Tafseer-e-Madani - Ar-Ra'd : 17
وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا
وَنَادَيْنٰهُ : اور ہم نے اسے پکارا مِنْ : سے جَانِبِ : جانب الطُّوْرِ : کوہ طور الْاَيْمَنِ : داہنی وَقَرَّبْنٰهُ : اور اسے نزدیک بلایا نَجِيًّا : راز بتانے کو
اور ہم نے ان کو پکارا طور کی دائیں جانب سے اور ان کو اپنے قرب سے نوازا راز کی باتیں کرنے کے لیے،
61 حضرت موسیٰ کی نداء و پکار کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا " اور ہم نے موسیٰ کو پکارا دائیں جانب سے "۔ یعنی حضرت موسیٰ کے اعتبار سے کہ وہ آپ کی دائیں جانب واقع تھا۔ ورنہ بذات خود پہاڑ کی تو کوئی دائیں اور بائیں جانب نہیں ہوسکتی۔ اور بعض نے کہا کہ یہ لفظ یمین سے نہیں یمن سے ماخوذ و مشتق ہے جس کے معنیٰ خیر و برکت کے آتے ہیں۔ یعنی ہم نے ان کو اس برکت والے مقام سے پکارا اور اس وادی کو تقدس کا یہ مرتبہ و شرف اس لیے حاصل ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی جلوہ گاہ ہونے کا شرف بخشا۔ اور یہاں پر حضرت موسیٰ سے کلام فرمایا ۔ وَالْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی ۔ بہرکیف اس میں حضرت موسیٰ کو عطا فرمائے جانے والے خاص شرف اور مرتبہ کا ذکر ہے کہ جب آپ کا مدین سے مصر واپس جاتے ہوئے وہاں سے گزر ہوا اور آپ (علیہ السلام) نے کوہ طور پر ایک آگ سی جلتی دیکھی تو آپ (علیہ السلام) اس سے آگ حاصل کرنے کیلئے وہاں پہنچے تو آگے ہم نے آپ کو منصب نبوت اور شرف کلام سے نوازا۔ (المراغی، محاسن التاویل وغیرہ) ۔ اور حضرت موسیٰ کے اس خاص شرف و امتیاز کی وضاحت کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے اس موقعہ پر حضرت موسیٰ کو قرب خاص سے نواز کر راز و نیاز اور سرگوشی کے انداز میں کلام فرمایا۔ اور یہ اس لیے ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے عام طور پر حضرات انبیائے کرام سے اپنے مقرب و معتمد فرشتے حضرت جبریل امین ہی کے ذریعے ہی کلام فرمایا۔ حضرت جبریل کے واسطے کے بغیر حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ نے اس سے پہلے کسی سے بھی اس طرح کلام نہیں فرمایا۔ یہ شرف حضرت موسیٰ ہی کو حاصل ہوا کہ آپ سے اس طرح بغیر واسطے کے براہ راست کلام فرمایا گیا۔ بیچ میں تیسرا کوئی حائل نہیں تھا۔ اسی لیے آپ کا لقب " کلیم اللہ " قرار پایا ۔ علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام ۔ اس لیے حضرت موسیٰ کے ذکر کا حکم وارشاد فرمایا گیا۔
Top