Tafseer-e-Madani - Al-Anbiyaa : 3
لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اَسَرُّوا النَّجْوَى١ۖۗ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا١ۖۗ هَلْ هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ١ۚ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ
لَاهِيَةً : غفلت میں ہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاَسَرُّوا : اور چپکے چپکے بات کی النَّجْوَي : سرگوشی الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا (ظالم) هَلْ : کیا ھٰذَآ : یہ اِلَّا : مگر بَشَرٌ : ایک بشر مِّثْلُكُمْ : تم ہی جیسا اَفَتَاْتُوْنَ : کیا پس تم آؤگے السِّحْرَ : جادو وَاَنْتُمْ : اور (جبکہ) تم تُبْصِرُوْنَ : دیکھتے ہو
کہ ان کے دل کہیں اور ہی لگے ہوتے ہیں، اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کی روش کو ہی اپنایا، چپکے چپکے آپس میں سرگوشی کرتے ہیں، کہ یہ شخص تو ہم ہی جیسا ایک بشر (اور انسان) ہے، تو کیا تم لوگ پھر بھی دیدہ دانستہ اس جادو (کے پھندے میں پھنسنے) کو آ رہے ہو ؟2
5 اہل باطل کی اہل حق کیخلاف سرگوشیوں کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ اس طرح کی سرگوشیاں کرتے ہیں تاکہ اس طرح یہ حق کا راستہ روک سکیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اپنی سرگوشیوں اور اس طرح کی مخفی اور راز دارانہ باتوں سے تم لوگ دنیا والوں سے تو اپنے ایسے اقوال و اَفعال کو چھپا سکتے ہو مگر دلوں کے بھید جاننے والے اس علیم وخبیر سے کیسے چھپا سکتے ہو ؟ جو اپنے علم اور اپنی قدرت کے اعتبار سے ہر وقت اور ہر حال میں تمہارے ساتھ ہے ؟ بہرکیف یہ بھی اہل باطل کی ایک قدیم اور مشترکہ نفسیات ہے کہ وہ اہل حق کیخلاف طرح طرح سے سرگوشیاں کرتے اور نت نئے طریقوں سے پروپیگنڈے کرتے ہیں۔ کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس ارشاد میں اہل حق کے لیے کئی اہم درس ہیں۔ مثلا یہ کہ ان کو اہل باطل کی ایسی سرگوشیوں اور رازداریوں سے ہمت نہیں ہارنی چاہیے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ پہلے سے ہی ایسے ہوتا آیا ہے۔ نینز یہ کہ اہل باطل اس طرح مکروہ ہتھکنڈوں سے حق کا راستہ نہ اس سے پہلے روک سکے ہیں نہ آئندہ کبھی روک سکیں گے۔ کیونکہ حق مغلوب ہونے کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ غالب رہنے ہی کے لیے آیا ہے۔ البتہ کبھی ایسے لوگ اپنی اس طرح کی سرگرمیوں سے اپنے لیے ہلاکت و تباہی کا سامان ضرور کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کو یہاں پر { الذین ظلموا } کے عنوان سے تعبیر فرمایا گیا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 6 کفار کا بشریت پیغمبر پر اچنبھا اور اس کا انکار۔ والعیاذ باللہ : کہ یہ شخص تو محض تم ہی جیسا ایک بشر ہے۔ پھر تم اپنے ہی جیسے ایک انسان اور بشر کی اتباع و پیروی کیونکر کرو گے ؟ اور اگر تم نے ایسے کرلیا تو یقیناً تم بڑے خسارے میں پڑجاؤ گے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ایسے لوگوں کے اس قول کو اس طرح نقل فرمایا گیا ہے ۔ { وَلَئِنَ اتَّبَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَکُمْ اِنَّکُمْ اِذًا لَّخَاسِرُوْنَ } ۔ (المومنون : 34) ۔ سو قرآن حکیم نے لوگوں کی اس مشترکہ اور زمانہ ٔ قدیم سے چلی آنے والی گمراہ کن غلط فہمی کو جگہ جگہ اور طرح طرح سے بیان فرمایا اور بتایا ہے کہ انسان کو اکثر و بیشتر اپنی اسی غلط فہمی سے ٹھوکر لگی ہے اور وہ گمراہی کے گڑھے میں گرا ہے۔ کل بھی اس کو یہی غلط فہمی تھی کہ نبوت اور بشریت دونوں صفتیں یکجا نہیں ہوسکتیں اور آج بھی اس کا حال یہی ہے۔ البتہ فرق یہ ہے کہ کل کے گمراہ انسان نے اپنی اس غلط فہمی کی بناء پر حضرات انبیائے کرام ۔ علیہم الصلوۃ والسلام ۔ کی بشریت طاہرہ کو دیکھتے ہوئے ان کی نبوت و رسالت کا انکار کیا جس سے وہ دوزخ کا ایندھن بن گیا ۔ والعیاذ باللہ ۔ جبکہ آج کا گمراہ انسان ان کی نبوت و رسالت کو ماننے کا دعویٰ کرکے ان کی بشریت کا انکار کرتا ہے۔ غلطی اور غلط فہمی دونوں کی بہرحال ایک ہی رہی ہے کہ نبوت اور بشریت دونوں صفتیں یکجا جمع نہیں ہوسکتیں حالانکہ حق اور حقیقت نفس الامری یہی ہے کہ یہ دونوں صفتیں نہ صرف یہ کہ یکجا ہوسکتی ہیں بلکہ بالفعل اور واقعتا یکجا ہوتی ہیں۔ اور یہی تقاضا ہے عقل و نقل اور فطرت سلیمہ کا۔ اور ان دونوں کے یکجا ماننے ہی کا نام ایمان ہے کہ پیغمبر بیک وقت بشر بھی ہوتا ہے اور نبی رسول بھی۔ جیسا کہ مومن صادق یہ گواہی اس طرح دیتا ہے " اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ "۔ بلکہ عبدیت پہلے ہوتی ہے اور نبوت و رسالت بعد میں۔ سو پیغمبر بشر بھی ہوتا ہے اور نبی و رسول بھی۔ اور یہی تقاضا ہے عقل و نقل اور فطرت سلیمہ کا۔ اور اسی حقیقت کو قرآن و سنت کی نصوص کریمہ میں جابجا اور طرح طرح سے واضح اور آشکارا فرمایا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سب کو حق سمجھنے اور اپنانے کی توفیق بخشے ۔ آمین۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ ان ظالموں نے اپنی سرگوشیوں میں پیغمبر کے بارے میں کہا کہ یہ تو تم ہی جیسا ایک بشر اور انسان ہے۔ سو اگر تم لوگ جانتے بوجھتے اس شخص کے جادو کے پھندے میں پھنس گئے تو یہ تمہاری بڑی سادہ لوحی اور حماقت ہوگی۔ سو اس سے قرآن حکیم کا ایک معجزہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ ان لوگوں نے یہ بات اپنی خفیہ مجلسوں میں اور رازدارانہ طور پر کہی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو اس طرح آشکارا فرما دیا۔ سو یہ کلام اللہ ہی کا کلام ہے جس سے کسی بھی شخص یا گروہ کی کوئی بھی حالت اور کیفیت مخفی نہیں رہ سکتی ۔ سبحانہ وتعالی -
Top