Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 61
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰى طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا وَ قِثَّآئِهَا وَ فُوْمِهَا وَ عَدَسِهَا وَ بَصَلِهَا١ؕ قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ هُوَ اَدْنٰى بِالَّذِیْ هُوَ خَیْرٌ١ؕ اِهْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَكُمْ مَّا سَاَلْتُمْ١ؕ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ١ۗ وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ١ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۠   ۧ
وَاِذْ قُلْتُمْ : اور جب تم نے کہا يَا مُوْسٰى : اے موسیٰ لَنْ نَصْبِرَ : ہم ہرگز صبر نہ کریں گے عَلٰى طَعَامٍ : کھانے پر وَاحِدٍ : ایک فَادْعُ : دعا کریں لَنَا : ہمارے لئے رَبَّکَ : اپنا رب يُخْرِجْ : نکالے لَنَا : ہمارے لئے مِمَّا : اس سے جو تُنْبِتُ : اگاتی ہے الْاَرْضُ : زمین مِنْ : سے (کچھ) بَقْلِهَا : ترکاری وَقِثَّائِهَا : اور ککڑی وَفُوْمِهَا : اور گندم وَعَدَسِهَا : اور مسور وَبَصَلِهَا : اور پیاز قَالَ : اس نے کہا اَتَسْتَبْدِلُوْنَ : کیا تم بدلنا چاہتے ہو الَّذِیْ : جو کہ هُوْ اَدْنٰی : وہ ادنی بِالَّذِیْ : اس سے جو هُوْ : وہ خَيْرٌ : بہتر ہے اهْبِطُوْا : تم اترو مِصْرًا : شہر فَاِنَّ : پس بیشک لَكُمْ : تمہارے لئے مَّا سَاَلْتُمْ : جو تم مانگتے ہو وَضُرِبَتْ : اور ڈالدی گئی عَلَيْهِمُ : ان پر الذِّلَّةُ : ذلت وَالْمَسْکَنَةُ : اور محتاجی وَبَآءُوْا : اور وہ لوٹے بِغَضَبٍ : غضب کے ساتھ مِنَ اللہِ : اللہ کے ذٰلِکَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لئے کہ وہ کَانُوْا يَكْفُرُوْنَ : جو انکار کرتے تھے بِاٰيَاتِ اللہِ : اللہ کی آیتوں کا وَيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے النَّبِيِّیْنَ : نبیوں کا بِغَيْرِ الْحَقِّ : ناحق ذٰلِکَ : یہ بِمَا : اس لئے کہ عَصَوْا : انہوں نے نافرمانی کی وَّکَانُوْا : اور تھے يَعْتَدُوْنَ : حد سے بڑھنے والوں میں
اور3 (وہ بھی یاد کرو کہ) جب تم نے کہا کہ اے موسیٰ ہم ہرگز صبر نہیں کرسکتے ایک ہی طرح کے کھانے پر، پس آپ ہمارے لئے درخواست کریں اپنے رب سے، کہ وہ ہمارے لئے نکالے ان چیزوں میں سے جن کو زمین اگاتی ہے، جیسے ساگ، (کھیرے) ککڑی، گہیوں، مسور، اور پیاز، (وغیرہ) تو موسیٰ نے فرمایا کہ کیا تم لوگ ادنیٰ چیز کو لینا چاہتے ہو، اس کے بدلے میں، جو کہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے ؟4 اچھا تو اترجاؤ تم لوگ کسی شہر میں، وہاں تمہیں وہ سب کچھ مل جائے گا جو تم نے مانگا ہے، اور (آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ) چپکا دی گئی ان پر ذلت (و خواری) اور پستی (و بدحالی) اور لوٹے یہ لوگ اللہ کی طرف سے (آنے والے) ایک بڑے ہی ہولناک غضب کے ساتھ5، یہ اس لئے کہ یہ لوگ کفر کرتے تھے اللہ (پاک) کی آیتوں کے ساتھ، اور قتل کرتے تھے (اس کے) نبیوں کو ناحق طور پر6، (اور) یہ اسلئے کہ یہ لوگ نافرمانی کرتے تھے (اپنے رب کی) اور یہ لوگ تجاوز کرتے تھے، (اس کی مقرر کردہ حدوں سے)7
178 بنی اسرائیل کی ناشکری اور جسارت کی ایک اور مثال : یہ بنی اسرائیل کے بےادبانہ انداز تخاطب اور گنوارپن کا ایک مظہر ہے کہ اپنے پیغمبر کو نام لیکر پکارتے اور مخاطب کرتے ہیں۔ حالانکہ اپنے سے بڑے کو نام لیکر پکارنا تہذیب و ثقافت سے گری ہوئی بات، اور ایک گستاخانہ طریقہ ہے۔ اسی لئے پورے قرآن پاک میں کسی ایک جگہ بھی آنحضرت ﷺ کو آپ ﷺ کے نام نامی سے پکار کر مخاطب نہیں فرمایا گیا، یعنی کسی ایک مقام پر بھی آپ کو " یا محمد "، کہہ کر نہیں پکارا گیا، بلکہ آپ ﷺ کو کسی نہ کسی وصف کے ساتھ ہی مخاطب فرمایا گیا ہے، جیسے " یٰآ أُیُّہا النَّبِیُّ "، " یٰآ ایُّہا الرَّسُوْلُ "، " یٰآ اَُیُّہا الْمّزمِّل " اور " یَآ أیَّہَا الْمُدَّثِّرُ " وغیرہ۔ اہل بدعت کے ایک بڑے صاحب نے بھی بنی اسرائیل کے اس گستاخانہ انداز کا ذکر اس مقام پر اپنے تفسیری حواشی میں کیا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود اہل بدعت " یا محمد " کہنے پر گویا ادھار کھائے بیٹھے ہیں، اپنے در و دیوار پر، اپنی کتابوں رسالوں کے صفحات پر، اپنی گاڑیوں مشینوں وغیرہ کی پیشانیوں پر، اپنے کتبات و لوحات پر، اپنے اشتہارات اور سٹیکروں وغیرہ وغیرہ پر وہ دھوم دھڑلے سے، اور ہانکے پکارے اس طرح لکھتے، پکارتے، اور اعلان کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس گستاخانہ جسارت پر نظمیں بھی بنائی ہیں مثلاً پنجابی میں ایک نظم اس طرح بنائی ہے، " اسیں یا محمد کہندے رہنا اے، انہاں وہابیاں جلدے رہنا اے "، یعنی " ہم یا محمد کہتے رہیں گے اور یہ وہابی ۔ اللہ والے۔ جلتے رہیں گے " جسارت ملاحظہ ہو کہ اللہ پاک نے تو اپنی کتاب حکیم قرآن مجید میں کسی ایک مقام پر بھی " یا محمد " نہیں فرمایا۔ مگر ان اہل بدعت کا دھوم دھڑلے سے اور فخریہ انداز میں کہنا ہے کہ ہم ایسے کہتے ہیں اور کہتے رہیں گے، سو جہالت، ضد اور ہٹ دھرمی ایسے ہی گل کھلاتی ہے ۔ وَالْعِیَاذُ بَاللّٰہ ۔ یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ اللہ پاک تو چونکہ سب کا خالق ومالک ہے، اس کی ذات اقدس و اعلی سب سے بڑی اور مقدس وبالا اور دائرہ مخلوق سے وراء الوراء اور سب کی خالق ومالک ذات ہے، اس لئے وہ جس کو بھی چاہے اور جیسے چاہے خطاب فرما سکتا ہے، اور انبیاء سابقین ۔ علیھم الصلوۃ والسلام ۔ کو اس نے ان کے اسمائے گرامی کے ساتھ خطاب فرمایا بھی ہے، جیسے " یَااٰدَمُ "، " یَانُوْحُ "، " یَاہُوْدُ "، " یَا مُوْسٰی " اور " یا عیسیٰ " وغیرہ وغیرہ۔ مگر اس کے باوجود پورے قرآن پاک میں کسی ایک مقام پر بھی آنحضرت ﷺ کو " یا محمد " سے خطاب نہیں فرمایا، حضرت حق جلّ جَلَالُہٗ کا یہ انداز بھی ملاحظہ ہو، اور اہل بدعت کی وہ جسارت و جہالت بھی، جس کا ذکر ابھی اوپر ہوا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کو اس طرح بےادبانہ انداز میں خطاب کرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتوں کی ناقدری کرتے ہوئے حضرت موسیٰ سے کہا کہ ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے۔ والعیاذ باللہ من کل زیغ و انحراف بکل حال من الاحوال وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ ۔ 179 ہر کوئی اللہ پاک ہی کی رحمت و عنایت کا محتاج ہے : سو انہوں نے حضرت موسیٰ سے یہ نہیں کہا کہ ایسی چیزیں آپ ہمیں دے دو یا دلوا دو ۔ بلکہ یہ کہا کہ آپ اپنے رب کے حضور درخواست و وعا کرو کہ وہ ہمیں یہ عطا فرما دے۔ کیونکہ سب کچھ اسی وحدہ لاشریک کے قبضہ ٔ قدرت و اختیار میں ہے۔ اور اسی کی مشیت و ارادہ پر موقوف ہے ۔ سبحانہ تعالیٰ ۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل طرح طرح کی گمراہیوں، خرابیوں، اور اخلاقی گراوٹوں کے باوجود، شرکیات کے اس مہیب اور ہولناک گڑھے میں اس حد تک نہیں گرے تھے جس میں آج کے بہت سے کلمہ گو مشرک گرے ہوئے ہیں، کہ انہوں نے کتنے ہی مشکل کشا اور حاجت روا ازخود گھڑ رکھے ہیں، اور جو اپنی حاجت روائیوں اور مشکل کشائیوں کے لئے طرح طرح کی مصنوعی " سرکاروں " اور " آستانوں " کے آگے، جھکتے، ان کو چومتے چاٹتے، ان کے گرد طواف کرتے، پھیرے مانتے، چکر لگاتے، بکرے کاٹتے، ان پر چادریں چڑھاتے، تعزیے کے گھوڑے کے نیچے سے گزرتے، اور کیا کیا کچھ کرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ یہاں تک کہ ہمارے ملک میں اہل بدعت کے ایک مشہور گویا مولوی صاحب ہوا کرتے تھے جو ابھی کچھ ہی سال قبل دنیا سے رخصت ہوگئے، وہ بھرے جلسوں میں اس طرح گوہر افشانی فرمایا کرتے تھے کہ " اوہ وہابیا ! تیری گولی قبض کشا ہوسکتی ہے، تو علی مشکل کشا کیوں نہیں ہوسکتے ؟ " اور آگے سے ان کو اس پر نعرہ رسالت، نعرہ حیدری اور نعرہ غوثیہ جیسے نعروں کی گونج سے داد ملا کرتی تھی ۔ فَإنَّا لِلّٰہ وَاِنَّآ اِلَیْہ رَاجِعُوْنَ ۔ دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کیا کہتی اور بتاتی ہیں، اور یہ لوگ کیسے اندھے اور اوندھے ہورہے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو حاجت روا و مشکل کشا سب کا ایک ہی ہے، یعنی اللہ وحدہ لاشریک، سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ وہی ہے جو کسی کا محتاج نہیں اور باقی تمام مخلوق اسی کی محتاج ہے۔ اور ہر حال میں اور ہر چیز میں اس کی محتاج ہے۔ اور سب کچھ اسی وحدہ لا شریک کے قبضہ قدرت واختیار میں ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 180 بنی اسرائیل کی ناشکری اور ان کی محرومی کا ایک مظہر اور نمونہ : یعنی " منَّ وسلویٰ " کی اس قدرتی غذاء کے بدلے میں، جو کہ قدرت کی طرف سے تمہیں مفت، بلامعاوضہ اور بغیر کسی محنت و مشقت، کے مل رہی ہے، جو کہ پاکیزہ، بےغل و غش اور بغیر کسی حساب و کتاب کے تمہیں مل رہی ہے، اور اس طرح تمہیں شاہی ضیافت اور شاہی اکرام و اعزاز کا جو عظیم الشان شرف نصیب ہو رہا ہے، وہ اس سب سے کہیں بڑھ کر ہے جو تم مانگ رہے ہو، آخر تمہاری مت کہاں اور کیسے ماری گئی، اور تم لوگ کہاں اور کس قدر گر چکے ہو ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سبحان اللہ ۔ کیسا اعزاز ان کو ملا تھا، اور کس قدر ناشکری کا مظاہرہ انہوں نے کیا ۔ والعیاذ باللہ ۔ اسی طرح محروم اور بدبخت لوگوں کی مت ماری جاتی ہے، جس سے وہ الٹے اور اوندھے ہو کر رہ جاتے ہیں، اور ان کی فکر و سوچ کے دھارے ٹیڑھے ہوجاتے ہیں، اور وہ نعمت کو اپنے لیے نقمت اور عذاب بنالیتے ہیں، اور حق و صداقت سے دور اور نفور ہو کر محرومی در محرومی کی طرف بڑھے چلے جاتے ہیں۔ اور ان کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف یہاں تک بنی اسرائیل کے ان انعامات اور احسانات کا ذکر فرمایا گیا جن سے حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ نے ان کو اپنی قدرت و عنایت سے نوازا۔ اور اب ان کی ان شرارتوں اور شرانگیزیوں کا ذکر فرمایا جا رہا ہے جن سے ان ناشکرے لوگوں نے کام لیا۔ سو ایک طرف تو قدرت کی یہ عظیم الشان نعمتیں ان لوگوں پر برستی گئیں اور دوسری طرف ان کے تمرد وعناد اور سرکشی و خرمستی میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ کفران نعمت اور اپنی طبعی خست و دناءت کی بنا پر یہ لوگ خسیس کو نفیس پر ترجیح دینے لگے۔ سو اسی سے ان کی شناعتوں اور قباحتوں کے ذکر کا آغاز فرمایا جا رہا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 181 بنی اسرائیل کی ناشکری اور نافرمانی کا نتیجہ و انجام : کہ ان پر ذلت و خواری کا ٹھپہ لگ گیا۔ یعنی ان کی بدنیتی اور بدباطنی کی بناء پر۔ سو " اھبطوا " کے صیغہء امر سے ان کے لئے جس ھبوط و انحطاط کا آغاز ہوگیا تھا، وہ بڑھتا ہی چلا گیا، یہاں تک کہ نوبت اس انجام وزوال کو پہنچ گئی اور انبیاء و رسل کی نسل سے تعلق رکھنے والی یہ قوم " مغضوب علیہم " بن کر رہ گئی ۔ وَالْعِیَاذُ بَاللّٰہ الْعَظِیْم ۔ اور یہی نتیجہ ہوتا ہے معصیت و نافرمانی پر اصرار اور استکبار کا،۔ والعیاذ باللہ ۔ سو صحت و سلامتی کی راہ یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی معصیت و نافرمانی سے ہمیشہ بچتا رہے، اور اگر کبھی نفس و شیطان کے شر سے کسی معصیت و نافرمانی میں گرفتار ہو بھی جائے ۔ والعیاذ با للہ ۔ تو فوراً اپنے رب کی طرف رجوع کرے اور اس سے معافی مانگے، اور وہ بڑا ہی معاف کرنے والا توبہ قبول فرمانے والا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور توبہ اس خالق ومالک کی طرف سے اس کے بندوں کے لیے ایک عظیم الشان عنایت اور رحمت ہے جس سے گناہوں کی وہ ہولناک میل صاف ہوجاتی ہے جو دوزخ میں لے جانے والی میل ہے اور جس کی صفائی اور اس سے رہائی کا توبہ و استغفار اور رجوع الی اللہ کے سوا اور کوئی ذریعہ و وسیلہ نہیں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید ۔ 182 بنی اسرائیل پر ذلّت و خواری کا ٹھپّہ : سو ان کی معصیت و نافرمانی کے اصرار پر ان پر یہ ٹھپہ لگ گیا، جس کا ثبوت ان کی پوری تاریخ سے ملتا ہے کہ اپنی پوری تاریخ میں یہ قوم جگہ جگہ اور طرح طرح سے مرتی پٹتی اور ذلیل و خوار ہوتی رہی، یہاں تک کہ ہماری اسی رواں صدی کے اواسط میں اس پر یہ عذاب نازی جرمنی کے ہٹلر کی شکل میں مسلط ہوا، اور چھ ملین یعنی ساٹھ لاکھ یہود کو اس نے نیست و نابود کردیا، اور اس کا کہنا تھا کہ یہ لوگ جونکیں ہیں، جنہوں نے میری قوم کا خون چوسا ہے، اس لئے ان کو واپس میرے ملک کی دھرتی میں دفن کرو، تاکہ انکا چوسا ہوا وہ خون واپس میرے ملک کی مٹی میں آجائے، چناچہ اس نے اس کام کیلئے سپیشل طور پر خاص قسم کے پلانٹ لگوائے، جن میں ہزاروں کے حساب سے یہودیوں کو گھسیڑا جاتا، اور پھر مشینیں چالو کردی جاتیں، جس سے یہ لوگ ایک سیاہ رنگ کے بہتے مادے کی شکل میں تبدیل ہو کر دوسری طرف سے باہر نکلتے، اس طرح نازی جرمنوں نے اپنے ملک سے گویا اس قوم کی جڑ کاٹ کر رکھ دی، اور اس سے قبل کی طویل ترین تاریخ بھی اس قوم کی ایسی ہی عبرتناک داستانیں پیش کرتی ہے، اسرائیل کی صورت میں پائی جانے والی موجودہ یہودی ریاست سے کسی شبہ میں نہیں پڑنا چاہیئے، اول اس لئے کہ تاریخ کی قدیم ترین قوم ہونے کے اعتبار سے اس کی تو دنیا میں سب سے زیادہ حکومتیں ہونی چاہئیں تھیں، جبکہ آج مسلمانوں کی جو کہ یہود و نصاری میں سب سے آخر میں آنے والی قوم ہے اس کی دنیا میں ساٹھ کے قریب اپنی مستقل حکومتیں ہیں، اور عیسائیوں کی بھی اتنی ہی ہونگی، یا اس سے کچھ کم و بیش، مگر یہود کی یہ چھوٹی سے حکومت جس کی آبادی لاکھوں میں ہے صرف ایک ہی حکومت ہے، اور وہ بھی صدیوں بعد کچھ ہی سال قبل وجود میں آئی۔ دوسرے اس لئے کہ وہ بھی دوسری اسلام دشمن اور استعماری طاقتوں کے سہارے پر کھڑی ہے، جس کا استثناء خود قرآن پاک میں { اِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاس } کے الفاظ کے ساتھ موجود ہے، اور دنیا جانتی ہے کہ آج بھی اگر امریکہ و یورپ وغیرہ کی استعماری طاقتیں اس سے اپنے ہاتھ کھینچ لیں، تو اس کو فلسطینی عوام اکیلے ہی چبا جائیں، اور تیسرے اس لئے کہ اسرائیل کی یہ نام نہاد حکومت بھی ہمیشہ نہیں رہے گی، ایک وقت آئیگا جب یہی ارض فلسطین ان یہود بےبہبود کیلئے قبرستان بنے گی، لیکن یہ کب اور کیسے ہوگا ؟ اس کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، اللہ کی اللہ ہی جانے، البتہ یہ ایک عام قاعدہ اور دستور ہے کہ قوموں کے فیصلے مہینوں سالوں میں نہیں، صدیوں اور قرنوں میں بدلا کرتے ہیں۔ پس اپنے وقت پر یہ لوگ اپنے آخری انجام کو بہرحال پہنچ کر رہیں گے، انشاء اللہ العزیز ۔ اللہ وہ دن جلد دکھائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین ۔ انت ربنا و رب المستضعفین یا ذا القوۃ المتین ۔ 183 بنی اسرائیل کیلئے ایک ہولناک غضب : سو منھل ہدایت و وحمت سے دین حق و ہدایت کے ساتھ لوٹنے کی بجائے یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ہولناک غضب کے ساتھ لوٹے، اپنی کرنیوں کی بناء پر، اور ایسی خباثتوں کی وجہ سے، یہ لوگ ایک ہولناک غضب کے ساتھ لوٹے، اور اس طرح یہ لوگ منصہ شرف سے گر کر قعر مذلّت اور حضیض رسوائی میں جا پڑے ۔ وَالْعِیَاذُ بَاللّٰہ ۔ عام اردو تراجم میں اس کا ترجمہ اللہ کے غضب یا " غضب الہیٰ " وغیرہ الفاظ سے کیا جاتا ہے، مگر حقیقت میں یہ ترجمہ " غضب اللہ " کا ہے جبکہ یہاں پر " بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہ " فرمایا گیا ہے اور ان دونوں تعبیروں میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ عربیت کا ذوق رکھنے والوں پر مخفی نہیں۔ اور مزید یہ کہ تنوین اس میں تفخیم و تہویل کیلئے ہے، اس لئے ہم نے اپنے ترجمہ میں اسی فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ وَ اللّٰہُ الْمُوَفِّقُ ، وَہُوَ مُلْہِمُ الصِّدْق وَ الصَّوَاب ۔ یہاں سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ سورة فاتحہ میں وارد " مغضوب علیہم " کے وصف سے مراد یہی یہود بےبہبود ہیں، کیونکہ قرآن حکیم کی اس آیت کریمہ میں، اور اسی طرح کی بعض دوسری آیات کریمہ میں بھی غضب کا مورد انہی کو قرار دیا گیا ہے، سو انبیائ کرام کی نسل میں سے ہونے کے باوجود ان بدبختوں کے اس ہولناک انجام سے دوچار ہونے میں بڑا درس عبرت و بصیرت ہے، ان لوگوں کیئے جو عبرت پکڑتے اور سبق لیتے ہیں، پس جب تک انسان کا اپنا ایمان و عقیدہ صحیح نہ ہو بڑوں کے انتساب سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا جس کی واضح مثال دنیا میں ان بدبختوں کی شکل میں موجود ہے۔ کہ انبیائے کرام کی اولاد ہونے کے باوجود غضب خداوندی کے مستحق بنے ۔ والعیاذ باللہ ۔ 184 " بِغَیْر الْحَقِّ " کی قید کا فائدہ : " بِغَیْر الْحَق "، " ناحق طور پر " کی یہ قید ان لوگوں کی بدکاریوں کی تشنیع و تاکید کے اظہار کیلئے ہے، ورنہ حضرات انبیائے کرام ۔ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلاَمُ ۔ کا قتل تو ہوتا ہی ناحق ہے، اس کے حق ہونے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا، بلکہ یہ جرم تو وہ جرم ہے جو قیامت کے دن سخت ترین عذاب کا باعث ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ چناچہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ حضرت نبیء معصوم (علیہ الصلوۃ والسلام) نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے روز سب سے زیادہ اور سب سے سخت عذاب اس شخص کو ہوگا جس نے کسی نبی کو قتل کیا ہو، یا جو کسی نبی کے ہاتھوں قتل کیا گیا ہو، اور جو کسی گمراہی کا (موجدو) پیشوا رہا ہو، اور تصویر بنانے والا شخص، (مسند احمد، بحوالہ معارف للکاندہلوی (رح) ) پس " بغیر الحق " کی یہ قید ایسے ہی ہے جیسا کہ ۔ { رَبٍّ احْکُمْ بالْحَقّ } ۔ (الانبیاء 1 12) میں " با لحق " کی قید ہے، کہ وہ بھی محض تاکید اور اظہار واقع کیلئے ہے، ورنہ اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ کا حکم و فیصلہ تو ہوتا ہی حق کے ساتھ ہے۔ بہرکیف اس بدبخت قوم نے قتل انبیاء کے اس ہولناک جرم کا ارتکاب کیا ۔ والعیاذ باللہ جل و علا من کل زیغ وضلال و سوء و انحراف ۔ 185 معاصی وذنوب انسان کو کفر تک پہنچا دیتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ : سو اللہ کی نافرمانی اور اس کی مقرر فرمودہ حدود سے تجاوز شدہ شدہ انسان کو کفر تک لے جاتا ہے۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ اپنے رب کی نافرمانی اور اس پر مداومت و اصرار ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور اس کی مقرر کردہ حدود وقیود سے تجاوز انسان کو شدہ شدہ کفر کی انتہاء تک پہنچا دیتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اسی لئے نبی اکرم ﷺ نے اپنی امت کو گناہوں کو چھوٹا سمجھنے کی خطورت سے سختی کے ساتھ خبردار فرمایا ہے، چناچہ ایک مقام پر آپ ﷺ نے اس ضمن میں ارشاد فرمایا " اِیَّاکُمْ وَأَنْ تُحُقِّروا الذُّنُوْبَ "، " خبردار کہ تم گناہوں کو حقیر سمجھو " کیونکہ کسی گناہ کو چھوٹا سمجھ کر کرنے سے گناہ سے متعلق وہ نفرت دلوں سے آہستہ آہستہ نکلنا شروع ہوجاتی ہے، جو انسان کو گناہ اور برائی سے روکتی اور باز رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ نوبت کفر و الحاد تک جا پہنچتی ہے ۔ وَالْعِیَاذُ بَاللّٰہ ۔ اسی لئے فرمایا گیا " اَلْمَعَاصِیْ بَرِیْدُ الْکُفْر "، " گناہ کفر کی ڈاک اور ذریعہ ہیں " ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور کہا جاتا ہے " اِنَّ مُعْظَمَ النَّار مِنْ مُسْتَصْغَر الشَّرَر " یعنی بڑی آگ کا الاؤ چھوٹی چنگاریوں ہی سے تو بھڑکتا ہے۔ پس امن و سلامتی کی راہ یہ ہے کہ انسان ہر طرح کے گناہوں سے اپنا دامن بچا کر رکھنے کی کوشش کرے، اور ہمیشہ اپنے رب سے اس کی توفیق و عنایت اور راہ حق پر استقامت کی دعاء کرتا رہے، اس سے وہ واہب مطلق اس کو ضرور اپنی رحمت و عنایت سے نوازے گا ۔ وَہُوَ الْہَادِیْ الٰی سَوَائ الصِّرَاط وملہم الصدق والصداق ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین۔
Top