Tafseer-e-Madani - Maryam : 35
مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ یَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ١ۙ سُبْحٰنَهٗ١ؕ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُؕ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلّٰهِ : اللہ کیلئے اَنْ : کہ يَّتَّخِذَ : وہ بنائے مِنْ : کوئی وَّلَدٍ : بیٹا سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے اِذَا قَضٰٓى : جب وہ فیصلہ کرتا ہے اَمْرًا : کسی کام فَاِنَّمَا : تو اس کے سوا نہیں يَقُوْلُ : وہ کہتا ہے لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : پس وہ ہوجاتا ہے
اللہ کے شایان نہیں کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے، وہ پاک ہے، اس کو جب کوئی کام کرنا ہوتا ہے تو وہ صرف اتنا فرماتا ہے کہ ہوجا پس وہ ہوچکا ہوتا ہے
44 اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتنزیہ کا ذکر وبیان : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ پاک ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ ہر طرح کے نقص و عیب اور ہر ضرورت و محتاجی سے۔ اور وہ پاک ہے ہر قسم کے شرک اور شوائبِ شرک سے۔ تو پھر اس کی کوئی اولاد کیسے ہوسکتی ہے ؟ اور اس کا کوئی شریک کیونکر ممکن ہوسکتا ہے ؟ نہ اس کا کوئی شریک وسہیم ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ خود کسی کی اولاد۔ اس کی شان ۔ { لم یلد ولم یولد } ۔ کی شان ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ پس حضرت عیسیٰ میں خدائی کا کوئی شائبہ تک نہ تھا۔ وہ خداوند قدوس کی قدرت کے نمونے اس کی طرف سے بخشی ہوئی پاکیزہ روح اور اس کے کلمہ و فرمان تھے اور بس ۔ علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام ۔ سو اللہ تعالیٰ اس طرح کی تمام نسبتوں سے پاک اور ان سے اعلی وبالا ہے۔ بیٹوں کی ضرورت وحاجت اس کو ہوتی ہے جو اپنے ارادوں اور منصوبوں کو بروئے کار لانے میں کسی کا محتاج ہوتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے اعلی وبالا ہے۔ وہ جب کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو اس کو صرف اتنا کہنا اور فرمانا ہوتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوچکا ہوتا ہے۔ سو حضرت عیسیٰ کی خرق عادت ولادت بھی ان کی الوہیت کی دلیل نہیں بلکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے کلمہ کن کا کرشمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب چاہا کہ وہ یوں ہی پیدا ہوں تو وہ اس کے کلمہ کن سے بغیر باپ کے توسط کے یونہی پیدا ہوگئے ۔ (علیہ السلام) -
Top