Tafseer-e-Madani - Maryam : 12
یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ١ؕ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ
يٰيَحْيٰى : اے یحییٰ خُذِ : پکڑو (تھام لو) الْكِتٰبَ : کتاب بِقُوَّةٍ : مضبوطی سے وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے اسے دی الْحُكْمَ : نبوت۔ دانائی صَبِيًّا : بچپن سے
پھر جب یحییٰ پیدا ہو کر سن شعور کو پہنچ گئے تو ان کو حکم ہوا اے یحییٰ مضبوطی سے تھام لو تم ہماری کتاب کو اور ہم نے انھیں بچپن ہی میں نواز دیا تھا حکم سے
13 فرزند زکریا حضرت یحییٰ کا ذکر : سو جب حضرت زکریا کے وہ فرزند گرامی یعنی حضرت یحیٰی سنِّ شعور کو پہنچ گئے تو ان کو یہ ہدایت فرمائی گئی۔ یہاں پر حذف و ایجاز اور اختصار و اندماج ہے کہ حضرت یحییٰ کی پیدائش سے لے کر بلوغ تک کے تمام مراحل کا تذکرہ چھوڑ دیا گیا۔ (روح، قرطبی، ابن کثیر اور فتح القدیر وغیرہ) ۔ کیونکہ ایک تو یہ سب کچھ خودبخود معلوم ہوسکتا ہے، اس لئے اس کو فہم سامع پر چھوڑ دیا گیا۔ اور دوسرے اس لئے کہ اس میں یہ درس بھی ہے کہ قرآن حکیم کوئی تاریخ اور قصے کہانیوں کی کتاب نہیں کہ قصے کو پورے کا پورا اور بالترتیب بیان کیا جائے۔ بلکہ یہ کتاب کتاب ہدایت ہے۔ اس میں قصے کا بیان اسی حد تک اور اسی انداز میں ہوتا ہے جس کا تعلق حق و ہدایت سے ہوتا ہے اور بس۔ اور تیسرا بڑا درس اس سے یہ ملتا ہے کہ اصل مقصد قصہ گوئی یا مولود اور میلاد کا ذکر و تذکرہ نہیں، بلکہ اصل مقصود تو دعوت و تبلیغِ حق کا وہ کام ہوتا ہے جس کے لئے حضرات انبیائے کرام کی بعثت اور ان کی تشریف آوری ہوتی ہے۔ اس لئے اصل مقصود وہی دعوت اور تبلیغ ہوتی ہے مگر اہل بدعت ہیں کہ اس اصل مقصد کو پس پشت ڈال کر سارازور محافل میلاد منعقد کرنے ہی پر صرف کرتے ہیں ۔ الا ماشاء اللہ ۔ والی اللّٰہ المشتکیٰ - 14 حضرت یحییٰ کو مضبوطی سے کتاب تھامنے کا حکم وارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اے یحیٰی مضبوطی سے تھام لو ہماری کتاب کو "۔ یعنی تورات کو جو کہ اس دور کی کتاب ہدایت تھی۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور کتاب مراد ہو جو خاص ان کو دی گئی ہو اور جس کا علم ہمیں نہ ہو۔ (المراغی، المحاسن، فتح القدیر وغیرہ) ۔ بہرکیف ان کو حکم دیا گیا کہ ہماری اس کتاب کو مضبوطی سے پکڑو کہ اس کو پوری محنت سے سیکھو پڑھو اور اس کی تعلیمات و ارشادات کے مطابق عمل کرو۔ (روح، معارف اور محاسن وغیرہ) ۔ سو اس ارشاد ربانی میں کامیابی کیلئے دو اہم اور بنیادی باتوں کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے۔ ایک یہ کہ نصاب تعلیم صحیح ہو۔ اور یہ بات اپنی جگہ طے اور واضح ہے کہ صحیح نصاب تعلیم کا انتخاب اللہ تعالیٰ کی وحی کی روشنی کے بغیر ممکن نہیں۔ کیونکہ نور وحی سے محرومی کے بعد ۔ والعیاذ باللہ ۔ اندھیرے ہی اندھیرے ہیں۔ اور دوسری بات یہ بھی واضح فرما دی گئی کہ نصاب تعلیم سے استفادہ اور فیضیابی اسی صورت میں ممکن ہوسکتی ہے جبکہ اس پر صدق دل اور پوری محنت اور لگن سے عمل کیا جائے ۔ وباللہ التوفیق ۔ بہرکیف حضرت یحییٰ کو جو کتاب الہی کو مضبوطی سے تھامنے کی ہدایت فرمائی گئی تو اس کا مطلب و مفہوم یہ ہے کہ شیطان اور اس کے دوست جو اس کتاب ہدایت کے ابدی دشمن ہیں وہ تمہیں اس سے برگشتہ کرنے کے لیے پورا زور لگائیں گے اور ہر حربہ استعمال کریں گے۔ اس لیے تم ان کے داؤ پیچ اور حیلوں حوالوں سے خبردار اور محتاط رہنا۔ سو حضرت یحییٰ نے اس ہدایت خداوندی کی پوری طرح نگہداشت اور پاسداری کی اور اس کو ہر طرح سے نبھایا۔ یہاں تک کہ اس کی خاطر اپنا سر بھی کٹوا دیا ۔ علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام - 15 حضرت یحییٰ کے لیے بچپن ہی سے حکم کی نوازش : سو ارشاد فرمایا کہ " ہم نے ان کو بچپن ہی میں حکم سے نواز دیا تھا "۔ یعنی حکمت اور دین کی سمجھ اور خیر کی طرف توجہ سے۔ چناچہ روایات میں وارد ہے کہ آپ کو بچپن میں جب دوسرے بچوں نے ایک مرتبہ اپنے ساتھ کھیلنے کے لئے کہا تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہم کھیلنے کے لئے نہیں پیدا کئے گئے ۔ " مَا نَحْنُ لللَّعْبِ خُلِقْنَا " ۔ (ابن کثیر، فتح القدیر، المراغی وغیرہ) ۔ اور یہ اتنی بڑی حکمت کی بات ہے کہ آج تک دنیا کے بڑے بڑے مفکر اور دانشور بھی اس سے محروم ہیں اگرچہ وہ چاند تک پہنچ چکے ہوں اور مریخ پر ڈورے ڈالنے کی تگ و دو میں لگے ہوں ۔ الا ماشاء اللہ ۔ سو یہ سب لوگ نہ صرف یہ کہ اس اہم حکمت سے غافل و بیخبر ہیں، بلکہ یہ لوگ مادیت کے اس دور میں طرح طرح کے وسائل و ذرائع سے پوری دنیا کو اسی غفلت میں جکڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اور اس غرض کیلئے وہ طرح طرح کے جال دن رات بن رہے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور بعض حضرات نے یہاں پر " حکم " سے نبوت بھی مراد لی ہے کہ آپ کو اور حضرت عیسیٰ کو بچپن ہی میں نبوت سے سرفراز فرما دیا گیا تھا۔ (تفسیر کبیر وغیرہ) ۔ مگر جمہور کے نزدیک راحج قول پہلا ہی ہے۔
Top