کے لئے جہاد کرتا رہے گا تو جس حال پر بھی تو قتل کرے گا یا قتل کیا جائے گا اللہ تعالیٰ اسی حال میں تجھ کو اٹھائیں گے۔ 24:۔ احمد، دارمی، نسائی، رویانی، ابن حبان، طبرانی، حاکم نے (اور آپ نے صحیح بھی کہا ہے) یحییٰ بن ولید بن عبادہ (رح) سے روایت کیا کہ کہ وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے جہاد کیا اور وہ جہاد میں صرف جانور باندھنے کی رسی کی نیت کرتا ہے تو اس کے لئے وہی ہوگا جس کی اس نے نیت کی۔ 25:۔ حاکم نے یعلی بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے اپنی جنگوں میں بھیجا کرتے تھے ایک دن مجھے بھیجا ایک آدمی سواری پر تھا (جنگ کے لئے) میں نے اس سے کہا چلو ؟ اس نے کہا میں تیرے ساتھ نہیں نکلوں گا میں نے کہا کیوں ؟ اس نے کہا یہاں تک کہ تو میرے لئے تین دینار مقرر کر میں نے کہا ابھی جبکہ میں نے نبی کریم ﷺ کو الوداع کیا میں آپ کی طرف لوٹنے والا نہیں ہوں مجھے ساتھ لے چل ساتھ لے چل اور تیرے لئے تین دینار ہوں گے (یعنی میں تجھ کو تین دینار دوں گا) جب میں اپنے غزوہ سے واپس آیا اور یہ بات نبی کریم ﷺ سے ذکر کی تو آپ نے فرمایا اس کو تین دینار دے دو کیونکہ اس کے غزوہ میں سے اس کا یہی حصہ ہے۔ ریاکاری کے لئے جہاد کرنے کا وبال : 26:۔ ابوداود، نسائی اور طبرانی نے سند جید کے ساتھ ابوامامہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا مجھے بتائیے ایک آدمی نے جنگ کی جس میں وہ اجر کو بھی طلب کرتا ہے اور شہرت کو بھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسکے لئے کچھ بھی نہیں ہے اس نے تین مرتبہ (سوال کو) دہرایا یا رسول اللہ ﷺ (جواب میں) فرماتے ہے اس کے لئے کوئی چیز نہیں پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کوئی عمل قبول نہیں فرماتے مگر جو خالص اس کی راضا مندی کے لئے اور اس کے ذریعہ صرف اس کی ذات مطلوب ہو۔ 27:۔ طبرانی نے سند جید کے ساتھ ابودرداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دنیا لعنت کی ہوئی ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے سوائے اس عمل سے جس میں مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہو۔ 28:۔ ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، ابن ماجہ اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں جندب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص لوگوں کو سنانے کے لئے عمل کرے گا (یعنی شہرت اور ناموری کا طالب ہے) تو اللہ تعالیٰ اس کو سنانے کی جزا دے گا اور جو شخص دکھاوے کا عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو دکھاوے کی سزا دے گا۔ 29:۔ ابن ابی شیبہ اور احمد نے عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو شخص خطبہ دینے کھڑا ہوا اور اس میں وہ ریا کاری اور شہرت کو چاہتا ہے تو اللہ عزوجل قیامت کے دن اس کو ریاکاری اور شہرت کی جگہ پر کھڑا کریں گے (اور لوگوں کے سامنے اس کو رسوا کریں گے ) ۔ 30:۔ ابن ابی شیبہ اور احمد نے ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے دکھاوا کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو دکھاوے کی سزا دے گا اور جو شخص اپنانیک عمل لوگوں کو سنانا چاہتا ہے (یعنی شہرت چاہتا ہے) تو اللہ تعالیٰ اسے شہرت کی سزا دے گا۔ 31:۔ ابن ابی شیبہ نے محمود بن لبید ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم چھپے ہوئے شرک سے بچو صحابہ ؓ نے عرض کیا چھپا ہوا شرک کیا ہے ؟ فرمایا کہ جو شخص تم میں سے اپنی نماز پوری کوشش سے ادا کرتا ہے تاکہ لوگ اس کی طرف دیکھیں تو یہ چھپا ہوا شرک ہے۔ نماز کو ریا کاری سے بچانا : 32:۔ ابن ابی شیبہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جس شخص نے نماز پڑھی اور لوگ اس کو دیکھ رہے ہیں تو اس کو چاہئے ایسے نماز پڑھے جیسے علیحدگی میں نماز پڑھتا ہے ورنہ استہانت ہوگی کہ جس کے ذریعہ وہ اپنے رب کی استہانت کرتا ہے۔ ابن ابی شیبہ نے حضرت حذیفہ ؓ سے اسی روایت کیا۔ 33:۔ بیہقی نے عمروبن عبسہ ؓ سے روایت کیا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو دنیا کو لایا جائے تو اس میں علیحدہ کردیا جائے گا جو عمل اللہ کے لئے ہوگا اور جو غیر اللہ کے لئے ہوگا پھر اس کے ساتھ جہنم کی آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ 34:۔ ابن ابی شیبہ نے ابوموسی اشعری سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو ایک دن خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا اے لوگو شرک سے بچو کیونکہ چیونٹی کے رینگنے بھی زیادہ چھپا ہوا ہے صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا ہم اس سے کیسے بچیں حالانکہ وہ چیونٹی کے رینگنے سے بھی زیادہ چھپا ہوا ہے یا رسول اللہ آپ نے فرمایا تم اس طرح کہو اے اللہ ہم آپ کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں جس کو ہم جانتے ہیں اور ہم استغفار کرتے ہیں جس کو ہم نہیں جانتے۔ 35:۔ ابن ابی شیبہ، ابن منذر اور بیہقی نے شعب الایمان میں عبادہ بن صامت ؓ نے بیان فرمایا کہ قیامت کے دن دنیا کو لایا جائے گا اور کہا جائے گا علیحدہ کردو جو اللہ کے لئے تھا تو اسے علیحدہ کردیا جائے گا پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے باقی سب کو آگ میں ڈال دو ۔ 36:۔ حاکم اور بیہقی نے شعب الایمان میں (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تھوڑا سار یا بھی شرک ہے اور جس شخص نے میرے کسی ولی (دوست) سے دشمنی کی (گویا) اس نے اللہ تعالیٰ سے اعلان جن کیا بلاشبہ اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں چھپے ہوئے متقی لوگوں کو وہ لوگ جب غائب ہوجائیں۔ تو ان کو تلاش نہ کیا جاتا اور اگر حاضر ہوں تو ان کو بلایا نہیں جاتا اور وہ پہچانے نہیں جاتے ان کے دل تاریکیوں کے چراغ ہیں وہ ہر غبار آلود تاریک جگہ سے نکلیں گے۔ 37:۔ بیہقی نے (آپ نے اس کو ضعیف بھی کہا ہے) ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی کے (ضائع ہونے سے) بچنا عمل کرنے سے زیادہ سخت ہے بلاشبہ ایک آدمی عمل کرتا ہے اس کے لئے نیک عمل لکھا جاتا ہے جس کو پوشیدہ کیا گیا ہے اس کے اجر کو ستر گنا زیادہ کردیا جاتا ہے شیطان اس کے ساتھ برابر لگا رہتا ہے کہ وہ اپنے عمل کو لوگوں کے سامنے ذکر کرے تو وہ لوگوں کے سامنے ذکر کردیتا ہے پس وہ عمل علانیہ لکھا جاتا ہے اس کو جو پہلے پوشیدہ عمل کی ستر گنا اجر دیا تھا وہ مٹا دیا جاتا ہے پھر شیطان برابر اس کے ساتھ لگا رہتا ہے حتی کے وہ شخص دوبارہ اپنے عمل کو لوگوں کے سامنے ذکر کرتا ہے پھر وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے (نیک عمل کو) یاد کیا جائے اور اس پر اس کی تعریف بھی کی جائے تو علانیہ (عمل کرنے) سے بھی مٹا دیا جاتا ہے اور ریاکاری کا عمل لکھ دیا جاتا ہے پس اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا وہ شخص ہے جس نے اپنے دین کو بچا لیا کیونکہ ریاشرک ہے۔ 38:۔ احمد اور بیہقی نے ابوامامہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بلاشبہ میرے نزدیک میرے سب سے اچھے دوست قدرومنزلت کے لحاظ سے وہ آدمی جو نماز پڑھنے والا ہو اور خفیہ طور پر اللہ تعالیٰ کی اچھی عبادت کرنے والاوہ ہے جو لوگوں سے چھپ کر عبادت کرتا ہے اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ نہیں کئے جاتے اس کو موت جلد آجاتی ہے اس کی میراث کم ہوتی ہے اور اس پر رونے والیاں کم ہوتی ہیں۔ 39:۔ ابن سعد، احمد اور بیہقی نے ابوہند الداری ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو شخص ریا کاری اور شہرت کے مقام پر کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی قیامت کے دن اس کے دکھاوے اور شہرت کا اظہار کریں گے۔ 40:۔ بیہقی نے عمر بن نفررحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ جہنم میں ایک وادی ہے جس سے جہنم بھی پناہ مانگتی ہے ہر دن چار سو مرتبہ یہ قرأ حضرات میں سے ریا کاری کرنے والوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔ 41:۔ بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا تم اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو غم کے کنوئیں سے پوچھا گیا اس میں کون ٹھہریں گے فرمایا اپنے اعمال کے ساتھ ریا کاری کرنے والے۔ 42:۔ بیہقی نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں ہر وہ شخص جس نے کوئی عمل کیا اور اس کے ذریعہ میرے علاوہ کسی اور کا ارادہ کیا تو میں اس (عمل) سے بری ہوں۔ 43:۔ ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بچو تم چھوٹے شرک سے صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا چھوٹا شرک کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ ریاکاری ہے جس دن اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیں گے تو فرمائیں گے ان لوگوں کی طرف جاؤ کہ جن کے دکھاوے کے لئے تم عمل کرتے تھے جاکر دیکھ لو کیا تم انکے پاس کوئی بدلہ پاتے ہو۔ 44:۔ ابونعیم نے حلیہ میں محمد بن حنفیہ (رح) سے روایت کیا کہ ہر وہ عمل جس سے اللہ کی رضا مقصد نہ ہو تو وہ کمزور ہوتا ہے۔ 45:۔ اب ابی شیبہ اور احمد نے ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو محمد ﷺ کے اصحاب ؓ نے فرمایا اے ابوالعالیہ غیر اللہ کے لئے کوئی عمل نہ کر ورنہ اللہ عزوجل تجھے اس شخص کے سپرد کردیں گے کہ جس کے لئے تو نے عمل کیا۔ 46:۔ ابن ابی شیبہ نے ربیع بن خیثم (رح) سے روایت کیا کہ جس عمل میں اللہ عزوجل کی رضا مندی کا ارادہ نہ کیا گیا ہو تو وہ کمزور ہوتا ہے۔ 47:۔ ابن ضریس نے فضائل قرآن میں اسماعیل بن ابی رافع (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو ایسی سورة نہ بتاوں اس کی عظمت نے آسمان و زمین کے درمیانی خلا کو بھردیا ہے اور ستر ہزار فرشتوں نے اس کی پیروی کی اور وہ ہے سورة الکہف جو شخص اس کو جمعہ کے دن پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ ایک جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک اور اس کے بعد تین دن تک کے گناہوں کو صاف کردیں گے اور ایسا نور عطا فرمائیں گے جو آسمان تک پہنچے گا اور اس کو دجال کے فتنے سے بچایا جائے اور جو شخص اس کے آخر سے پانچ آیات پڑھے گا جب وہ اپنے بستر پر لیٹے گا تو اس کی حفاظت کی جائے گی اور رات کے جس وقت میں وہ چاہے اٹھ جائے۔ 48:۔ ابن جریر اور ابن مردویہ نے معاویہ بن ابی سفیان ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے یہ آیت (آیت) ” فمن کان یرجوا لقآء ربہ “ تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ قرآن میں سب سے آخر میں نازل ہونے والی یہ آیت ہے۔ 49:۔ طبرانی اور ابن مردویہ نے ابوحکیم (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میری امت پر سورة کہف کی آخری آیات کے علاوہ کچھ بھی نازل نہ ہوتا تو (یہ آیات) ان کے لئے کافی ہوتیں۔ 50:۔ ابن راھویہ، بزار، ابن مردویہ، حاکم، شیرازی نے القاب میں (حاکم نے صحیح بھی کہا) عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص رات میں (آیت) ” فمن کان یرجوا لقآء ربہ “ پوری آیت پڑھے گا تو اس کے لئے نور ہوگا عدن سے لے کر مکہ مکرمہ تک فرشتوں سے بھرا ہوا ہوگا۔ 51:۔ ابن ضریس نے ابودرداء ؓ سے روایت کیا کہ جس شخص نے سورة کہف کی آخری آیات کی حفاظت کی تو قیامت کے دن اس کے لئے نور ہوگا اس سر سے اس کے قدموں تک۔ الحمد للہ سورة الکہف مکمل ہوئی :
Top