Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 19
اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌ١ۚ یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ١ؕ وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ
أَوْ کَصَيِّبٍ : یا جیسے بارش ہو مِنَ السَّمَاءِ : آسمان سے فِيهِ : اس میں ظُلُمَاتٌ : اندھیرے ہوں وَرَعْدٌ : اور گرج وَبَرْقٌ : اور بجلی يَجْعَلُونَ : وہ ٹھونس لیتے ہیں أَصَابِعَهُمْ : اپنی انگلیاں فِي آذَانِهِمْ : اپنے کانوں میں مِنَ الصَّوَاعِقِ : کڑک کے سبب حَذَرَ الْمَوْتِ : موت کے ڈر سے وَاللَّهُ : اور اللہ مُحِيطٌ : گھیرے ہوئے ہے بِالْکَافِرِينَ : کافروں کو
یا (ان کی مثال ایسے ہے) جیسے آسمان سے اترنے والی زور دار بارش ہو، جس میں اندھیرے بھی ہوں اور (زور کی) گرج اور چمک بھی یہ لوگ بجلی کی کڑک کی (ہولناک) آوازوں کی بنا پر موت کے ڈر کے مارے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونسے جا رہے ہوں، اور اللہ نے پوری طرح گھیرے میں لے رکھا ہے ایسے تمام کافروں کو5
49 قرآن حکیم رحمت خداوندی کی ایک زور دار بارش : " صیّب " اوپر سے اترنے والی زور دار بارش کو کہا جاتا ہے۔ پس قرآن حکیم وہ زور دار بارش ہے جو حضرت حق جل جلالہ کی طرف سے اس کی مخلوق کی سیرابی اور نفع رسانی کے لئے نازل فرمائی گئی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ ظاہری اور حسی بارش تو ظاہری زمین پر اترتی، اور اسی کو سیراب کرتی ہے، اور اسی کو گل و گلزار بناتی ہے، جبکہ قرآن حکیم کی معنوی اور روحانی بارش دلوں کی دنیا پر برستی، اور اس کی زندگی کا ذریعہ بنتی ہے، اور جس طرح ظاہری اور حسی طور پر برسنے والی بارش کو برسنے سے روکنا کسی کے بس میں نہیں، اسی طرح قرآن پاک کی دلوں کی زمین کو سیراب کرنے والی اس معنوی اور عظیم الشان روحانی بارش کو روکنا بھی کسی کے بس میں نہیں ہوسکتا۔ اور جس طرح ظاہری بارش کے رکنے اور بند ہوجانے سے یہ ظاہری زمین بنجر اور ویران ہوجاتی ہے، اسی طرح جو لوگ قرآن کی اس روحانی اور بابرکت بارش کی سیرابی سے محروم ہیں، ان کے دلوں کی دنیا بھی اجاڑ اور بنجر و ویران ہے، خواہ وہ اپنے آپ کو کچھ بھی کیوں نہ سمجھتے ہوں، اور مادی ترقی کے اعتبار سے وہ کہیں سے کہیں بھی کیوں نہ پہنچ چکے ہوں، لیکن ان کے باطن مردہ اور ان کے دلوں کی دنیا اجاڑ و بیابان اور بنجر و ویران ہے۔ آج تو ایسے لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی لیکن کل قیامت کے روز سب کچھ عیاں ہوجائے گا۔ 50 قرآنی وعیدیں منافقوں کیلئے رعد و برق : سو جس طرح زور دار بارش میں سخت قسم کے اندھیرے بھی ہوتے ہیں اور زور دار گرج اور چمک بھی اسی طرح منافقوں کی یہ قسم قرآنی وعیدوں اور تخویفوں کے سننے پر ایسا کرتی ہے (کبیر، قرطبی، معالم، اور جواہر، وغیرہ) ۔ سو مومن صادق تو اس روحانی اور بابرکت بارش کے ان عظیم الشان فوائد وثمرات کو دیکھتا ہے جو اس کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز اور مالا مال کردینے والے ہوتے ہیں، جبکہ منافق کی نگاہ کوتاہ صرف ان وقتی اور عارضی فوائد میں اٹک کر اور الجھ کر رہ جاتی ہے، جو اس کی اس فانی اور عارضی زندگی سے متعلق ہوتے ہیں اور بس۔ اسی لئے وہ جہاد میں مال غنیمت وغیرہ کے حصول کیلئے تو شامل اور شریک ہونا چاہتا ہے، لیکن موت کے خوف سے اس سے بھاگنے کے حیلے بہانے ڈھونڈتا ہے، جبکہ مومن صادق اس میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے، اور شہادت سے سرفراز ہونے کی تمنا کرتا اور اس کا شوق رکھتا ہے، سو اس طرح مومن صادق اپنے صدق و اخلاص کی بناء پر ہر وقت اور ہر حال میں سکون و اطمینان کی دولت سے مالا مال اور سرشار ہوتا، اور اجر وثواب کی کمائی کرتا اور اس کی دولت جوڑتا اور جمع کرتا جاتا ہے، جبکہ منافق سکون و اطمینان سے بھی محروم ہوتا ہے اور اجر وثواب کی دولت سے بھی، اور اس کے خسارے ہی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا ۔ 51 اللہ تعالیٰ کے احاطے سے مقصود و مراد : یعنی اللہ نے گھیرے میں لے رکھا ہے سب کافروں کو اپنے علم اور اپنی قدرت کے اعتبار سے۔ پس اہل کفر و باطل قدرت و علم الہٰی کے دائرے سے باہر نہیں ہوسکتے۔ سو اس قادر مطلق نے ان سب کو اپنی قدرت کا ملہ اور علم شامل کے اعتبار سے پوری طرح اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ پس نہ کوئی اس کے علم سے باہر ہوسکتا ہے، اور نہ ہی کوئی اس کی گرفت اور پکڑ سے بچ کر نکل سکتا ہے، سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو ان کو اپنے کئے کا بھگتان بہر حال بھگتنا ہے، کسی طور بچ نہیں سکیں گے، کانوں میں انگلیاں ٹھونسنے، یا اپنی آنکھوں کو بند کرلینے سے یہ اس کے دائرہ علم وقدرت سے تو باہر نہیں ہوسکتے، والعیاذ باللہ العظیم۔ پس ہمیشہ تعلق اپنے اس خالق ومالک سے صحیح اور درست رکھا جائے، یہ اس کا اس کے بندوں پر حق بھی ہے اور اسی میں ان کیلئے دنیا و آخرت کا بھلا ہے۔ وَبِاللّٰہ التَّوْفِیْق لِمَا یُحِبُّ وَیُرِیْد وہو والہادی الی سواء السبیل -
Top