Tafseer-e-Usmani - Maryam : 55
وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ١۪ وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا
وَكَانَ يَاْمُرُ : اور حکم دیتے تھے اَهْلَهٗ : اپنے گھروالے بِالصَّلٰوةِ : نماز کا وَالزَّكٰوةِ : اور زکوۃ وَكَانَ : اور وہ تھے عِنْدَ رَبِّهٖ : اپنے رب کے ہاں مَرْضِيًّا : پسندیدہ
اور حکم کرتا تھا اپنے گھر والوں کو نماز کا اور زکوٰۃ کا8 اور تھا اپنے رب کے یہاں پسندیدہ9
8 کیونکہ گھر والے قریب ہونے کی وجہ سے ہدایت کے اول مستحق ہیں، ان سے آگے کو سلسلہ چلتا ہے۔ اسی لیے دوسری جگہ فرمایا (وَاْمُرْ اَهْلَكَ بالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا) 20 ۔ طہ :132) اور (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا) 66 ۔ التحریم :6) خود نبی کریم ﷺ کو بھی یہ ہی ارشاد ہوا (وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ) 26 ۔ الشعرآء :214) بعض کہتے ہیں کہ یہاں " اہل " سے ان کی ساری قوم مراد ہے۔ چناچہ عبد اللہ بن مسعود ؓ کے مصحف میں " اَہْلَہ،" کی جگہ " قَوْمَہ،" تھا۔ واللہ اعلم۔ 9 یعنی دوسروں کو ہدایت کرنا اور خود اپنے اقوال و افعال میں پسندیدہ مستقیم الحال اور مرضی الخصال تھا۔
Top